ایک عہد کی سرگزشت
(Prof Riffat Mazhar, Lahore)
پروفیسرمظہر۔۔۔۔۔سرگوشیاں
متعددبار انہی کالموں میں لکھ چکاکہ صحافت عبادت ہے اورسعادت بھی شرط مگریہ
کہ کثافت سے پاک ہو۔وطنِ عزیزمیں اب کوہِ استقامت کے اُن مکینوں جیسے کہیں
نظرنہیں آتے جو’’شہرِصحافت‘‘ کی تابندہ روایات کے امین ہواکرتے تھے ۔حقیقت
یہی کہ
میں اُن کی راہ دیکھتا ہوں رات بھر
وہ روشنی دکھانے والے کیا ہوئے
اب توعالم یہ کہ سیاستدان بزعمِ خویش زمینی خدااور صحافت ایسے ’’سیاسی
اینکروں‘‘ کے ہتھے چڑھی ہوئی جوبساطِ فتنہ کولپیٹنے اور بکھرے ہوئے شیرازۂ
وحدت کوسمیٹنے کی بجائے مزید ہوادینے میں مگن کہ ریٹنگ کاسوال ہے۔دھرتی ماں
کی یہ حالت کہ ہرگھر میں صفِ ماتم اورہر دَرپہ نوحہ خوانی، افلاس کے تنوروں
میں جلتے نانِ جویں کے محتاج کسی معجزے کے منتظرکہ زیست کی ہرسانس پھانس بن
کرگلے میں اٹکی ہوئی لیکن یہ اپنی دوکانداری چمکانے میں جُتے ہوئے اورحالت
یہ کہ ہرکسی کااپنا اپناقبلہ اپنااپنا کعبہ ۔اب فیصلے پارلیمنٹ یاحکومتی
ایوانوں میں نہیں الیکٹرانک میڈیاکے استھانوں میں ہوتے ہیں۔اِس قحط الرجال
میں انگلیوں پہ گنے چندلوگ آبروئے صحافت، جمیل اطہرقاضی اُن میں سے ایک جن
کی ’’ایک عہد کی سرگزشت‘‘پڑھ کریقین ہوچلا کہ ’’ابھی کچھ لوگ باقی ہیں جہاں
میں‘‘۔یہ اُس شخص کی داستانِ حیات ہے جس نے انتہائی بے سروسامانی کے عالم
میں120 روپے تنخواہ پرکوچۂ صحافت میں قدم رکھااورپھر اپنی محنت ،ریاضت
اورماں کی دعاؤں سے آسمانِ صحافت کی رفعتوں کو چھولیا ،وہ آج چار اخبارات
کامالک ہے ۔یہ ایک ایسے شخص کی آپ بیتی ہے جو نہ صرف قومی سیاسی تاریخ
کاشاہد ہے بلکہ اسے معروف ترین قومی شخصیات کے قرب نے ایساصیقل کیاکہ اُس
نے باتوں ہی باتوں میں پاکستان کی مستندتاریخ رقم کرڈالی ۔ محترم جمیل
اطہرقاضی نے زیست کے دریدہ راستوں پہ اپنی شکستہ پائی کاسارا سفرایک سچے
فنکار کی طرح عیاں کر دیا، کچھ نہاں نہ رکھا ۔ نئی مسافتوں کے کھوج میں
زندگی کے ماہ وسال گزارنے والے جمیل اطہرصاحب نے حیاتِ بے مہارکے ایک ایک
لمحے کارَس نچوڑکر ایک ایسی کتاب مرتب کی جوآنے والی نسلوں کے لیے
مستندحوالہ ہوگی ۔دشتِ حقیقت کے ٹیلوں سے جھانکتی سچائی کے انمول موتیوں کی
چمک سے منور ’’ایک عہد کی سرگزشت‘‘ میں قاری کو وہ سب کچھ مل جاتاہے جس کی
اسے طلب۔ ڈاکٹرمجاہد منصوری نے بالکل درست لکھا۔ ’’ایک عہدکی سرگزشت‘‘
تاریخِ صحافت پرتحقیقی کام کرنے والے پی ایچ ڈی،ایم فِل سکالرز اورایم اے
کے طلباء کے لیے بہت مفید ریفرنس بُک کے طورپر صحافتی تاریخ کے لٹریچر میں
انتہائی مفیداضافہ ہے‘‘۔جمیل اطہرصاحب کی یہ کتاب 108 بچھڑے ہوؤں کی عملی
زندگیوں کا احاطہ کرتی ہے جن میں علمائے کرام ،اخبارات کے مدیران ،کارکن
صحافی ،اساتذہ کرام ،سیاستدان ،روحانی شخصیات ، احباب ،اخبار فروش رہنماء ،بیوروکریٹس
اورشعراء کرام شامل ہیں۔ علمائے کرام میں میرے مُرشدسید ابوالاعلیٰ مودودیؒ
اوراحباب میں میرے انتہائی قریبی دوست پروفیسرظہیر الدین کاذکربھی ہے جسے
پڑھ کرمجھے یونیورسٹی کاوہ زمانہ یادآ گیا جب ذوالفقار علی بھٹو کے
دَورِعروج میں پنجاب یونیورسٹی کے درودیوار ’’سیدی ،مُرشدی ۔۔۔ مودودی ،مودودی‘‘
جیسے نعروں سے گونجاکرتے تھے ۔اُن دنوں مَیں بھی باقاعدگی سے تونہیں لیکن
اکثرمولاناکی ذیلدارپارک اچھرہ میں مولاناکی رہائش گاہ پرنمازِعصر سے مغرب
تک منعقدہونے والی سوال وجواب کی نشستوں میں شریک ہواکرتا تھا۔پروفیسر
ظہیرالدین کے ساتھ توعمرِعزیز کے بہت سے ماہ وسال گزارے ۔ وہ جب پی پی ایل
اے کے جنرل سیکرٹری تھے تواکثر پی پی ایل اے کے صدر رانااصغر علی کے ساتھ
میرے گھرآیا کرتے تھے لیکن جب اِس جہانِ فانی سے رخصت ہوئے توکسی کوکان
وکان خبرتک نہ ہونے دی ۔
جمیل اطہرقاضی صاحب کی سرگزشت 1947ء سے 2015ء تک کے واقعات کی سچے جذبوں
میں گوندھی ہوئی تحریر ہے ۔تقسیمِ ہندکی پیچیدہ ساعتوں میں بے گھری اور بے
دری کے سوگ میں ڈوب کرجمیل اطہرنے لکھا ’’ہم آگ اورخون کے اِس طوفان سے نکل
کربہادرگڑھ کے کیمپ تک پہنچنے میں کامیاب ہوگئے جہاں مسلمانوں کی لُٹے پٹے
قافلے ،سکھوں کی درندگی اوربربریت کابوجھ اٹھائے پاکستان جانے کے منتظر تھے
۔ ہمیں بھی کیمپ میں ایک بیرک میسر آگئی جس کی چھت کی لکڑیاں چولہا روشن
کرنے کے کام آچکی تھیں ۔ایک روز میری والدہ کے حصے میں جو روٹی آئی وہ اُسے
تھام کرمنتظرتھیں کہ اِس کاکچھ حصہ اپنے بیٹوں کو دے سکیں کہ اچانک ایک کتا
روٹی اُن کے ہاتھ سے چھین کرلے گیا ،اپنی والدہ کی آنکھوں میں بے بسی کے
آنسو دیکھ کر اُن کے بچوں کی آنکھیں بھی بھیگ گئیں‘‘۔ ایم کیوایم والے
خودہی فیصلہ کرلیں کہ اصل مہاجرکون ہیں، وہ جوہندوستان کی تقسیم کوغلط
قراردیتے ہیں یا وہ جو اپناسب کچھ لُٹاکر بھی مادرِوطن کے عشق سے سرشارہیں؟۔
جمیل اطہرقاضی صاحب نے جوکچھ دیکھا لگی لپٹی رکھے بغیر بیان کردیا۔ وہ چار
اخبارات کے مالک ہونے کے باوجود انتہائی بے باکی سے لکھ جاتے ہیں کہ
’’حمیدنظامی کانام زبان پرآتا ہے توصحافت کے اُس دور کی یاد تازہ ہوجاتی ہے
جب مدیروں کا قدوقامت صحافت کااصل حسن اوربانکپن تھا۔ جب تصویروں کی بجائے
تحریریں صحافت کی آبروتھیں ۔جب بہنوں اور بیٹیوں کی تصاویرسے اخبارات
کوآراستہ کرنے کی بجائے قلم کوماں بہن کی عصمت کادرجہ دیاجاتا
تھا‘‘۔اُردوادب کے طالب علم کی حیثیت سے مجھے سب سے زیادہ متاثر اُن کی
تحریروں میں جھلکتے ادبی رنگ نے کیا۔یوں محسوس ہوتاہے کہ جیسے الفاظ کی
سواریاں ہاتھ باندھے اُن کے دَرپہ کھڑی ہوں ۔جب وہ لکھتے ہیں ’’حضرتِ انساں
کی زندگی جہاں رنج والم کاعمیق سمندرہے وہیں شگفتگی ،رعنائی اورحسین وخوش
گوار لمحوں کی بھرپور کہکشاں بھی ہے‘‘تومیرے جیسا اُردوادب کاطالب علم ایک
بارچونکتا ضرورہے ۔بھاری بھرکم الفاظکا استعمال کوئی فن نہیں، اصل فن تویہ
ہے کہ ایسے الفاظ تحریرکی روانی کی راہ میں روڑے نہ اٹکائیں۔ جمیل اطہرصاحب
کی چشمِ تصورمیں مولاناظفر علی خاں سے ملاقات کی سرگزشت اِس کامُنہ
بولتاثبوت ہے۔
|
|