زمانہ جہالت اور پاکستان

 ہم سب اپنی زندگی کے کسی نہ کسی مرحلے پر"زمانہ جہالت "کے مرحلے سے گذرتے ہیں۔بعض گزر جاتے ہیں اور بعض ساری زندگی اس زمانے میں ہی گزار دیتے ہیں۔یہ مشاہدہ بھی ہے اور یہ ہی وہ نکتہ ہے جس کے تناظر میں ہمیں آج کے زمانے کو دیکھنا ہے ۔معا فی کا تصور تمام مذہبی کائنات میں روشن ترین ستاروں میں سے ایک ہے اسی لئے ہمارے ملک اسلامی جمہوریہ پاکستان میں اسلامی تہواروں کو عقیدت،احترام اور جوش و خروش سے منایا جاتا ہے ان تمام تہواروں کے تقاضے پورے کرنے کا مقصد روشن ترین معافی کی روشنی کا حصول ہوتا ہے اس روشنی کو پانے کے لئے رمضان المبارک میں روزوں کا اہتمام کر رہے ہوتے ہیں۔سحری،افطار،تراویح ،مسجدوں میں نمازیوں کا اضافہ پھر عیدالفطر کی خوشیاں، عمرے کی سعادت،حج کی سعادت،عید قرباں،پھر محرم کا اہتمام شعیہ و سنی بھائی عقیدت و احترام سے کرتے ہیں،پھر جشن ولادت ہمارے پیارے نبیﷺکا کااہتمام بھی عقیدت و احترام سے کیا جاتا ہے۔ان سب مذہبی تہواروں کے اہتمام کا پہلو جو پنہاں ہے وہ ہے معافی کی خواستگاری اور اپنے مذہب اور عقائد سے محبت اور احترام ۔

اب ہم زمانہ جہالت کے فلسفے پر غور کرتے ہیں جس سے بعض گزر جاتے ہیں اور بعض ساری زندگی اُسی زمانے میں گزار رہے ہوتے ہیں اور اس فلسفے کو معافی کے فلسفے سے جوڑ کر آج کے زمانے کو دیکھتے ہیں۔اسلامی جمہوریہ پاکستان میں جب ان تہواروں کی آمد ہوتی ہے تو ایک طبقہ وہ ہوتا ہے جو معافی کے روشن ستارے سے جسکا براہ راست تعلق اسکے معبود سے ہوتا ہے وہ اپنی خواستگاری کے لئے سر خم تسلیم کررہا ہوتا ہے اسکا مطلب یہ ہوا کہ وہ زمانہ جہالت سے گزر کر معافی کے ذریعے آئندہ جہالت سے نہ گزرنے کا عزم کر رہے ہوتے ہیں لیکن معافی یا توبہ کے اس حصول کے لئے اُنکو بہت سے دُکھ اسلامی جمہوریہ پاکستان میں جھیلنا ہوتے ہیں انھیں دُکھ دینے والا و ہ طبقہ ہوتا ہے جو زمانہ جہالت میں ساری زندگی گزار رہا ہوتا ہے مثلاً رمضان کی آمد پر رمضان میں استعمال ہونے والی اشیاء کی قیمتوں میں ہوش رُبا اضافہ کر دینا جو خربوزہ رمضان سے قبل بیس روپے کلو فروخت ہو رہا ہوتا ہے وہی خربوزہ 80روپے کلو فروخت ہوتا ہے ۔ پھر عید الفطر کی خوشیوں میں مہنگائی کی عفریت، پھر عید قربان میں سنت ابراہیمی کی سعادت پر مویشیوں کی قیمتوں میں ہر سال اضافے سے سعادت مندوں کا ایک جانور میں حصہ لینا جیسے مرحلے کو مشکل ترین بنا دینا ،مویشیوں کے چارے کی قیمتوں میں اضافہ،مویشیوں کی آمدو رفت کے کرایوں میں اضافے، اسی طرح محرم میں سعاد تمندوں کے لئے رکاوٹیں حائل کرنا ،ولادت رسول پاک ﷺ کی خوشیاں منانے میں بھی رُکاوٹیں حائل کرنا ۔ اور المیہ یہ ہے کہ اسلامی جمہوریہ پاکستان میں حکومت وقت کا خا موش رہ کر معافی کے طلبگار طبقے کو دُکھوں اور پریشانی میں مزید مبتلا کرنا حضور اکرمﷺ کے دور سے قبل کی نشاندہی کرتا ہے۔تہواروں کی آمد میں اس طبقے کی (جو زمانہ جہالت میں تمام زندگی گزارنا چاہتے ہیں) کی رالیں ٹپکنی شروع ہو جاتی ہیں مذہبی تہوار سے انکا کوئی واسطہ نہیں ہوتا واسطہ ہوتا ہے تو صرف نوٹوں کے حصول سے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ وہ طبقہ بھی کہہ رہا ہوتا ہے کہ ہم بھی روزہ رکھتے ہیں ہمیں بھی عید کرنا ہوتی ہے ہمیں بھی قربانی کرنا ہوتی ہے اسی لئے ہم دولت کے حصول کی فراق میں رہتے ہیں۔ اسلام سے قبل اہل عرب بھی اسی قسم کی طاویلیں پیش کیا کرتے تھے وہ بھی اقتصادی بد حالی کا شکار تھے اور اسکی اہم وجہ دولت اور ذرائع دولت کی غیر منصفانہ تقسیم کے علاوہ جھوٹ،فریب،غریب پر اُمراء کا حاوی ہو جانا،ناجائز منافع خوری،کم تولنا شامل تھیں۔پھر آنحضرت ﷺ نے علم کی شمع روشن کی اور اخلاقی ومذہبی تعلیم کے ذریعے دولت کی اندھی محبت کو لالچ کے خول سے نکال پھینکا اور یہ بتایا کہ دولت کو عظیم مقاصد کے لئے خرچ کرنا خدا کی خوشنودی حاصل کرنے کا اہم ذریعہ ہے۔سوچنے کا مقام یہ ہے کہ اسلامی جمہوریہ پاکستان ہی صر ف زمانہ جہالت کا پیرو کار کیوں ہیں؟دیگر ممالک خواہ وہ مسلم ہوں یا غیر مسلم مذہبی تہواروں کے معاملے میں آسانیاں پیدا کرتے ہیں ۔ایک صاحب نے بتایا کہ ترکی میں عید الاضحی کے موقعے پر مویشیوں کی قیمت اتنی گھٹا دی جاتی ہے کہ اگر غیر مسلموں کو بھی مویشی خریدنا ہو تو وہ عید الاضحی پر ہی خریدا کرتے ہیں۔دوسری جانب میرے ایک دوست کی بچی رو رو کر بیمار ہو گئی اسکی ضد تھی کہ اسکا باپ اس عید پر مجھ کو بکرا لا کر دے ،میرے دوست کی اتنی استطاعت نہیں تھی کہ وہ بکرا خرید سکتا۔ ہمیں یہ سوچنے کی ضرورت ہے بلکہ یہ سوچنا ہی ہو گا کہ کیا ہمارا معاشرہ ـ"زمانہ جہالت"سے مطابقت نہیں رکھتا؟جبکہ یہ واضح ہے کہ اب کسی رسول یا پیغمبر کا نزول نہیں ہونا ہے۔
Sheikh Muhammad Hashim
About the Author: Sheikh Muhammad Hashim Read More Articles by Sheikh Muhammad Hashim: 77 Articles with 91982 views Ex Deputy Manager Of Pakistan Steel Mill & social activist
.. View More