مفتی محمودؒ ۔۔۔ایک باکردار سیاست دان

قائد جمیعت مفتی محمود ؒ کو ہم سے بچھڑے پینتیس سال ہوچلے ہیں۔مفتی صاحب ایک فرد ہوتے تو تاریخ کے کسی گمنام گوشے میں چھپے ہوتے لیکن مفتی محمودؒ کی زندگی اپنی ذات میں ایک جماعت تھی ۔ان کی زندگی اسلامی نظام کی جدوجہد کرنے والوں کے لئے ایک تاریخ کی حیثیت رکھتی ہے ۔دھیمے سروں میں دل کی بات کہنے کا سلیقہ،موقف کے حق میں ٹھوس دلائل،سیاسی حرکیات پہ مکمل عبور،اعلی انتظامی صلاحتیں،انتھک محنت وریاضت مفتی صاحب کی خصوصیات تھی۔مفتی صاحب محقق عالم،مدبر سیاستدان،شب زندہ دارعارف اور ایک عظیم راہنماء تھے۔بہت کم ایسے لوگ ہوتے ہیں جو کارگاہ سیاست کی ہمہ وقت مصروفیات کے باوجود اپنی علمی وعملی مصروفیات جاری رکھ پاتے ہوں ۔ علمی استحضار،تفقہ اور وسعت نظرمفتی صاحب کا خاصہ تھا۔ شیخ الاسلام مفتی محمد تقی عثمانی صاحب لکھتے ہیں کہ ـــــ ’’ سیاست میں اس درجہ انہماک کے باوجود ان کا علمی استحضار اور علمی ذوق پوری طرح برقرار رہا۔جب کبھی کسی علمی مسئلہ کی بات آتی تو معلوم ہوتا کہ اس کے تمام ما لہ و ماعلیہ مفتی صاحب کی نگاہ میں ہیں۔جب اس موضوع پربات کرتے تو یوں محسوس ہوتا کسی کتاب کا درس ہورہا ہے‘‘ جبکہ قاری محمد طیب صاحب رقمطراز ہیں کہ ’’آپ کی شخصیت علمی حلقوں میں بہت زیادہ معروف ہے۔اس وقت پاکستان کی پارلیمنٹ کے ممبر ہیں ،حق گو اور بے باک ہیں۔فقہی اور حدیثی استعداد کے ساتھ عصری معلومات پہ کافی عبور رکھتے ہیں‘‘

مولانا محمد یوسف بنوری فرماتے ہیں کہ ایک بار مفتی صاحب جامعہ بنوری ٹاون تشریف لائے، اتفاقاً درس بخاری کا پیریڈ تھا ،میں نے حضرت مفتی صاحب سے درخواست کی کہ آج آپ نے بخاری شریف کا درس دینا ہے۔ مفتی صاحب نے بخاری شریف جا کر کھولی اور یوں حدیث شریف کی تشریح کی اور علمی تقریر فرمائی کہ میں حیران رہ گیا۔ ایسا محسوس ہوتا تھا ،جیسے وقت کے ابن حجر عسقلانی تشریف فرما ہیں اور ایسی باتیں مجھے سننے کو ملیں کہ جو اس سے پہلے کبھی نہ سنیں جبکہ یہ بخاری شریف کا ایک مشکل مقام تھااور دلچسپ بات یہ کہ آپ ایک جلسے سے فارغ ہوکر تشریف لائے تھے۔ تیاری کا موقع بھی نہ مل سکاتھا۔
کتابی و اکتسابی علم تو اکثر علماء کے پاس ہوتا ہے لیکن مفتی صاحب مجتہدانہ شان رکھتے تھے۔علم آپ کے وجود پہ کھلتا تھا۔آپ کی شخصیت آ پ کے مطالعہ کی آئینہ دار تھی۔لیکن اس سب کے باوجودآپ کی گفتگو سہل اور عام فہم ہوتی تھی۔یہی وجہ تھی کہ وہ ایک کامیاب استاد بھی تھے۔قاسم العلوم ملتان کے طلباء کی خواہش ہوتی کہ ان کے اسباق مفتی صاحب کے پاس ہوں۔آپ آسان اور عام فہم سبق پڑھاتے اور طلباء کو رٹا لگانے سے بے نیاز کردیتے تھے۔

مفتی صاحب کو چونکہ مولانا حسین احمد مدنی،مفتی کفایت اﷲ رح جیسے بزرگوں سے شرف نیاز رہاتھااس لئے نوجوانی سے ہی سیاست سے دلچسپی رہی اور انہی بزرگوں کے زیر سایہ سیاسی تربیت حاصل کی۔۱۹۳۷ کے انتخابات میں مفتی صاحب نے ایک طالب علم کی حیثیت سے کام کیا۔ مولانا عبید اﷲ سندھی ؒ کی ’’جمیعۃ الانصار‘‘ سے بھی منسلک رہے۔قیام پاکستان کے بعد مفتی صاحب نے جمیعت علماء اسلام کے پلیٹ فارم سے اپنی سیاست کا آغاز کیا اور ۱۹۶۹ میں نائب امیر کے عہدہ پہ فائز ہوئے۔مفتی محمود کی سیاست دین کی سربلندی اور اعلائے کلمتہ اﷲ کے لئے تھی۔آپ کی تمام سرگرمیاں دینی احکامات کے تحت ہوتیں۔آپ کی زندگی کا مقصد یہی تھا کہ مملکت خدادا دپاکستان میں دین کو ہر سطح پہ فوقیت حاصل ہو۔تعلیمی پالیسیاں ہوں یا معاشی،عدالت و تجارت ہو یا پارلیمنٹ ، عدلیہ ہو یا فوج ہرسطح کا نظام اسلام کے تابع ہواور ایک ایسا معاشرہ تکمیل پا سکے جس میں تمام طبقات پرامن طریقے سے دینی احکامات پہ عمل کرسکیں۔ایک انٹرویو میں مفتی صاحب کہتے ہیں ــ’’ جب تک پاکستان میں مکمل اسلامی نظام نافذ نہیں ہوجاتا اس وقت تک اپنی جدوجہد جاری رکھوں گا۔ایک عالم دین ہونے کے ناطے مجھ پہ یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ میں اسلام کے خلاف اٹھنے والی ہر آواز کو چیلنج کروں اور قرآنی اقدار کو ہر مرحلے پہ واضح کرتا رہوں۔‘‘مفتی صاحب اکثر فرمایا کرتے تھے اسمبلی کے اندر میری موجودگی میں اﷲ اور اس کے رسول ﷺ کے دین کے خلاف کوئی کاروائی ، کوئی قانون سازی مکمل نہ ہوسکے گی۔ میں حضرت صدیق اکبر کے خطبے سے راہنمائی حاصل کرتا ہوں جس میں انھوں نے فرمایا ’’ا ینقض دین اﷲ وانا حیی ‘‘
سیکولر ذہنیت کے حاملین نے شروع سے ہی آئین میں اپنا ایجنڈا نافذ کرنے کی کوشش کی ،تو علامہ شبیر احمد عثمانی کے بعد جس شخصیت نے آئین ِ پاکستان کو اسلامی آئین کے قالب میں ڈھالنے کا کردارادا کیا، وہ شخصیت مفتی صاحب کی ہی تھی۔ 1973کا آئین آپ کی ہی جہد و مساعی کا ثمر ہ ہے۔

مفتی صاحب سیاست و مذہب کو جدا نہیں سمجھتے تھے۔بلکہ سیاست کو دین کااہم جزو سمجھتے تھے ایک بیان میں فرماتے ہیں ’’ میں آج آپ کے سامنے ملک کی حفاظت اور اس کے ا ستحکا م کی سیاست واضح کرنا چاہتا ہوں ۔میں مذہبی آدمی ہوں ۔میرے نزدیک مذہب سیاست ایک ہیں۔مفتی صاحب مروجہ سیاست کی تمام گندگیوں سے دور رہے۔ اس وقت جب پاکستان کی سیاست میں سادگی ، اصول پرستی،شرافت اور دیانت ناپید ہوچکی تھی مفتی صاحب نے انھیں سنہری اصولوں کو اپنی سیاست کی بنیاد بنایا۔مفتی صاحب جب کسی موقف کو اپناتے تو پھر اس کے اظہا ر میں کسی لومۃ لائم کی پرواہ نہ کر تے ، حالات کی سختی ان کو ڈرا سکتی نہ کسی عہدہ ومنصب کا لالچ انہیں اپنے موقف سے متزلزل کرسکتا تھا۔

مفتی صاحب کو پاکستان سے عشق تھا۔پاکستان کے استحکام کے لئے ہمیشہ کوشاں رہتے۔سقوط ڈھاکہ سے قبل جب ہندوستان نے پاکستان کو متحد رکھنے کے موقف کو کمزور ثابت کرنے کے لئے پروپیگنڈہ شروع کیا تو مفتی صاحب نے یحی خان کو توجہ دلائی۔نعیم آسی لکھتے ہیں ’’ جب مولانا مفتی محمود نے یھیٰ خان کی ماتم انگیز بے حسی دیکھی تو وہ تڑپ کر اٹھے اور جولائی کے اوائل میں جمیعۃ علمائے اسلام کی طرف سے ایک دو رکنی وفد لے کر مشرق وسطی کے دورہ پہ روانہ ہوء ے ۔وفد میں مولانا مفتی محمود ،مولانا غلام غوث ہزاروی اور حاجی غلام محمد شامل تھے۔یہ بات قابل ذکر ہے کہ حکومت نے اس وفد کو کسی قسم کی سہولت فراہم کرنا قطعا گوارا نہ کیا۔وفد کے مقاصد میں بھارت کے پروپیگینڈے کا جواب، مشرقی پاکستان کی صحیح صورتحال کا بیان اور مسلم مملک کے اتحاد کی کوششیں شامل تھیں۔مصر کے علاوہ لیبیا ، سوڈان،شام،لبنان، سعودی عرب اور کویت کا دورہ اس پروگرام میں شامل تھا۔اس دورہ میں جمیعۃ کے وفد کو خاصی کامیابی حاصل ہوئی۔انہوں نے عربوں کو مشرقی پاکستان کی صحیح صورتحال بتائی اور بھارت کے توسیع پسندانہ عزائم کا پردہ چاک کرتے ہوئے انھیں اسرائیل کے عزائم سے ہم آہنگ کیا‘‘۔

مفتی صاحب بھارت گئے تو NID نیوز ایجنسی کے ڈائریکٹر نے ان سے پاکستان کی سیاست پہ بات کرکے اپنے مطلب کا مواد اکٹھا کرنا چاہا تو مفتی صاحب نے جواب دیا ـ’’ میں اپنے وطن سے باہر دیار غیر میں اپنے وطن کی بات نہیں کروں گا یہ مجھے اخلاقی طور پہ زیب نہیں دیتی کہ اپنے ملک کے حالات چاہے جیسے بھی ہوں زیر بحث لاوئں ۔ٓپ میرے ساتھ لاہور چلیں میں آپ کو کھل کر بتادوں گا۔

مفتی صاحب عالم باعمل ،عارف باﷲ اور بزرگوں کی اعلی روایات کے امین تھے۔ مولانا نور الہدیٰ صاحب کہتے ہیں ’’کہ ۱۹۷۳ میں تین دن مفتی صاحب کے ساتھ رہا۔ایک ایک ادااور ہر عمل سنت کے مطابق پایا۔رات گئے تک جلسوں سے خطاب کرنے کے بعد تہجد کا التزام کرتے‘‘۔مفتی صاحب شرافت دیانت اور صداقت کے پیکر تھے۔انتہائی خلیق،متواضع اور حلیم الطبع تھے۔سیاسی مباحث،جلسوں ،پریس کانفرنسوں ،تقاریراور عوامی اجتماعات میں مفتی صاحب کبھی چڑچڑے نظر آئے نہ کبھی پیشانی پہ بل آیا۔ہرملاقاتی سے ہشاش بشاش ملتے۔ جب وزیر اعلی تھے تب بھی اپنے ملازمیں کے ساتھ دسترخوان پہ کھانا کھاتے اور بے تکلفی سے گفتگو کرتے۔بلوچستان میں شہید جمیعت مولانا شمس الدین کی کوٹھی پہ مفتی صاحب کی دعوت تھی۔جب کھانا چنا گیا تو پوچھا بھئی ہمارا ڈرایؤر کہاں ہے۔ساتھیوں نے بتایا کہ وہ باہر ہے اسے وہاں کھانا پہنچا دیا جائے گا۔لیکن مفتی صاحب نے بااصرار بلوایا اور اپنے ساتھ والی نشست پہ بٹھایا۔

جلیل مقاصد کے لئے ساری زندگی جدوجہد کرنے والے مفتی محمود 14 اکتوبر 1980 کو کراچی میں ایک علمی مجلس میں علماء سے شریک گفتگو تھے کہ خلاق عالم کی طرف سے بلاوا ٓن پہنچا اور مفتی صاحب لبیک کہتے ہوئے اس جہان رنگ و بو سے کنارہ کر گئے۔

حضرت مفتی صاحبؒ کی زندگی اور آپ کا انداز سیاست مذہب کے نام پر سیاست کرنے والوں کے لیے مشعل
راہ ہے۔مذہب کے نام پر سیاست کرنے والوں کے لیے شاید سب سے بڑا چیلنج یہی ہے کہ وہ مروجہ سیاست کی آلودگی سے بچ جائیں،مفتی محمود صاحبؒ نے مروجہ سیاست کی آلودگیوں سے بچ کر دکھایااور اس میدان میں رہنے والوں کے لیے عملی نمونہ چھوڑ گئے۔ آج اسلاف کا نام لینا اور ان کے نام پر اپنا منجن بیچنا بہت آسان ہے مگر اسلاف کے کردار کو اپنانا بہت مشکل ہے۔ آج وقت کا تقاضا ہے کہ اسلاف کے کردار کو اپنایا جائے اوران لوگوں کی صف میں کھڑا ہوا جائے جو اسلاف کے کردار کو اپناتے ہوئے مذہب کی بقا اور اس کے نفاذ کے لیے میدان عمل میں موجود ہیں۔
Rizwan Ullah Peshawari
About the Author: Rizwan Ullah Peshawari Read More Articles by Rizwan Ullah Peshawari: 162 Articles with 212212 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.