آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان کو ملانے کا فیصلہ
(Sardar Ashiq Hussain, Islamabad)
آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان میں
موسم سرما کا آغاز ہوگیا ہے ۔اب شامیں مذیدٹھنڈی ہوگئی ہیں ،گلگت بلتستان
میں برف باری سے اکثر راستے بند ہوجاتے ہیں لوگ گھروں میں محصور ہوجاتے
ہیںتاہم خوشی کی بات یہ ہے کہ آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان کے درمیان پہلا
زمینی راستہ جلد ہی کھل جائے گا ۔گلگت بلتستان کے وزیر اعلی حفیظ الرحمان
اسلام آباد کے این اے ہاوس کے سبزہ زار میں اخبار نویسوں سے بات چیت کرتے
ہوے خوش تھے کہ اب اس پسماندہ خطے کی قسمت بدل رہی ہے ۔ جی بی کی تعمیر و
ترقی سے گہری دلچسپی رکھنے والے حفیظ الرحمان نے ہمیں بتایا کہ اقتصادی
راہداری منصوبے کے تحت آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان کو ملانے کے لیے 82ارب
روپے کا منصوبہ تیار کر لیا گیا ہے ۔ جبکہ شاہراہ ریشم کے علاوہ جی بی کو
4مختلف روٹس کے ذریعے پاکستان سے منسلک کیا جائے گاکہ گلگت بلتستان کو
پاکستان سے ملانے کا واحد راستہ شاہراہ ریشم ہے ۔ اب مزید 4نئے روٹس کے
ذریعے جی بی کو پاکستان سے ملایا جائے گا یعنی شاہراہ ریشم کی طرح 4نئی
سڑکیں بنائی جائیں گی ۔ کے کے ایچ ون تیار ہوگئی ہے بابوسر کے ذریعے
پاکستان سے ملانے والی دوسری سڑک ہوگی۔ تیسری سڑک گلگت سے چترال انڈس ہائی
وے کا منصوبہ ہے جبکہ 82ارب روپے کا شوسٹر پاس منصوبہ بھی ہے ۔ اس منصوبے
کے زریعے استور اور سکردو کے علاقے مظفر آباد سے لنگ ہوجائیں گے ۔ اس راستے
کے ذریعے 8گھنٹوں میں گلگت سے مظفر آباد پہنچا جا سکے گا۔ منصوبے کی فز
یبلٹی تیار ہوچکی ہے ۔ بلکہ کام بھی شروع ہے ۔ آزاد کشمیر کی طر ف سے بھی
کام شروع ہے. حکومت پاکستان نے ریاست جمو ں کشمیر کے ان دو خطوں کے درمیان
زمینی راستیبنانے کے لیے طویل ٹنل بنانے کا فیصلہ کیا ہے ۔ نیشنل ہائی وے
اٹھارٹی جلد ہی اس منصوبے پر کام شر وع کردے گی ۔ منصوبے کے تحت وادی نیلم
کو چار کلو میٹر طویل ٹنل کے زریعے استور سے ملایا جائے گا ۔ جبکہ تائوبٹ
تک شاہراہ بنائی جائے گی۔ آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان کے درمیان زمینی
راستے کی بحالی کے نتیجہ میں دونوں خطوں کے لوگوں کو باہم ملنے اور رابطے
کا ذریعہ میسر آئے گا ۔ گلگت بلتستان اور آزاد کشمیر کے درمیان نیلم استور
ٹینل اسی طرح کا راستہ ہو گا جیسا مقبوضہ کشمیر میں وادی اور جموں کے
درمیان سرینگر جموں ہائی ٹنل کا ہے ۔ سری نگر جموں ہائی وے پر ٹنل کے ذریعے
وادی کو جموں سے ملایاگیا ہے ۔ وفاقی حکومت نے اسلام آباد مری مظفر آباد
ایکسپر یس وے کی بھی منظوری دے رکھی ہے چنانچہ اسلا م آباد مظفر آباد
ایکسپر یس وے ، اور نیلم استو ر ٹنل کی تکمیل کے نتیجہ میں گلگت بلتستان کے
لوگ آٹھ گھنٹے میں اسلا م آباد پہنچ سکیں گے یہ ایک نئی تجارتی راہداری بھی
ہوگی جس کے نتیجہ میں گلگت بلتستان کے لو گوں کے رابطے نہ صر ف آزاد کشمیر
بلکہ پاکستان سے بھی استوا ر ہو ں گے ۔ دونوں خطوں کے لو گو ں کو باہم
رابطہ کے لیے 18سے 2گھنٹے تحویل سفر کے بجائے آٹھ گھنٹے میں اپنی منزل پر
پہنچنے کی سہولت حاصل ہو جائے گی ۔ آزاد کشمیر کے تعلیمی اداروں بلخصوص
آزاد جموں کشمیر یو نیورسٹی اور آزاد کشمیر کے میڈ یکل کالجز میں گلگت
بلتستان کے طلبہ کے لیے نشستیں مختص ہیں ۔ اب اس منصوبے سے گلگت بلتستان کے
طلبہ کی آزاد کشمیر آنے میں حائل سفری مشکلات ختم ہو جائیں گئی ۔ اس وقت
بھی بڑی تعداد میں گلگت بلتستان کے طلبہ آزاد کشمیر میں مقیم ہیں ۔
راولاکوٹ میں پونچھ یونیورسٹی اور میڈیکل کالج میں زیر تعلیم طلبہ مو جو د
ہیں ۔ مسقبل میں گلگت بلتستان کے طلبہ کو براستہ نیلم ویلی تقریبا آٹھ
گھنٹے میں راولا کو ٹ آمد ممکن ہو سکے گی ۔ آزادکشمیر قانون ساز اسمبلی کے
سابق سپیکر اور مسلم لیگ (ن)آزاد کشمیر کے سیکر ٹری جنرل شاہ غلام قادر نے
اب نیلم ویلی کو اپنا حلقہ انتخاب بنا لیا ہے ۔ سپریم کورٹ آزاد کشمیر نے
ان کے اس راستے میں حائل رکاوٹیں ختم کر دی ہیں۔ ریاستی سطح کی شخصیت کی اس
پسماندہ علاقے سے دلچسپی سے مقامی مسائل کے حل میں مدد ملے گی ۔ ۔ جناب شاہ
غلام قادر کے مطابق نیلم استور ٹنل دو خطوں کے درمیان رابطے کے لیے ایک سنگ
میل ثابت ہو گا ۔ ان کا کہنا تھا کہ نیلم ویلی میرا حلقہ انتخاب بھی ہے اور
ریاست کا ایک اہم اور پسماندہ علاقہ بھی ہے ۔ نیلم استور ٹنل سے خطے کی
پسماندگی دور کرنے میں مدد ملے گی ۔ جناب شاہ غلام قادر کی بات درست ہے
تاہم دیکھنا یہ ہے کہ منصوبے پر کب کام شروع ہوتا ہے اور منصوبہ کب مکمل
ہوتا ہے ۔جب سے ہم نے آنکھ کھولی ہے گلگت بلتستان آزاد کشمیر والوںکے لیے
ایک طر ح سے علاقہ ممنوعہ ہی رہا ہے۔ دونوں خطوں کے درمیان رابطے نہ ہو نے
کے برابر تھے ۔ مجھے معلوم نہیں یہ کون سی پالیسی ہے کہ دونون خطوں کے
لوگوں کو الگ الگ رکھا گیا ۔ اس پالیسی کے کے نتیجہ میں دونوں خطوں کے لوگو
ں میں سیاسی و سماجی رابط قائم نہ ہو سکے اب جبکہ رابطے استوار ہو رہے ہیں
مختلف سیاسی رکاوٹیں درمیان میں حائل ہو رہی ہیں۔ آزاد کشمیر کی قیادت اور
عوام کی غالب اکثریت گلگت بلتستان کو ریاست جموں کشمیر کا حصہ تصور کر تی
ہے ۔ آئین پاکستان کے آرٹیکل 257کے تحت آزاد کشمیر پاکستان کا حصہ نہیں اسی
طرح گلگت بلتستان بھی ایک الگ شناخت رکھتا ہے ۔دوسری طر ف گلگت بلتستان کے
لو گو ں کی رائے مختلف ہے وہاں کے لو گ پاکستان کا صوبہ بننے کے لیے بے تاب
ہیں۔ ان کے نزدیک آزاد کشمیر کے ساتھ کسی طرح کے تعلق سے بہتر ہے پاکستان
کا صوبہ بننا۔ گزشتہ دنوں سینٹ کی قائمہ کمیٹی برائے گلگت بلتستان کے اجلاس
میں یہی موضوع زیر بحث رہا ۔ پیپلز پارٹی کے سینیٹر رحمان ملک نے تجویز دی
کہ گلگت بلتستان کے مستقبل مکا فیصلہ کرنے کے لیے وہاں ریفرنڈم کے زریعے
لوگوں کی رائے حاصل کی جائے ۔ ریفرنڈم کے زریعے لوگوں کی رائے حاصل کرنے کی
تجویز اچھی مگر قبل از وقت ہے ۔ اس لیے کہ وفاقی حکومت نے گلگت بلتستان میں
سیاسی و آئینی اصلاحات کے لیے اعلی سطحی آئینی کمیٹی قائم کر دی گئی ہے۔13
اکتوبر 2015 کوآئینی اصلاحات کی کمیٹی کا نوٹیفکیشن جاری کردیا گیا، کمیٹی
کے سربراہ سرتاج عزیز ہوں گے کمیٹی میں بہت جلد آئینی ماہرین کی تجاویز،
اصلاحات اور سفارشات شامل کی جائیں گی۔ جو بھی کچھ کرنا اس کی سفارش یہی
کمیٹی کرے گی ۔ وزیر اعظم نواز شریف نے اپریل میں دورہ گلگت بلتستان کے
موقع پر کمیٹی کے قیام کا علان کیا تھا تاہم بعض وجوہات کی بنا پر کمیٹی
قائم نہیں ہوسکی تھی ۔ بدھ کے روز وزیر اعلی گلگت بلتستان حافظ حفیظ الرحمن
نے وزیر اعظم محمد نواز شریف سے ملاقات کی ملاقات میںگلگت بلتستان کی آئینی
کمیٹی کی تشکیل پر تبادلہ خیال کیا تھا۔ وزیر اعظم نواز شریف کے مشیر امور
خارجہ سرتاج عزیز کی سربراھی میں کمیٹی گلگت بلتستان کے لیے صوبائی طرز کا
سیٹ اپ، پاکستان کی قومی اسمبلی اور سینٹ میں نمایندگی،اور آزاد کشمیر کی
طرز پر سیٹ اپ دینے کی تجاویز پر غور کر سکتی ہے ، کمیٹی گلگت بلتستان کے
سیاسی رہنماوں کی تجاویز پر بھی غور کرے گی ، کمیٹی مختلف تجاویز پر غور کے
بعد گلگت بلتستان کے اہنی حقوق کے لیے وفاقی حکومت کو سفارشات پیش کرے گی ۔
خیال کیا جاتا ہے کہ کمیٹی کی سفارشات کے نتیجے میں گلگت بلتستان امپاور
منٹ اینڈ سیلف گورننس آرڈر 2009 کے بجائے مستقل سیٹ اپ کی سفارش کرے
گی۔وزیر اعلی گلگت بلتستان حافظ حفیظ الرحمن سے جب ان سے پوچھا گیا کہ گلگت
بلتستان کو قومی مالیاتی کمشن سمیت دوسرے وفاقی اداروں میں نمائندگی کے
مطالبے کا کیا بنا؟ وزیر اعلی نے کہا کہ مشیر امور خارجہ سرتاج عزیر کی
سربراہی میں کمیٹی قائم کر دی گئی ہے ۔ اب یہ سارے معاملات کمیٹی دیکھے گی
۔ یاد رہے اگست 2009 میں پاکستان پیپلز پارٹی کی وفاقی حکومت نے علاقے میں
گلگت بلتستان امپاور منٹ اینڈ سیلف گورننس آرڈر 2009 کے نام سے سیاسی
اصلاحات متعارف کرا ئی تھیں اس علاقے کو صوبائی طرز کا سیٹ اپ دیا گیا جن
میں اس علاقے کی اپنی قانون ساز اسمبلی اور گلگت بلتستان کونسل کے علاوہ
مقامی گورنر ،وزیر اعلی ، صوبائی کابینہ ،الگ پبلک سروس کمیشن، سروسز
ٹریبونل، آڈیٹر جنرل، الیکشن کمیشن سمت دیگر اصلاحات شامل تھے۔ گلگت
بلتستان کی سیاسی قیادت مکمل صوبائی حقوق کا مطالبہ کر رہے ہیں جبکہ آزاد
کشمیر کے سیاسی رہنما گلگت بلتستان کو صوبہ بنانے کے بجائے زاد کشمیر کی
طرز پر سیٹ اپ دینے کی تجاویز دے رہے ہیں ۔گلگت بلتستان امپاور منٹ اینڈ
سیلف گورننس آرڈر 2009 کے تحت گذشتہ پانچ سالوں سے گلگت بلتستان کا نظام
چلایا جاتا رہاہے کی بنیادی خامی یہ ہے کہ یہ ایک انتظامی حکم نامہ ہے۔
مسلم لیگ ن کی حکومت گلگت بلتستان کے اہنی حقوق کا معاملہ مستقل بنا دوں پر
حل کرنا چاہتی ہے ۔ جموں کشمیر لبر یشن فرنٹ کے سپریم ہیڈ امان اللہ خان کا
تعلق بھی گلگت بلتستان سے ہے ۔ تاہم ان کی زندگی کا بشتر حصہ کراچی اور
راولپنڈی میں گزرا ہے۔ ۔جناب امان اللہ خان کی صحت نے انہیں کشمیر کاز کے
لیے متحرک رہنے سے روک رکھا ہے اب وہ آزادانہ نقل و حر کت کرنے سے قاصر ہیں
۔کمزور ہوچکے ہیں گفتگو کر نے سے بھی تھک جاتے ہیں۔ اللہ تعالی ان کو صحت
دے، کشمیر کے لیے ان کی خدمات ناقابل فراموش ہیں ۔نیلم ، استو ر ٹنل جناب
امان اللہ خان کے لیے بھی ایک دلچسپی کی بات ہے ۔ اس لیے کہ امان اللہ خان
کی زندگی خود مختار کشمیر اور کشمیر کی وحدت کی بحالی کی جدو جہد میں گزری
ہے ۔ دو خطوںکے درمیان ٹنل دراصل وحدت کشمیر کی بحالی کی سمت سفر ہے۔ |
|