انٹرویو
(Zaib Mahsud, Drammen ,NORWAY)
ایک مشہور عالم دین کا انٹرویو، |
|
نور احمد نور
نور احمد نور دینی اور دنیوی حوالے سے اعلی تعلیم یافتہ شخصیت کے مالک ہیں۔
انہوں نے منہاج القرآن یونیورسٹی سے ایم اے اسلامیات اور ایم اے عربی کے
علاوہ پنجاب یونیورسٹی سے اردو ادب میں ماسٹرز کی ڈگری حاصل کی ہے ۔ نور
صاحب ایک روشن خیال اور فلاحی و سماجی کاموں کی کئی تنظیموں کے بانیان میں
سے ہیں یہی وجہ ہے کہ نہ صرف علاقائی طور پر بلکہ یورپی سطح پہ جانے اور
مانے جاتے ہیں انکی ان گوناگوں صلاحیتوں کی وجہ سے اوسلو یونیورسٹی سے
ڈاکٹریٹ کرنے والے ریسرچر ( امن اور مذہبی مفاہمت) کے موضوع پر ان سے اکثر
استفادہ کرتے ہیں اور اہم بات یہ کے وہ صرف مسلم کمیونٹی کے لیے ہی نہیں
بلکہ غیر مسلم کمیونٹی میں بھی احترام کی نظر سے دیکھے جاتے ہیں ۔ بہترین
مقرر ہونے کے علاوہ شعر و شاعری سے بھی دلچسپی رکھتے ہیں آپ نے سینکڑوں
نعتیں نہ صرف خود لکھیں بلکہ بہترین نعت خواں بھی ہیں اور یہی ھمہ گیر
شخصیت انہیں ہزاروں لوگوں میں منفرد بناتی ہے اور بقول نور صاحب کے انکے اس
تمام تر مقام اور کردار کا کریڈٹ انکے والد محترم کی محنت،دعاءوں اور قاءد
کی تعلیم و تربیت کو جاتا ہے تو قارئین کرام اس منفرد شخص کا اس مقام تک
پونچنے کی تفصیل جاننے کے لیے انٹرویو شروع کرتے ہیں۔ قارئین کرام آپ اپنی
قیمتی آرا ضرور دیجیئے گاِ
:زیب محسود درامن ناروے:
سوال ۱۔ آپکی ابتدئی زندگی کیسے گذری ؟
ابتدائی زندگی
ٓجواب۔ میں یکم اپریل کو تحصیل ڈسکہ کے چھوٹے سے گاوٗں (منڈ) میں ایک مذ
ہبی رُحجان رکھنے والے منڈ زمیندار گھرانے میں پیدا ہوا میرے ۲ بھائی اور ۳
بہنیں ہیں جن میں ایک بہن مجھ سے بڑی اور باقی سب چھوٹے ہیں ۔ میرے والد
پہلے لاہور پولیس میں ملازم تھے بعد میں اپنی والدہ کی شدید خواہش اور
دعاءوں سے دینی علوم حاصل کرکے اپنے گاوٗں آ کر جنرل سٹور کھولا اور ساتھ
گاؤں کی جامع مسجد میں فی سبیل اللہ خطابت شروع کر دی ۔ میرے والد صاحب کی
دین سے محبت کا یہ عالم تھا کہ ابھی میں پیدا بھی نہیں ہوا تھا اور انہوں
نے دل میں عہد کیا کہ خدا نے جب بھی بیٹا دیا تو وہ اسکو عالم بنائینگے ۔
انکی یہ خواہیش پوری تو ہوئی مگر قدرے دیر سے۔۔۔۔!
پرا ئیمری تعلیم قریبی گاؤں کسو والا اور میٹرک بن باجوہ ہائی سکول سے کی ۔
میں نارمل درجے کا ا سٹو ڈنٹ تھا ۔ بچوں کے کھیلوں میں دلچسپی لیتا تھا
جیسےگولیاں کھیلنا لڑکپن میں کبڈی ، والی بال اوردیگر کھیلوں میں حصہ لیتا
رہا۔ میں چونکہ بہت احساس طبعیت کا مالک تھا اسلیئے کم عمری میں ہی اپنے
والد کے ساتھ دوکان داری کی اور ساتھ ہی ساتھ چچا کے ساتھ زمینداری کے
کاموں میں مدد کرتا تھا ۔ شروع میں ہمارے مالی حالات بہت اچھے تھے مگر بعد
میں کافی مشقلات کا سامنا ہوا ایک تو والد صاحب نے بشتر بچت کی رقم نئے اور
خوبصورت مکان بنانے پر خرچ کر دی ساتھ ہی حج کا فرض ادا کیا اور بقیہ جمع
پونجی روزگار تلاش کرنے سعودی عرب جانے پر خرچ کر دی جبکہ وہاں سے بھی جلد
واپس اگئے جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ ہم معاشی طور پر کافی کمزور ہوئے ۔
سوال ۲۔ آپکے بچپن کا یادگار واقعہ کیا تھا؟
جواب ۔ چو نکہ ہماری ذمینوں میں فوجیوں کی چھاونی بنی ہوئی تھی تو جب سنہ
۷۱ کی جنگ ہوئی تو میں چھوٹا سا ۸ سالہ بچہ تھا مگر اُس وقت کی گہماگہمی
اور ریڈیو پر بڑوں کا انتہائی دلچسپی اور غور سے خبریں سننا آج بھی یاد ہے
اور وہی یادگار واقعہ ہے۔
سوال ۳۔آپ نے بقیہ تعلیم یعنی کالج اور یونیورسٹی کی تعلیم کہاں سے حاصل
کیَ؟
جواب ۔ میں نے کالج اور یونیورسٹی کی تعلیم ۲ وجوہات کے بنا پر پرائیوٹ
حاصل کی ۔ایک وجہ یہ کہ میں کچھ دن کالج ضرو گیا وہاں کا ماحول دیکھا مگر
وہاں لڑکوں کی صورت حال دیکھ کر بد دل ہوگیا کیونکہ وہاں اسٹوڈنٹ سارا وقت
بے کا ر گذارتے تھے لگتا نہیں تھا کہ وہ تعلیم حاصل کرنے آئے ہیں لہذا میں
اس قسم کے حالات میں وقت ضائع نہیں کرسکتا تھا اور دوسری بڑی وجہ کمزور
معاشی حالات تھے اسلئے میں نے زمینداری کے کاموں اور مقامی مذہبی پروگراموں
میں بھرپور حصہ لیتے ہوئے پرائیوٹ طور پر کالج اور یونیورسٹی کی تعلیم مکمل
کی میں نے گریجویشن پنجاب یونیورسٹی سے کی !
سوال ۴۔ آپکے والد کے پلان یا اُس عزم و ارادے کی تعمیل کب شروع ہوئیَ؟
جواب ۔ میرے والد صاحب کے جذبے کا اندازہ اس بات سے بخوبی ہو جاتا ہے کہ وہ
کہتے تھے کے میری دینی تعلیم کے حصول کے لیے اگر اُنکو ساری جائیداد بھی
فروخت کرنی پڑتی تو دریغ نہیں کریں گے بلکہ وہ کہتے کہ ا گر جان بھی بیچنی
پڑی تو پرواہ نہیں مگرمسئلہ میرا داڑھی سے دلچسپی نہ رکھنا تھا۔ میری اباجی
سے داڑھی پر بحث ہوتی۔ میں کہتا کہ دینی تعلیم حاصل کرنے کا مجھے بھی شوق
ہے مگر میں داڑھی نہیں رکھنا چاہتا۔ اسی چپکلش میں چار پانچ سال گذر گئے کہ
میں داڑھی کے بغیر دینی تعلیم حاصل کرنا چاہتا تھا جبکہ مدرسے والے داڑھی
کے بغیر داخلہ دینے کو تیار نہیں تھے ۔ میرے خیال میں منھاج القرآن اور
دیگر مدارس میں یہی واضح فرق ہے کہ مدرسے والے داڑھی اوپر سے نافذ کرتے ہیں
جبکہ منہاج القرآن میں داڑھی اندر سے اگائی جاتی ہے۔ قادری صاحب نے شاہد ہی
کسی طالبعلم کو داڑھی کا پابند کیا ہو ۔اور یہ ہم سب ہی جانتے ہیں کہ دینی
مدرسوں میں ظاہری حلیے پر جتنی سختی سے توجہ دی جاتی ہے اتنی باطنی طور پر
نہیں ۔
بہرحال والد کا جذبہ صادْ ق تھا یہ ۱۹۸۷ کاایک دن تھا میں ڈسکہ شہر سے
دوکان کے لیے سامان لینے گیا تو اچانک ایک جگہ ایک خوبصورت اشتہار پر نظر
پڑی جس پر لکھا تھا جدید و قدیم علوم کا حسین امتزاج ۔جامع اسلامیہ منہاج
القران میں داخلہ جاری ۔ مجھے بہت خوشی ہوئی کیونکہ میں نے علامہ ڈاکٹر
طاہرالقادری کے کئی خطابات اس سے پہلے سنے تھے جس کی وجہ سے میں ان کے علم
اور عشق رسول کا شیدائی ہو چکا تھا اور مجھے معلوم تھا کہ وہ بہت روشن خیال
اور جدید دور کے تمام تقاضوں پر گہری نظر رکھتے ہیں لیکن ایک خدشہ بھی تھا
کہ اس کورس میں داخلے کے لیے میٹرک پاس ہونا چاہیے تھا جبکہ میں تو
گریجویشن کر چکا تھا خیر میں نے معلومات لینے کے لیے جون کی شدید گرمی میں
لاہور کا سفر کیا کہ مجھے داخلہ مل سکتا ہے یا نہیں ۔ مجھے یاد ہے یہ تیرہ
جون کا سخت گرمی کا د ن تھا۔ میں پہلی دفعہ اکیلا لاہور گیا تھا ۔پھرتے
پھراتے جب ماڈل ٹاءون لاہور پہنچا تو جامعہ کا پاکیزہ ماحول دیکھ کر بہت
خوشی ہوئی۔ طلباء سے بات ہوئی تو میرا پہلا سوال یہ تھا کہ کیا یہاں داڑھی
رکھنا لازمی ہے تو جواب ملا کہ یہاں داڑھی ضروری نہیں ۔ میں نے شکر کا کلمہ
پڑھا اور سکھ کا سانس لیا میری خوش نصیبی کے میں اگرچہ عمر میں ساری کلاس
میں بڑا تھا اور تعلیم میں بھی سب کلاس سے سینیئر تھا یہ میرے لیے اور بھی
فائدہ مند ثابت ہوا کیونکہ جب دو سال بعد میرے کلاس فیلو ایف اے کا امتحان
دے رہے تھے میں نے پنجاب یونیورسٹی سے ایم اے اردو کا امتحان پاس کر لیا
اسکے علاوہ درس نظامی کا ۷ سالہ کورس مکمل کیا اور یوں میرے والد کا ارمان
جو قدرے دیر سے سہی پر پورا ہوا ۔ ابا جان اکثر فرماتے کہ اللہ تعالی کے ہر
کام میں حکمت ہوتی ہے ۔ اگر میں آپکو کسی عام مدرسہ میں داخل کرا دیتا تو
آج آپ وہی تنگ نظر مولوی ہوتے۔اللہ کا شکر ہے جس نے ہمیں اس عظیم قاٖـئد کی
سنگت عطا فرمائی۔
سوال ۵ ۔ دینی تعلیم کے بعد عملی زندگی کب اور کیسے شروع ہوئیَ؟
جواب ۔ سنہ ۱۹۹۴ کو درس نظامی سے فارغ ہونے کے بعد ۶ ماہ بطور لیکچرر
والنٹئرلی اُسی جامع میں جاب کی پھر جب ٹاوٗن شپ میں نیا کیمپس کھلا تو
وہاں طلباء کی تربیت کا ایک نیا تربیتی کورس شروع ہوا اور اُس کورس کیلیئے
بطور ڈاءریکٹر ۳ ماہ رضاکارانہ فرا ئض انجام د ئیے ۔
اسکے بعد فیصل آباد کے گاؤں ماموں کانجن میں منہاج سکنڈری سکول کا پرنسپل
بنا اور ۳ سال کام کیا۔ ا سکے بعد کھاریاں کے قریب چک پیرانہ میں ایک عظیم
الشان اسلامک سنٹر کھولا گیا وہاں بھی بطور ڈائیریکٹر کام کیا ۔اسکے بعد
پہلی مرتبہ ملک سے باہر عمان مسقط میں منہا ج ا لقران کے ڈایئریکٹرکے طور
پر میری تعیناتی ہوئی ۔مسقط میں تین سال کام کرنے کے بعد میری ٹرانسفر عمان
ہی کے ایک شہر صلالہ میں ہوئی وہاں چار سال کام کرنے کے بعد ۲۰۰۵ میں میری
تعیناتی اوسلو ناروے میں ہوئی اور اب ۲۰۰۹ سے درامن میں ہوں۔
سوال ۶۔ آپ درس و تدریس کے علاوہ او رکونسے تنظیمی یا دوسرے فلاحی کام کر
رہے ہیں؟
جواب ۔ جب میں اوسلو آیا تھا تب ہی سے میں نے مذہبی رواداری اور مفاہمت کے
لیے باقاعدہ کوشیش شروع کیں اور عیسائی اور دوسرے مذاہب کے ساتھ باقاعدہ
ڈیئلاگ شروع کیے اور میں پہلا فرد ہوں کہ چرچ میں جا کر مسلم امام کے طور
پر نہ صرف نمائیندگی کی بلکہ لیکچر بھی دیے ۔ منھاج مصالحتی کونسل ناروے
میں کام کیا۔پادری کے ساتھ مل کر رات کے گشت میں بھر پور حصہ لیا۔جیل میں
قیدیوں کی رہنمائی کی۔ درامن میں ۲۵ مختلف مذہبی تنظیموں پر مشتمل ایک
مفاہمتی کونسل ہے جس میں ہم فونڈر ممبر ہیں۔ اس کے علاوہ چرچ کے ساتھ مل کر
بہت سے مشترکہ پروگرام کرتے ہیں جس سے مذہبی رواداری پیدا ہوتی ہے۔
سوال۷۔ کیا وجہ ہے کہ اسلام نے وقت کے نئے نئے چیلنج اور پرابلم کے لیے
اجتہاد کا آپشن دیا مگر اس سلسلے میں کوئی پیشرفت نظر نہیں آتی ؟
جواب۔ دین اسلام ایک روشن خیال اور موجودہ مذاہیب میں جدید ترین فلسفہ
زندگی ہے ۔ کیونکہ دیگر تمام مذاہب اسلام سے پہلے کے ہیں اور یہ کہ دینا
اسلام کے بعد کوئی نیا نبی اور دین نہیں آسکتا لہذا ہمارے دین نے وقت اور
حالات کے مطابق نئے مسائل کے حل کے لیے اُمت مسلمہ کے علماء کو اجتہاد کا
آپشن دیا گیا مگر بدقسمتی سے پوری اُمت گروہ بندی اور فرقہ پرستی کا شکار
ہوگئی ہے ایسے میں مختلف مسالک کے علماء کسی بات پر متفق نہں ہوتے اور اب
تو اسلامی ممالک اسی فرقہ پرستی کی وجہ سے ایک دوسرے کی سلامتی کے درپے ہیں
البتہ منہاج القران یورپی سطح پر کوشیش کر رہی ہے کے کچھ مسائل جو مسلمانوں
کو غیرمسلم ممالک میں درپیش ہیں انکا حل نکالا جائے۔ جبکہ یہ ملکی نہیں
بلکہ اُمہ کی سطح کا کام ہے جس کہ لیے باقاعدہ فنڈ اور فورم فرام کرنا تمام
اسلامی ممالک کی دینی اور اخلاقی ذمہ داری ہے ۔جبکہ غیر مسلم ممالک اپنے
ہاں کے اس طرح کے کاموں کے لیے فنڈ کے ساتھ ساتھ حوصلہ افزائی بھی کرتے ہیں
جن سے وہ اپنے مسائل کا حل آسانی سے پا لیتے ہیں یہی وجہ ہے کہ ہم دوسرے
مذاہب کے ساتھ باقاعدہ ڈائیلاگ کرتے ہیں۔
سوال ۸۔ آپ کی شادی ارینجڈ میرج ہے یا پسند کی ،اور یہ کے آپکی اسقدر
مصروفیت پر آپکی بیوی آپ کا ساتھ دیتی ہیں یا پھر اعتراض کرتی ہیں؟
جواب۔ میری شادی ارینجڈ تھی مگر میری پسند بھی شامل تھی کیونکہ ہم رشتہ دار
تھے بلکہ ایک ہی طرح کا دینی اور سماجی پس منظررکھتے تھے لہذا میرے والدین
کی پسند پر مجھے مکمل اعتماد تھا جو کہ درست ثابت ہوا۔ میری بیوی میرے لیے
ایک بہترین شریک حیات ثابت ہوئی کیونک میرا کام اس نوعیت کا ہے کہ
اکثروبیشتر مجھے ملک سے باہر تنظیمی کاموں سے جانا پڑتا ہے مگر مجھے گھر کی
طرف سے اطمینان ہوتا ہے مجھے اگر بیوی کا تعاون حاصل نہ ہوتا تو شاہد اس
قدر دل جمعی سے کام نہ کر پاتا اس کے علاوہ بہت اچھی منتظم ،خوش اخلاق اور
مہمان نواز طبیعت کی وجہ سے میرے لیے قابل فخر ہے کیونکہ میرے کام کی نوعیت
ایسی ہے کہ اکثر مختلف کاموں کے سلسلے میں لوگوں کا آنا جانا لگا رہتا ہے
اتنا عرصہ گذر گیا مگر کبھی اُنہوں نے شکوہ نہیں کیا بلکہ ہمیشہ خوش دلی
اور دریا دلی سے مہمانوں کی خدمت کی۔
سوال ۹۔ کیا آپ نے بھی اپنے والد کی طرح اپنے بچوں کے مستقبل کےلیے کوئی
خاص پلان یا مقام سوچا یعنی کہ وہ کیا بنیں؟
جواب۔ والدین کا اُولاد کے لیے خواب دیکھناایک فطری بات ہے لہذا ہر والدین
کی طرح ہم بھی اپنے بچوں کے لیے خواہشات رکھتے ہیں کہ اچھی تعلیم اور تربیت
دیں اور یہ کل کے کامیاب ترین انسان بنیں فی الحال تو بنیادی سکول کی تعلیم
لے رہے ہیں اب آگے چل کر حالات و واقعات اور مقدر کیا بناتا ہے اسکا کوئی
کچھ نہیں کہہ سکتا سکول کی تعلیم کے ساتھ میں دینی تعلیم پر پابندی سے توجہ
دے رہا ہوں مگر میرٖی بھی یہ ازحد خواہش ہے کے ان میں اگر کوئی دین کی خدمت
کو مقصد حیات بنائے تو میں بھرپور ساتھ دونگا اور میں مایوس نہیں ہوں
کیونکہ مجھے بھی گریجویشن کے بعد ہی اس طرف آنے کا موقع ملا اور یوں میرے
والد کی دیرینہ خواہش کی تکمیل ہوئی،
سوال ۱۰۔کیا آپ مستقبل میں کوئی خاص کام کرنے جیسے کسی موغوع پر کتاب یا
آپنی بائیوگرافی لکھنا وغیرہ کا ارادہ رکھتے ہیں؟
جواب۔ میری ایک شاعری کی کتاب ( صدائے درد ) کافی عرصہ پہلے چھپ چکی ہے اب
عنقریب ایک اور شاعرٖی کا مسودہ آخری مراحل میں ہے اسکے علاوہ منہاج
القران کے یورپی فورم سے اور مقامی طور پر کچھ پراجیکٹ پر کام کر رہا ہوں
جو یقیناّ مسلم کمیونیٹی اور غیرمسلم کمیونٹی میں پُل کا کام دینگے
انشا٫اللہ!
سوال ۱۰ ۔ آپ آج کے نوجوانوں کو کیا پیغام دینا چاہینگے ؟
جواب۔۔ آج کے نوجوانوں کے لیے یہی پیغام ہے کے قدرت نے موجودہ دور میں
انھیں دینی اور دنیاوی تعلیم کے بہترین مواقع دیا ہے جسکا ہمارے دور میں
تصور بھی ممکن نہ تھا اس لیے وہ اس کا بھرپور فایدؐہ اُٹھائیں اور اس کی
روشنی میں بہترین کردار بنائیں جس سے انسانیت کو بھی فایدؐہ ہو اور آپکے
والدین کے ساتھ ساتھ اپکے ملک اور دین کا نام روشن ہو !!! |
|