اسلامی جمہوریہ پاکستان کے
وزیر اعظم جناب محمد نواز شریف نے دنیا کے سب سے بڑے پلیٹ فارم اقوام متحدہ
کی جنرل اسمبلی کے ڈائس پر اپنے موقف کا اظہار کیا۔اُن کے خطاب سے قبل
عوامی ،سیاسی،سماجی اور دیگر حلقوں میں تجسس اور اضطرابی کیفیت کا ملا جلا
رحجان پایا جاتا تھا ہمارے ملک کا زیادہ تر حصہ کم پڑھے لکھے لوگوں پر
مشتمل ہے پاکستان کی شرح خواندگی اسوقت 52فیصد ہے یہ شرح خواندگی بھی شک و
شہبات کا شکار ہے کیونکہ پاکستان میں خواندہ اُسے کہا جاتا جو اپنا نام پڑھ
اور لکھ سکے اسکا مطلب ہے کہ ملک کی نصف سے زیادہ آبادی ان پڑھ لوگوں پر
مشتمل ہے انگریزی زبان جنکے سر کے اوپر سے گذر جاتی ہے باقی ہم جیسے پڑھے
لکھے لوگوں کی صورتحال بھی اس سے کچھ کم نہیں ۔جس سے ظاہر ہوتا ہے پاکستان
میں بہت کم لوگ انگریزی زبان سے شغف رکھتے ہیں لہذا پاکستان کے زیادہ تر
افراد کا خیال تھا کہ وزیر اعظم صاحب اردو میں خطاب کریں گے لیکن افسوس
ایسا نہیں ہو سکا اور پاکستان کے عوام اُن کے اہم خطاب سے مستفیض نہیں ہو
سکے ۔
کیا وزیر اعظم صاحب کا یہ عمل درست تھا؟پاکستان کے عوام کی ایک خواہش یہ
بھی ہے کہ پاکستان میں کوئی تو ایسا ہو جو پاکستان میں رائج قوانین کی
پاسداری کرے یہ زیادہ پرانی بات نہیں ہے پچھلے ماہ ہی سابق چیف جسٹس جناب
جوادایس خواجہ نے دستور کے مطابق اردو کو د فتری زبان بنانے کا جراتمندآنہ
فیصلہ دیا تھا تو وزیر اعظم صاحب بھی ذرا ہمت کو یکجا کر کے جرات کا مظاہرہ
کرتے ہوئے دستور کی پاسداری ہی کر لیتے۔ اطلاعات کے مطابق وزیر اعظم صاحب
کی تو خواہش تھی کے وہ اردو میں خطاب کریں ا نکے کسی گوشے میں اردو کے لئے
نرم گوشہ موجود تھا انکے دل میں قانون کی پاسداری کا بھی خوف تھا لیکن
انگریزی زبان کی رسیا،انگریزوں کے وضع و قطع کو ترقی کا زینہ سمجھنے والی
اقوام متحدہ کی مندوب ملیحہ لودھی نے وزیر اعظم صاحب کی اردو میں خطاب کرنے
کی خواہش کو دبا دیا اور عوام کی خواہش تو ایسی ہی رہی کہ ہر خواہش پہ دم
نکلے ۔ پھر عوام نے میڈیا کے ذریعے یہ منظر بھی دیکھا کہ بھارتی وزیر اعظم
مودی اور بھارتی وزیر خارجہ سشما سوراج نے ہندی میں خطاب کیا اور بھی دیگر
ممالک کے اکابرین نے اپنی اپنی زبانوں میں اپنا اپنا موقف پیش کیاپھر عام
سے عوام کی کیفیت کا اندازہ آپ خودلگا سکتے ہیں۔ دراصل پاکستان کا غالب
حکمران طبقہ انگریزی زبان کا رسیا ہے۔ کیونکہ اسکے مفادات اب تک انگریز آقا
سے منسلک ہیں۔ وہ روز مرہ زندگی میں انگریزی وضع قطع کو ترقی کا زینہ
سمجھتا ہے اس لیے وہ اردو زبان کو دیار غیرمیں بولنے اور لکھنے کو شرمندگی
کا باعث سمجھتا ہے ۔لیکن ترقی کے تمام معیاروں میں مادری زبان کی حقیقت پر
دنیا بھر کے زبان دانوں اور سماجی سائینس کے دانشوروں میں کوئی اختلاف نہیں
ہے۔ اسکے باوجود پاکستان کے حکمرانوں نے اس بنیادی معیار کو پس پُشت ڈال کر
غریب عوام کیلئے سوچنے سمجھنے اور ترقی کے منازل کو مشکل سے مشکل تر
کردیاہے۔میری ناقص عقل بار بار مجھ کہہ رہی ہے کہ اگر وزیر اعظم صاحب اردو
میں خطاب کرتے تو پاکستان اور اقوام متحدہ کے مندوبین کے سامنے انکے قد میں
اضا فہ ہی ہوتااور اہم بات یہ ہے کہ عدالت عظمیٰ کے حکم کی بھی لاج رکھ لی
جاتی۔ |