فرزند ملتان کی بے چینی
(عبدالرزاق چودھری, lahore)
شاہ محمود قریشی کے سیاسی کیرئیر کے تناظر میں تحریر |
|
ان دنوں شاہ محمود قریشی کے
حوالے سے میڈیا میں خبر گرم ہے کہ شاہ محمود قریشی تحریک انصاف چھوڑنے پر
غو رکر رہے ہیں۔اگرچہ اس خبر پر تصدیق کی مہر تو ثبت نہیں ہوئی لیکن واقفان
حال کا کہنا ہے کہ دال میں کچھ کالا ضرور ہے۔سیاست کے سربستہ
رازوں،وارداتوں اور گھاتوں سے شناساصاحب بصیرت لوگوں کا استدلال ہے کہ جب
سے سابق گورنر چودھری سرور تحریک انصاف کے قافلے میں شامل ہوے ہیں شاہ
محمود قریشی کچھ بجھے بجھے اور بے چین نظر آتے ہیں ۔اس ساری صورتحال کے
تناظر میں میری سوچوں کی پرواز ماضی کے دھندلکوں میں سیر کو چل پڑی اور
نگاہوں میں وہ منظر گھوم گیا جب شاہ محمود قریشی پیپلز پارٹی سے ناراض
ہوے۔اقتدار کو شان بے نیازی سے ٹھوکر مارتے ہوے پیپلز پارٹی سے دیرینہ
سیاسی رشتے کو منقطع کر کے نئے سیاسی پلیٹ فارم کی تلاش میں سرگرداں ہو
گئے۔یہ وہ وقت تھا جب شاہ محمود قریشی کے پاس یہ آپشن موجود تھا کہ وہ دو
مقبول پارٹیوں مسلم لیگ ن اور تحریک انصاف میں جب چاہیں عزت و وقارکے پیرہن
میں شمولیت اختیار کر لیں کیونکہ ان دنوں مذکورہ سیاسی جماعتیں شاہ محمود
قریشی کی راہ میں آنکھیں بچھائے کھڑی تھیں اور شاہ محمود کو اپنی جماعت کا
حصہ بنانے کے لیے مضطرب بھی تھیں۔شاہ محمود قریشی نے کچھ دنوں کی سوچ بچار
کے بعد قومی سیاسی افق پر ابھرتی ہوئی سیاسی جماعت تحریک انصاف کو ترجیح دی
اور یوں جنون کا باقاعدہ حصہ بن کر نئے پاکستان کی تخلیق کا گیت گانے والوں
کی کشتی میں سوار ہو گئے۔جب شاہ محمود تحریک انصاف کے ہمسفربنے تو اس وقت
تحریک انصاف کے دامن میں قد آور سیاستدان نہ ہونے کے برابر تھے یہی وجہ تھی
کہ تحریک انصاف کی قیادت نے شاہ صاحب کو ہاتھوں ہاتھ لیا اور قریشی صاحب
پارٹی کے ہر معاملے اور فیصلوں میں کلیدی اہمیت اختیار کر گئے۔اک مدت تک یہ
سلسلہ یونہی چلتا رہا لیکن پھر آہستہ آہستہ تحریک انصاف کا کارواں بڑھتا
چلا گیااوردیگر کہنہ مشق سیاستدان دان بھی چڑھتے سورج کی پوجا کرنے تحریک
انصاف کی سیاسی چھتری تلے جمع ہونا شروع ہو گئے اور یہ لامتناہی سلسلہ
جہانگیرترین سے ہوتا ہوا چوہدری سرور تک آن پہنچا۔چوہدری سرور جو ، ن لیگ
حکومت کی مرہون منت گورنر کے عہدے پر فائز تھے ن لیگی قیادت سے چند سیاسی
نکات پر اختلافات کے سبب گورنر شپ سے مستعفی ہو گئے اور انہوں نے موقف
اختیار کیا کہ وہ برطانیہ کی پرآسائش طرز زندگی کو چھوڑ کر محض ملک و قوم
کی خدمت کرنے کے لیے پاکستان تشریف لائے ہیں عوامی سطح پر ان کے اس موقف کو
بڑی پزیرائی ملی اور ان کے سیاسی قد کاٹھ میں بھی اضافہ دیکھنے کو ملا اور
پھر جب وہ تحریک انصاف کی صف میں شامل ہو گئے تو بہت جلد اپنی سیاسی بصیرت
کے بل بوتے پر کپتان سمیت کارکنوں کے دل میں گھر کر گئے۔جلد ہی چودھری سرور
کو پارٹی میں اہم ذمہ داریاں مل گئیں اور چودھری سرور فعال و متحرک ہو گئے
۔یہی وہ مقام تھا جب شاہ محمود قریشی کو احساس ہونا شروع ہوا کہ چودھری
سرور پارٹی میں غیر معمولی حیثیت اختیار کرتے جا رہے ہیں اور وہ تحفطات کا
شکار ہو گئے اور ممکن ہے پچھتا بھی رہے ہوں کہ ن لیگ میں ہوتے تو کم از کم
وزیر خارجہ تو ضرور ہوتے ۔
اگر شاہ محمود قریشی کے سیاسی کیرئیر کا مختصر سا جائزہ لیں تو معلوم ہو گا
کہ شاہ محمود نے انیس سو تراسی میں بلدیاتی انتخاب میں حصہ لے کر اپنے
سیاسی کیرئیر کا باقاعدہ آغاز کیا اور بعد ازاں انیس سو پچاسی میں صوبائی
اسمبلی کے رکن منتخب ہوے۔ اور کچھ عرصہ بعد مسلم لیگ سے وابستہ ہو گئے ۔شاہ
صاحب انیس سو ترانوے میں مسلم لیگ کو چھوڑ کر پیپلز پارٹی سے منسلک ہو
گئے۔اور پھر جب دو ہزار آٹھ کے الیکشن میں پیپلز پارٹی بر سراقتدار آئی تو
شاہ محمود وزیرخارجہ کے عہدے پر فائز ہو گئے۔دوران وزارت زرداری حکومت سے
اختلافات پیدا ہو گئے اوریوں شاہ صاحب کی راہیں پیپلز پارٹی سے جدا ہو گئیں
اور انہوں نے نیا سیاسی مسکن تحریک انصاف کی صورت منتخب کیا۔
شاہ محمود قریشی سے متعلق اس وقت افواہیں سر گرم ہوئیں جب عوام الناس نے ان
کو حلقہ این اے ایک سو بائیس کی انتخابی مہم اور منعقدہ جلسہ عام سے غائب
پایا۔اگرچہ انہوں نے اس ضمن میں اپنا موقف پیش کر دیا ہے اور کہا ہے کہ جس
دن جلسہ تھا اسی دن ان کی فسٹ کزن کی نمازہ جنازہ تھی لیکن سیاسی منظر نامے
پر گہری نگاہ رکھنے والوں کو ان کا یہ بیان تسلی بخش نہیں لگا اور چہ
میگوئیوں کا سلسلہ ہنوز جاری ہے اور یہ افواہ بڑی شدو مد سے پھیلتی جا رہی
ہے کہ وہ تحریک انصاف سے علیحدگی کا سوچ رہے ہیں۔ شاہ محمود قریشی ایک زیرک
اور جہاندیدہ سیاست دان ہیں۔ان کو اس بات کا یقیناًادراک ہو گا کہ اگر وہ
اس موقع پر پارٹی سے کنارہ کشی اختیارکرتے ہیں تو ان کی سیاسی حیثیت کیا رہ
جائے گی ۔اور وہ یہ بھی جانتے ہوں گے کہ سیاسی قلا بازیاں کھاتے سیاستدانوں
کو عوام پسند کرتی ہے اور نہ ہی سیاسی جماعتوں میں ان کو عزت کی نگاہ سے
دیکھا جاتا ہے۔اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے اگر تو قریشی صاحب نے تحریک انصاف
اقتدار کے حصول کے لیے جوائن کی تھی پھر تو وہ پچھتاوے کے انگاروں پر لوٹ
رہے ہوں گے او ر کف افسوس مل رہے ہوں گے کہ انہوں نے تحریک انصاف کیوں
جوائن کی اگر وہ ن لیگ کی صف میں شامل ہو جاتے تو آج کم از کم وزیر خارجہ
تو ضرور ہوتے۔اور اگر نظریے کی پیروی میں تحریک انصاف کے شانہ بشانہ کھڑے
ہوے ہیں تو پھر تحمل،بردباری اور سیاسی بصیرت جو ان کا طرۂ امتیاز ہے کے
سلسلہ کو جاری رکھیں۔اور اگر جذباتی کیفیت ان پر غالب آ گئی اور پارٹی کو
الوداع کہہ بیٹھے تو ان کا حال بھی جاوید ہاشمی جیسا ہو گا جو ادھر کے رہے
نہ ادھرکے۔شاہ محمود قریشی کو صائب مشورہ ہے کہ وہ جہاں ہیں جیسے ہیں کی
بنیاد پر مناسب وقت کا انتطار کریں حالات کسی بھی وقت ان کی حسب منشا رخ
بدل سکتے ہیں اور اگر وہ تحریک انصاف کا دامن چھوڑ کر کہیں اور چلے گئے تو
وہاں انہیں ہمیشہ شک کی نگاہوں سے دیکھا جائے گا اور جو مقام،مرتبہ اور
حیثیت انہیں تحریک انصاف میں حاصل ہے اس کو بھی ترستے رہیں گے۔شاہ صاحب چشم
بینا کے حامل سیاستدان ہیں امید ہے جو بھی سوچ رہے ہوں گے اس کا منطقی
نتیجہ مثبت ہی ہو گا۔ |
|