مجلس احباب ملت کی ماہانہ نشست
(ابن عظیم فاطمی, Karachi)
اے۔خیام کا تازہ افسانہ"آشیانہ"
پروگرام کے مطابقمجلس احباب ملت کی ماہانہ نشست مجلس کے معتبرافسانہ
نگار،ناول نگار،مضمون نگار اے۔خیام کے دولت کدے پر مجلس کے صدر گرامی
معروف،معتبر اور بزرگ شاعرخواجہ منظر حسن منظر کی صدارت میں ہوئی جسکی
نظامت حسب معمول راقم(ابن عظیم فاطمی) کے سپرد تھی جبکہ آیات ربانی کی
تلاوت کا شرف حسب روایت صدیق فتح پوری کے حصے میں آیا۔
نشست کی ابتدا ء آیات ربانی کی تلاوت سے ہوئی جسکی سعادت جناب صدیق فتح
پوری کے حصے میں آئی بعد ازاں مجلس کے دیرینہ ساتھی رضی صدیقی ( معروف ادیب،
شاعر اور نقاد پروفیسر نظیر صدیقی کے چھوٹے بھائی )جو گزشتہ دنوں انتقال
فرماگئے تھے کے لئے دعائے مغفرت کی گئی جس کا شرف راقم کے حصے میں آیا۔
پروگرام کے مطابق اے۔خیام نے اپنا تازہ افسانہ "آشیانہ" کے عنوان سے پیش
کیا۔
گفتگو کی ابتداء سہہ ماہی "انشاء"کے مدیر اور معروف شاعر صفدر علی خان نے
کی۔انہوں نے کہا کہ افسانہ اچھا ہے۔آخری سطور سننے کے بعد میں اس نتیجے پر
پہنچا کہ اس کا عنوان"مکافات عمل"بھی ہوسکتا تھا۔مجموعی طور پر معاشرتی
اقدار کی پامالی پر ایک پر تاثر اور کامیاب افسانہ ہے۔
مشرق صدیقی نے کہا کہ یہ افسانہ اپنے نام کی مناسبت سے انتہائی خوبصورتی سے
لکھا گیا ہے۔معاشرتی اقدار کی بگڑتی ہوئی صورتحال پر اچھا افسانہ ہے۔شوہر
کی آخری دنوں میں کہی گئی باتیں "کہ اس کا بہت خیال رکھنا اور اسکی ہر ضد
پوری کرنا "کے جواب میں "ماں"کا "اچھا"کہ کر بات مان لینا اور پھر ساری
زندگی اس پر قائم رہنا وغیرہ اور چھوٹی چھوٹی جزیات پر خوبصورتی سے مختصر
جملوں نے افسانے کو بہت پر اثر بنا دیاہے۔مغرب میں Old Homeـکے فروغ کا اثر
مشرق میں بھی ہونے لگا جس کے نتیجے میں مختلف ناموں سے بوڑھے لوگوں کو جب
انہیں اپنوں کی زیادہ ضرورت ہوتی ہے ایسے اداروں میں ڈال کر آزاد ہو جاتے
ہیں۔خوبصورت مکالموں کے ساتھ ایک انتہائی عمدہ اور کامیاب افسانہ ہے۔
ڈاکٹر شوکت اﷲ جوہر نے اپنے خیالات کا اظہار ان الفاظ میں کیا۔ معاشرتی
تبدیلی کی عمدہ تصویر کشی کی گئی ہے۔وہ اقدار جن کے لئے صدیوں صرف کئے گئے
انہیں پامال کرنے کی جو کوششیں کی جارہی ہیں ان پر ایک بہت عمدہ اور پر
تاثر افسانہ ہے۔
صدیق فتح پوری نے کہا کہ خیام صاحب کے افسانے Compactہوتے ہیں۔مغرب کے آثار
و روایات ہمارے ہاں بھی در آتے جارہے ہیں جو یقینا لمحہ ء فکریہ ہے۔انتہائی
چابکدستی سے یہ افسانہ لکھا گیا ہے۔
راقم نے بارہا ان سے افسانوں کے نئے مجموعے کی اشاعت پر زور دیا اور یہ
افسانہ اسی سلسلے کی کڑی تھا۔اے۔خیام بہت کم لکھتے ہیں مگر جو بھی لکھتے
ہیں بہت سوچ سمجھ کر اورمختصر اور بامعنی جملوں کے ساتھ لکھتے ہیں۔ان کے
افسانوں کی ایک خوبی اس کی Readabilityاورکہانی ہے آپ ایک بار افسانہ پڑھنا
شروع کریں تو اسے درمیان میں نہیں چھوڑ سکتے۔افسانہ اپنی گرفت میں لے کر
اختتام تک قاری کو اپنے ساتھ منسلک رکھتا ہے۔آج کا افسانہ بھی والدین کی
محبتوں اور قربانیوں کے جواب میں بچوں کی والدین سے عدم تعلقی اور بے
اعتنائیوں پر بھرپور افسانہ ہے۔ہمارا روایتی خاندانی نظام جس انداز سے رو
بہ زوال ہے اس کی بھر پور عکاسی کی گئی ہے۔
نشست کے صدر گرامی خواجہ منظر حسن منظر نے کہا کہ معاشرے کی ایک انتہائی
دردناک صورتحال کو عمدگی سے بیان کیا گیا ہے جس میں بچے والدین کو مغرب کے
طرز پر گھر سے نکال کر Old age houseاور اسی طرز کے اداروں میں جمع کر آتے
ہیں۔یہ صورتحال کب تک رہے گی معلوم نہیں۔ہمارا روایتی معاشرتی طریقہ تو
بزرگوں کے سائے میں بسر کرنے کا رہا ہے جو تیزی سے زوال پذیر ہو رہا ہے۔ایک
عمدہ اور انتہائی کامیاب افسانہ ہے۔
صاحب صدر کی ان آراء کے بعد شعری دور ہوا جس کی ابتدا راقم نے کی۔جن شعراء
نے اپنا کلام پیش کیا ان کے اسمائے گرامی یہ ہیں۔مشرق صدیقی،صفدر علی
خان،ڈاکٹر شوکت اﷲ جوہر،صدیق فتح پوری،خواجہ منظر حسن منظر اور راقم ابن
عظیم فاطمی جبکہ ڈاکٹر جمیل عظیم آبادی کی غزل بھی راقم نے پیش کی۔چند
اشعار ملاحطہ فرمائیں۔
ابن عظیم فاطمی: عمر گزری ہے حکایات جنوں لکھتے ہوئے ساتھ چھوٹا ہے نہ
چھوٹے گا قلم سے یعنی
مشرق صدیقی خشک ٹہنیوں پر اب پت جھڑوں کا موسم ہے یہ نہ سوچنا بیٹے سایہء
شجر میں ہو
ڈاکٹر شوکت اﷲ جوہر ہے دیدہء تر میں اس کا چہرہ پانی میں چراغ جل رہا ہے
صدیق فتح پوری وہی شکوے گلے ہیں زندگی میں کہاں طرز فغاں بدلی ہوئی ہے
ڈاکٹر جمیل عظیم آبادی(مرحوم):کی غزل جو انکے 1996ء میں شائع ہونے والے
مجموعہ غزل"گلہائے صد نگار" میں شامل ہے حسب معمول راقم نے پیش کی۔ آخر میں
نشست کے صدر گرامی خواجہ منظر حسن منظر نے اپنی معروف نظم"زیر،زبر،پیش"پیش
کی۔قارئین کی دلچسپی کے لئے نظم درج ہے۔
زیر،زبر،پیش
اے فکر رسا، قلب صفا، ذہن وفا کیش
ہر مصلحت اندیش ہے ناعاقبت اندیش
کیا نفع و ضرر، سود و زیاں، فکر کم و بیش
لکھنے کو جو بیٹھے ہو تو پھر کیا ہے پس و پیش
تزویر نے اوڑھا ہے اگر خرقہء درویش
لکھو کہ نظر آئے ہمیں زیر،زبر،پیش
اقدار کی بکتی ہوئی اجناس پہ لکھو
افراد کی محرومیء احساس پہ لکھو
افکار زیاں کار کے افلاس پہ لکھو
لکھو تو سہی صفحہ ء قرطاس پہ لکھو
جو کچھ بھی لکھو کم ہو نہ ہو اک سر مُو بیش
لکھو کہ نظر آئے ہمیں زیر،زبر،پیش
کیا محتسب دیں کی روش مصطفوی ہے
کیا صدق و صفا رسم و رہ خانقہی ہے
رہبر کی طبیعت میں جو بے راہ روی ہے
اخلاق سے افراد کا دامن بھی تہی ہے
کردار دل آزار ہے ،گفتار ہے دل ریش
لکھو کہ نظر آئے ہمیں زیر،زبر،پیش
لکھو جو نہ لکھنا ہو کہ ہم لکھ نہیں سکتے
جو ہم پہ گزرتی ہے قلم لکھ نہیں سکتے
احوال کف ظلم و ستم لکھ نہیں سکتے
مظلوم کی روداد الم لکھ نہیں سکتے
ہر گاہ کہ ہیں تھامے ہوئے ہاتھ جفا کیش
لکھو کہ نظر آئے ہمیں زیر،زبر،پیش
یہ آہ بکا ،رنج و الم، گریہ و شیون
ملبوس اخوت کا یہ جھلسا ہوا دامن
افراد کا یہ مشغلہ ء آتش و آہن
جیسے کہ کہیں اور سے در آئے ہوں دشمن
اژدر کا کہیں رقص ہے، عقرب کا کہیں نیش
لکھو کہ نظر آئے ہمیں زیر،زبر،پیش
ہوتا سحر و شام ہے افکار کا نیلام
کب گنبد ایوان سیاست ہے نکو نام
بکتا ہے نمائندہ ء جمہور سر عام
ابنائے وطن آ نہ کہیں جائیں تہہ دام
نزدیک کہیں گھات میں بیٹھے ہیں بد اندیش
لکھو کہ نظر آئے ہمیں زیر،زبر،پیش
یہ مملکت پاک جو ہے شہرہء آفاق
اتنی بھی نہ اس گھر میں ہو پامالی ء اخلاق
امرت بھی بہم کر نہ سکے زہرکا تریاق
حق بات ہے یہ طبع پہ گزرے نہ کہیں شاق
یہ بیشہء صد گرگ ہے قربان گہہ نیش
لکھو کہ نظر آئے ہمیں زیر،زبر،پیش
لکھو کہ نہ لکھوگے تو لکھے گی مشیت
اٹھوکہ نہ اٹھو گے تو اٹھے گی قیامت
رکتی نہیں روکے سے گزرتی ہوئی ساعت
سنبھلو کہ بگڑ جائے نہ اغیار کی نیت
دیکھو کہ کہیں اور بکھر جائے نہ یہ دیش
لکھو کہ نظر آئے ہمیں زیر،زبر،پیش
اس نشست میں احمد زین الدین مدیر سہ ماہی روشنائی ،فرقان ادریسی ،سید انور
جاوید ہاشمی،خلیل احمد خلیل،حامد علی سید اور ڈاکٹر انیس الحق انیس نے
بوجوہ شرکت نہیں کی۔خواجہ منظر حسن منطرکی اس نظم کے ساتھ ہی آج کی نشست
آئندہ ماہ ہونے والی نشست کی تاریخ اور مقام کے اعلان پر ختم ہوئی۔بعد اذاں
حسب روایت چائے ناشتے سے تواضح کی گئی۔ |
|