آج فیصلہ کن جنگ ۔۔ سیاست میں شائستگی لازم؟

پنجاب کے دو حلقوں این اے 122,،144میں آج سیاسی دنگل کا فیصلہ ہو رہا ہے ،یہ این اے 122کا نہیں لاہور کا ،پنجاب کا اور پورے ملک کی سیاست کا نیا رخ متعین کرے گا این اے 122کے ضمنی انتخاب کو پاکستان تحریک انصاف اور مسلم لیگ نون نے زندگی اور موت کا مسئلہ بنا لیا ہے ایک دن ایک پارٹی جلسہ کرتی ہے تو دوسرے دن دوسری ،عجب اتفاق ہے کہ دونوں پارٹیوں کے جلسوں اور ریلیوں میں ایک جیسا ہجوم دکھائی دیتا ہے ان پارٹیوں کے رہنما اپنے ہی جلسے کے حاضرین کو دیکھ دیکھ کر آپے سے باہر ہو رہے ہوتے ہیں اسی بنیاد پر دعوی کرتے ہیں کہ وہ مقابلہ جیت چکے ہیں ،فریق ثانی کا اژدھام ان کی نگاہوں سے اوجھل ہوتا ہے اسی طرح جب انتخابی نتائج برآمد ہوتے ہیں تو شکست خوردہ پارٹی کو یہی گمان ہوتا ہے کہ وہ انتخاب واضح طور پر جیت رہی تھی یہ نتیجہ کیونکر برآمد ہو گیا ہے یقینا اس میں دھاندلی ہوئی ہے ،ٹیکنالوجی کے اس زمانے میں اگر ٹیلی ویژن کی آنکھ سے ہجوم کا اندازہ لگانا مقصود ہو تو دس ہزار کے اجتماع کو باآسانی ایک لاکھ یا اس سے بھی زیادہ دکھایا جا سکتا ہے ،اتوار کو لاہور کے اس ضمنی انتخاب کے لئے مہم گزشتہ روز ختم ہو چکی تھی تحریک انصاف کے سربراہ نے اس کے لئے لاہور کے علاقے مزنگ میں اپنی سیاسی قوت کا مظاہرہ کیا تو دوسری طرف مسلم لیگ نون نے اپنی مہم شروع کر رکھی ہے تاہم وہ اپنے جلسوں اور ریلیوں کے شرکاء کی تعداد بتانے کی بجائے اپنا پیغام پھیلانے میں مصروف ہے سمن آباد لاہور کے ڈونگی گراونڈمیں جلسہ کیا اور حمزہ شہباز شریف اور دیگر نے خطاب کر کے مہم کو منطقی انجام تک پہنچایا ، مزنگ کے جلسے سے پہلے عمران خان نے جلسہ گاہ جانے سے پہلے اعلان کیا کہ وہ اہم اعلانات کرنے والے ہیں ایک جگہ تو انہوں نے انکشافات کا لفظ بھی استعمال کیا مگر ان کی تقریر میں کوئی نئی بات نہیں تھی وہی پرانی باتیں وہی الزامات اور اپنے مخالفین کے بارے میں تہدید آمیز گفتگو،اس جلسے سے راولپنڈی کے قلم دوات والی عوامی مسلم لیگ کے سربراہ شیخ رشید احمد نہ صرف موجود تھے بلکہ انہوں نے روایتی گوہر افشانی بھی کی عمران خان کے جلسے کو غیر شائستہ قرار دینے یا اسے سنجیدہ عمل سمجھنے کے لئے اس میں شیخ رشید کا خطاب کافی شہادت ہے ،انہوں نے حکومت کو بد دعائیں دینے کے انداز میں اس کی تباہی و بربادی کی پیش بینی کی حالانکہ ماضی میں ان کی کوئی پیش گوئی درست ثابت نہیں ہوئی ،وہ قیامت کے پیغمبر بنے بیٹھے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔اور اپنی بات ہنگامے اور افراتفری کے حوالے سے شروع کرتے ہیں اور تاخت و تاراج کے جانے پر مکمل کرتے ہیں تحریک انصاف کے جلسے میں موجود نو عمر لوگوں کو شاید یہ باتیں اچھی لگی ہونگی مگر سنجیدہ اور فکر افرازاور رائے عامہ کے صائب طبقے اس نوع کے طرز و تکلم کو قعطی طور پر پسند نہیں کرتے ہیں ،این اے 144اوکاڑا میں عمران خان نے فٹبال گراونڈ میں جلسہ عام سے خطاب کرنے کے لئے سات اکتوبر کو پیپلزپارٹی کے سابق صوبائی وزیر اشرف خان سوہنا جو حالیہ دنوں میں پاکستان تحریک انصاف میں شامل ہوئے ہیں اور پی ٹی آئی کے امیدوار ہیں کی انتخابی مہم سے خطاب کریں گئے اوکاڑا میں بھی پاکستان تحریک انصاف کی حالت کافی خراب ہے آپس کے اختلافات کی وجہ سے وہاں پر آزاد امیدوار ریاض الحق عرف جج کو سپورٹ کر رہے ہیں جس کی خاص وجہ سابق وزیر دفاع راوء سکند اقبال کے صاحبزادے حسن سکندر کر پی ٹی آئی کا ٹکٹ نہ ملنا ہے قد آور سیاسی راہنما پیر صمصام علی شاہ کو بھی ضلعی آرگنائزر چوہدری اظہر کی طرف سے اور سابق ٹکٹ ہولڈر سید عباس رضا رضوی اور ان کے ہمنواوں نے لوکل گورنمنٹ کے بلدیاتی امیدواروں کے انتخاب میں مسلسل نظرانذاز کیا ہے اسی طرح محمد اکرم بھٹی کو بھی نظر انذاز کیا گیا ہے ،اور پی ٹی آئی جو اس انتخاب میں پہلے دوسری تا تیسری پوزیشن میں تھی ان غلط فیصلوں کی وجہ سے اب وہ آخری نمبر پر ہے اوکاڑا کے ضمنی انتخاب مسلم لیگ نون کے علی عارف چوہدری اور مسلم لیگی نون کے ہی جن کو ٹکٹ نہ ملنے پر آزاد امید وار کے طور پر انتخاب میں حصہ لے رہے ہیں ان کے درمیان کانٹے دار مقابلہ ہو گا جبکہ سابق ضلعی نائب ناظم اور سابق ٹکٹ ہولڈر پی پی پی دیپالپور سید عباس رضا رضوی کو اپنی آبائی یونین کونسل رتہ کھنہ سے واضح شکست کا سامنا ہے ،سوال طلب بات ہے کہ جو اپنی آبائی یونین کونسل کی سیٹ نہ بچا ء پائے تو وہ ایم پی اے یا ایم این اے کا الیکشن لڑنے کا خواب کسی ’’دیوانے‘‘ کا ہی ہو گا۔۔۔۔؟ مسلم لیگ نون نے تعمیر و ترقی کے شہنشاہ وفاقی پارلمیانی سیکرٹری صنعت و پیداوار ایم این اے حاجی راؤ محمد اجمل خان اور ایم پی اے ملک علی عباس کھوکھر نے شہر اور یونین کونسلز میں جاندار اور مضبوط امیدوار میدان میں اتارے ہیں جو انکی پختہ سوچ کی عکاس ہیں ۔۔۔پی ٹی آئی کو آدھی یونین کونسلز میں امیدوار ہی نہیں ملے ہیں اوکاڑا میں عمران خان کے جلسے کے بارے میں عمومی رائے کہ جلسے میں رنگوں کی فراوانی ہوتی ہے اچھل کود اور رقص کے وافر مواقع دستیاب ہوتے ہیں یہ بلاشبہ ایک دل آویز شناختی اجتماع کا منظر نامہ بن جاتا ہے جس کے شرکاء کے لئے سکون آور لمحات دستیاب ہوتے ہیں تاہم اس چلن سے سیاست اور سیاستدانوں کا تاثر مجروع ہو رہا ہے این اے 122,144گھمسان کا رن پڑے گا جیتنے والے ہفتہ عشرہ جشن منائیں گئے اور شکست خوردہ دھاندلی کا رونا روتے رہیں گئے ،چند دنوں کے بعد زندگی پھر معمول پر آ جائے گی یہ امر حد درجہ افسوناک ہے کہ فریقین میں سء کوئی بھی کسی بھی پروگرام یا نئے نصب العین کا ذکر نہیں کر رہے دونوں عامیانہ گفتگو میں الجھے ہوئے ہیں یا جو زبان ان جلسوں میں استعمال کی جارہی ہے اس سے پورے ملک میں ہیجانی کیفیت پیدا ہورہی ہے الیکشن کمشن کو ان بیانات کا نوٹس لینے میں تاخیر نہیں کرنی چائیے تھی اور بے جا اخراجات پر بھی نوٹس لینا ضروری تھا ،نجانے کس مصالحت کت تحت خاموشی اختیار کی ہوئی ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔؟
Dr M Abdullah Tabasum
About the Author: Dr M Abdullah Tabasum Read More Articles by Dr M Abdullah Tabasum: 63 Articles with 43937 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.