27 اکتوبر کشمیر پر بھارتی فوجی قبضے کا یومِ سیاہ

27اکتوبر 1947ء کو بھارتی فوجیں ریاست جموں و کشمیر میں اتار کر جبری قبضے کے ذریعے بھارت نے تقسیم ہند پلان کی بدترین خلاف ورزی کی۔ اس سازش میں باؤنڈری کمیشن کے سربراہ ریڈ کلف اور جموں کشمیر کے بھگوڑے مہاراجہ ہری سنگھ برابر کے شریک تھے۔ 8اور 17اگست 1947ء کے دوران حد بندی کمیشن ایوارڈ کو ریڈ کلف نے ماؤنٹ بیٹن کی شہ پر تبدیل کردیا جس سے کشمیر اور نہری پانی کے تنازعات پیدا ہوئے۔ نریندر مودی جو کہ دہشت گرد تنظیم آر ایس ایس کا رکن رہا ہے اور جسے مسلمانوں کا قاتل کے حوالے سے جانا اور پہچانا جاتا ہے جس نے الیکشن پاکستان دشمن نعروں اور ایجنڈے پر لڑا اور جیتا۔ اسی مقصد کے لئے نریندر مودی نے بھارتی سینا کو ایک ہزار گولے برسا کر پاکستان کو چیخنے پر مجبور کرنے کی بات کی تھی تاکہ کشمیریوں کو یہ تاثر دیا جائے کہ پاکستان تمہارے معاملے میں کچھ نہیں کرسکتا لیکن پاکستان کے آرمی چیف جنرل راحیل شریف کی قیادت میں افواج پاکستان نے بھرپور جوابی کارروائی کرکے نریندر مودی کے تخریب کاری ایجنڈے کو ناکام بنا دیا ہے۔ ویسے تو نریندر مودی اور بی جے پی کو مسلمانوں کے قاتل کے طور پر جانا اور پہچانا جاتا ہے مگر کانگریس کے ہاتھ بھی لاکھوں مسلمانوں کے خون سے رنگے ہوئے ہیں۔ کشمیریوں پر بھارتی فوج کے مسلسل مظالم کے باوجود ارون دتی رائے سمیت حقیقت پسند بھارتی دانشور یہ تسلیم کرنے پر مجبور ہیں کہ کشمیری ذہنی طور پر آزاد اور صرف بھارتی فوج کے حصار میں ہیں جن کو جبراً ان کی منزل آزادی سے نہیں روکا جاسکتا۔ حق بات تو یہ ہے کہ آزادی کشمیر، خودمختار فلسطینی ریاست کا قیام اور نگورنوکارباخ سمیت تمام آذری علاقوں کی آزادی اقوام متحدہ اور عالمی انصاف کی علمبردار طاقتوں کی ذمہ داری ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ پاک بھارت تعلقات میں مسئلہ کشمیر ایک محوری حیثیت رکھتا ہے۔ 1971ء کی جنگ مشرقی پاکستان میں شروع ہوئی تھی لیکن کشمیر میں ختم ہوئی۔ جنگ کے بعد مسئلہ کشمیر کے بارے میں بھارت کی خواہش تھی کہ 1971ء کی جنگ بندی لائن کو مستقل بین الاقوامی سرحد بنا کر مسئلہ کشمیر کو حل کر دیا جائے جبکہ پاکستان چاہتا تھا کہ 1949ء کی جنگ بندی لائن سے فوجیں پیچھے ہٹائی جائیں اور اس مسئلے کا حل کسی مناسب وقت پر چھوڑا جائے۔ شملہ معاہدہ میں پاکستان بالآخر 1971ء کی جنگ بندی لائن کے نتیجہ میں کنٹرول لائن کا احترام کرنے پر رضا مند ہو گیا لیکن کشمیر کے متعلق شق میں ’’طرفین کے تسلیم شدہ نکتہ نظر کو نقصان پہنچائے بغیر‘‘ کے اضافہ سے پاکستان کے موقف کو بھی واضح طور پر تحفظ مل گیا۔ جنگ میں بھارت کی فوجی برتری ثابت ہونے کے باوجود کشمیر متنازعہ علاقہ رہا اور سمجھوتہ کی دستاویز میں یہ بات شامل ہوئی کہ جنگی قیدیوں اور مقید شہریوں کی واپسی اور سفارتی تعلقات کی بحالی کی طرح جموں و کشمیر کے متعلق آخری اور حتمی فیصلے تک دونوں فریقوں کے نمائندے پائیدار امن قائم کرنے اور تعلقات معمول پر لانے کے طریقے وضع کرنے اور انتظامات کرنے کے لئے ایک دوسرے سے ملتے رہیں گے۔ اس معاہدہ میں پاکستان اور بھارت کی سرحدوں کے لئے ’’بین الاقوامی‘‘ سرحدوں کا لفظ استعمال ہوا ہے اور آزاد کشمیر اور مقبوضہ کشمیر کے درمیان جنگ بندی لائن کو ’’لائن آف کنٹرول‘‘ کا نام دیا گیا ہے۔ گویا اس سمجھوتہ میں پاکستان نے مقبوضہ کشمیر کے علاقہ کو بھارت کا اٹوٹ انگ تسلیم نہیں کیا اور بھارت نے یہ تسلیم کیا ہے کہ کشمیر ایک ایسا مسئلہ ہے جس کا حل کیا جانا چاہئے۔ اہل کشمیر کا حق خودارادیت پاکستان کے عوام کے ایمان اور عقیدے کا حصہ ہے جس سے اہل پاکستان کبھی کسی حال میں بھی دستبردار نہیں ہوسکتے کیونکہ کشمیری عوام جو جدوجہد کررہے ہیں وہ دراصل قیام پاکستان کی جدوجہد کا حصہ ہے۔ کشمیریوں کا فیصلہ ایک ہی ہوسکتا ہے کیونکہ اہل پاکستان اور کشمیریوں کی تاریخ، مذہب، ثقافت ورثہ اور جغرافیہ ایک ہے۔ اس کے برعکس بھارت کے ساتھ ان کی کوئی ایسی بات مشترکہ نہیں۔
Shahzad Naqvi
About the Author: Shahzad Naqvi Read More Articles by Shahzad Naqvi: 4 Articles with 2810 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.