قومی اداروں کی تباہی....معاشی ترقی کیسے ممکن ہے؟
(عابد محمود عزام, Karachi)
قومی اداروں کا استحکام ہی
ملکوں کو مستحکم بناتا ہے۔ ملکوں کی معاشی ترقی کا دارومدار قومی اداروں کی
ترقی سے وابستہ ہوتا ہے۔ اگرقومی ادارے ترقی کی بجائے تنزلی کی جانب گامزن
ہوجائیں تو ملک ترقی نہیں کرسکتا۔ قومی اداروں کا قیام تو آسان، لیکن ان کا
استحکام بہت مشکل ہوتا ہے۔ ادارے قائم تو صرف ایک حکم نامے پر ہوجاتے ہیں
لیکن انہیں مضبوط بنیادوں پر استوار کر کے قومی اثاثہ بنانا مشکل ہے۔
پاکستان میں اداروں کی نت نئی تخلیق اور تشکیل کا عمل ہر دور اور ہر قسم کے
حالات میں جاری رہتا ہے، لیکن اکثر ادارے مستحکم بنیادوں پر قائم نہیں
ہوپاتے، کیونکہ ہر حکومت اپنی ترجیحات کو سامنے رکھتے ہوئے ادارے قائم کرتی
ہے اور اربوں روپے کے اخراجات سے وقتی ضروریات اور ذاتی مفادات کے لیے قائم
کیے جانے والے یہ ادارے ارتقائی عمل کے دوران ہی دم توڑ جاتے ہیں۔ ایک
ادارے کے غیر فعال ہونے کے منفی اثرات دوسرے اداروںپر بھی پڑتے ہیں اور
ادارے کمزور ہوتے چلے جاتے ہیں۔ پاکستان میں ریاست کے زیر انتظام چلنے والے
بیشتر اداروں کی صورت حال انتہائی نہ گفتہ بہ ہے۔ تنزلی کی جانب گامزن ان
اداروں کی کارکردگی اور ان میں ہونے والا وسائل کا ضیاع حکومت کے لیے ایک
بڑا چیلنج ہے۔ پاکستان میں تیل، اسٹیل، کھاد اور نقل و حمل سمیت سرکاری
سرپرستی میں چلنے والے درجنوں ادارے خسارے میں جا رہے ہیں۔ ماضی میں
حکومتیں ان اداروں میں بہتری لانے میں ناکام رہیں اور اب بھی ان اداروں کی
صورت حال بہتر نہیں ہوئی ہے۔ اس پر مستزاد یہ کہ ان اداروں کو من پسند
افراد کے حوالے کردیے جانے کی وجہ سے یہ ادارے مزید تباہی کے دہانے پر پہنچ
گئے ہیں۔ اگر یہ کہا جائے تو بجا ہوگا کہ کسی بھی حکومت نے سنجیدگی سے قومی
اداروں کی ترقی پر بھرپور توجہ نہیں دی، بلکہ ہمیشہ اپنی ترجیحات اور
مفادات کو سامنے رکھتے ہوئے اقدامات کیے ہیں۔ قومی اداروں کی تباہی میں
سیاسی مداخلت، نااہل افراد کی تقرری، عملے کی زیادتی، مارکیٹ کے لیے جامع
حکمت عملی کی عدم تیاری اور غیر متوقع حالات سے نمٹنے کے منصوبے کی ناکامی
کے عوامل شامل ہیں، لیکن کسی حکومت نے خسارے کا سبب بنے والے ان عوامل سے
قومی اداروں کو چھٹکارہ دلانے کی کوشش ہی نہیں کی اور معاملہ جوں کا توں
چلا آرہا ہے۔ پی آئی اور اسٹیل ملز ملک کے دو بڑے ادارے ہیں۔ اگر حکومت
اپنی ذمہ داری سمجھتے ہوئے سنجیدگی سے ان دونوں اداروں پر محنت کرے تو یہ
ادارے ملک کو بہت کچھ کما کر دے سکتے ہیں، لیکن حکومت کی عدم توجہی کے
باوجود یہ دونوں مسلسل خسارے میں جارہے ہیں، جبکہ خسارے پر قابو پانے کی
بجائے حکومت ان کی نج کاری کرنے پر تلی ہوئی ہے، جو کسی طور بھی بہت حل
نہیں ہے۔
پی آئی اے ایک بڑی ائیر لائن کمپنی ہے، جس کی پروازیں بیرونی دنیا کے 38
ممالک تک جاتی ہیں، جبکہ نیٹ ورک 62 ممالک تک ہے۔ اندرون 24 منازل تک جاتی
ہیں۔ ہر سال پی آئی اے میں تقریباً 60 لاکھ مسافر سفر کرتے ہیں۔ ان میں سے
33 لاکھ افراد بین الاقومی منازل کی طرف، جبکہ باقی افراد اندون ملک سفر
کرتے ہیں۔پی آئی اے کے پاس اس وقت جہازوں کی تعداد35 ہے اور عملے کا تناسب
فی جہاز 500 افراد ہے، جو دنیا بھر میں سب سے زیاد ہ ہے اور 400سے 500 تک
پائلٹوں کی تعداد ہے۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق پی آئی اے میں ملازمین کی
تعداد مطلوبہ تعداد سے کم ازکم پانچ گنا زیادہ ہے۔ اعداد و شکار کے مطابق
پی آئی اے میں اس وقت 18 ہزار ریگولر اور 3 ہزار سے زاید افراد یومیہ اجرت
پر کام کر رہے ہیں، اس طرح کل ملازمین کی تعداد 21 ہزار کے لگ بھگ ہے۔ پی
آئی اے کو ہر سال 305 ملین امریکی ڈالر کے برابر خسارے کا سامنا کرنا پڑتا
ہے۔ گزشتہ دنوں پاکستان ائرلائنز پائلٹس ایسوسی ایشن (پالپا) اور پی آئی کے
تنازع کی وجہ سے کئی پروازیں منسوخ ہوئیں جس کی وجہ سے قومی ادارے کو بھاری
نقصان اٹھانا پڑا ہے۔
گزشتہ روز چیئرمین پی آئی اے کا کہنا تھا کہ قومی ایئرلائن کی مالی اور
انتظامی حالت انتہائی خراب ہے۔ ایئرلائن اس وقت 300 ارب روپے کی مقروض ہے۔
پی آئی اے کو تباہی کے دہانے تک پہنچانے میں ہم سب کا ہاتھ ہے، اس کو
سدھارنے کے لیے صرف ایک سال کافی نہیں ہے، نیب اور ایف آئی اے کے خوف کی
وجہ سے کوئی بھی اہل شخص پی آئی اے میں ذمہ داریاں سنبھالنے کے لیے تیار
نہیں ہوتا ہے۔ پی آئی اے کو سالانہ 30 سے 40 ار ب روپے اپنے قرضوں کی ادائی
اور آپریشنل معاملات کو چلانے کے لیے درکار ہوتے ہیں۔ پی آئی اے کے چیئرمین
ناصر حسن جعفر کا کہنا تھا کہ پی آئی اے اس وقت شدید مالی بحران کا شکار
ہے۔12 ارب روپے صرف 5منٹ میں ختم ہوگئے، سالانہ 30سے40ارب روپے پی آئی اے
کو چلانے کے لیے درکار ہوتے ہیں۔
دوسری جانب ملک کے بدحال اداروں میں سے ایک اسٹیل ملز بھی ہے۔ شہر قائد سے
40کلومیٹر کی مسافت پر تعمیر ہونے والے اس عظیم ادارے کی پیداواری
صلاحیت11لاکھ ٹن سے 30 لاکھ ٹن سالانہ ہے، لیکن کرپشن، سیاسی بنیادوں پر
ہونے والی تقرریوں اور دیگر عوامل نے پاکستان میں صنعتوں کی ماں کہلانے
والے اس ادارے کو تباہی کے دہانے پر لاکھڑا کیا ہے۔ 18ہزار 600 ایکڑ سے
زاید رقبے پر محیط اس ادارے کو پاکستان کا سب سے بڑا انڈسٹریل کمپلیکس ہونے
کا اعزاز بھی حاصل ہے۔ تاہم خام مال کی قلت اور بدعنوانیوں کی وجہ سے یہ
ادارہ اب تباہی کے دہانے پر کھڑا ہے اور گزشتہ چھ سال میں صرف خام مال کی
خریداری میں بدعنوانی کے بیس کیسز سامنے آچکے ہیں، جب کہ معاشی سال 2008
میں3 ارب سے زاید خالص منافع کمانے والے ادارے کو 2008 کے بعد سے ڈرامائی
طور پر ہر سال خسارے کا سامنا ہے۔
دوسری طرف تقریباً ایک دہائی سے پاکستان اسٹیل ملز کی نج کاری کی کوششیں
جاری ہیں اور 2006 میں اس ادارے کو تقریباً فروخت کر ہی دیا گیا تھا، تاہم
اس حکومتی فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ آف پاکستان میں سیکشن184(3) کے تحت
دائر کی گئی پٹیشن پر کارروائی کرتے ہوئے سپریم کورٹ کے نو رکنی بینچ نے نج
کاری کو کالعدم قرار دے دیا تھا۔ موجودہ حکومت میں بھی پاکستان اسٹیل ملز
کی نج کاری کی کوششیں کی جارہی ہیں۔ پاکستان اسٹیل ملز کو صنعتوں کی ماں
کہا جاتا ہے، لیکن بڑے پیمانے پر ہونے والی بد عنوانی، اقربا پروری اور
نااہلی نے اس منافع بخش ادارے کو زبردست نقصان سے دو چار کر دیا ہے۔ اگر اس
ادارے کو پیشہ ورانہ اصولوں پر چلانے کے لیے مناسب حکمت عملی وضح کی جائے،
اعلیٰ انتظامی عہدوں اور بورڈ آف ڈائریکٹرز کی تقرریاں پیشہ ورانہ اصولوں
پر کی جائیں تو یہ ادارہ دوبارہ منافع بخش ہو سکتا ہے۔حال ہی میں نجکاری
کمیشن کے چیئرمین محمد زبیر کی سربراہی میں پاکستان اسٹیل ملز کی فروخت کے
لیے چین کے شہر وہان میں روڈ شوزبھی منعقد کیے تھے۔ گزشتہ چند سالوں میں
انتظامیہ کی بدترین کرپشن نے پاکستان کے اس منافع بخش ادارے کی جڑوں کو
کھوکھلا کرکے اسے بیساکھیوں پر کھڑا کردیا ہے۔ گزشتہ روز چینی میٹلر جیکل
گروپ کارپوریشن نے پاکستان ا سٹیل ملز کی نجکاری میں دلچسپی کا اظہار کیا
ہے۔ کمپنی چین کی 500بڑی کمپنیوں میں سے ایک ہے جو چین میں سب سے زیادہ
اسٹیل پیداکرتی ہے ،کمپنی سالانہ ریونیو 36ارب ڈالر جبکہ اسکے کل اثاثہ جات
کی مالیت 30ارب ڈالر ہے۔
پاکستان ریلوے کا شمار بھی ملک کے بدحال اداروں میں سے ہوتا تھا، لیکن،
لیکن خواجہ سعد رفیق کی جانب سے توجہ دنے پر آج یہ ادارہ نہ صرف خسارے سے
نکل گیا ہے، بلکہ ملک کو کماکر دینے لگا ہے۔ پاکستان ریلوے بحالی کی پٹڑی
پر چڑھ چکا ہے اور ریلوے کی مالی حالت بہتر ہونا شروع ہو گئی ہے۔ مبصرین کے
مطابق اگر دیگر اداروں پر بھی ریلوے کی طرح توجہ دی جائے تو بہت جلد خسارے
میں جانے والے تمام قومی ادارے منافع بخش بن سکتے ہیں۔ ملک معاشی طور پر
عدم استحکام کا شکار ہے۔ ملک بے روزگاری، غربت اور دیگر بہت سے مسائل میں
دھنسا ہوا ہے، جن سے چھٹکارہ حاصل کرنے کے لیے ضروی ہے کہ قومی ادارے
مستحکم ہوں۔ اگر قومی ادارے مستحکم نہیں ہوتے تو ملک کا ترقی کا کرنا بھی
مشکل ہے۔
|
|