شہداء کربلا کو میرا سلام
(Dr Zahood Ahmed Danish, Karachi)
تاریخ کا ایک واقعہ جس کو سن کر
یا پڑھ کردل کانپ اُٹھتاہے ۔صدیاں گزرگئیں ۔لیکن اس وقت ،اس واقعہ اور اس
جگہ کا جب جب ذکر ہوتا ہے ۔رونگھٹے کھڑے ہوجاتے ہیں ۔جن کا عظیم کردار آج
بھی ہمارے لیے ایک بہترین نمونہ ہے ۔ان کی قربانیاں ان کی عظمت ،ان کی شان
دیکھ کر بے اختیار زبان سے جاری ہوجاتاہے ۔
(۱)کربلا کے جانثاروں کو سلام
فاطِمہ زَہراکے پیاروں کو سلام
(2)مصطفٰے کے مہ پاروں کو سلام
نوجوانوں گل عِذـاروں کو سلام
آہ!کرب وبلا ایک داستان ایک واقعہ ایک پیغام !!ہم واقعہ شہادت و دیگر اہم
عنوانات پر بات کرتے چلے جائیں گئے میں ذرا آپ کو کربلا کا جغرافیائی تعارف
کروادوں ۔(عربی میں کربلاء )عراق کا ایک مشہور شہر ہے جو بغداد سے 100
کلومیٹر جنوب مغرب میں صوبہ الکربلا میں واقع ہے۔ یہ کربلا کے واقعے اور
حسین ابن علی کے روضہ کی وجہ سے مشہور ہے۔ اس کے پرانے ناموں میں اسے نینوا
اور الغادریہ شامل ہیں۔ اس کی آبادی تقریباً دس لاکھ کے قریب ہے جو محرم
اور صفر کے مہینوں میں زائرین کی وجہ سے بہت بڑھ جاتی ہے۔
یہ وہی مقام ہے جہاں حضورﷺ کی شہزادی حضرت فاطمہرضی اللّٰہ تعالیٰ عنھاکے
گلشن کو تار تار کیاگیا۔گلشن زہراکی مشکبار کلیوں کو سفاک اور بے رحم لوگوں
نے روندھا۔ جس پر زمین و آسمان بھی روئے ۔حضرت فاطمہ رضی اللّٰہ تعالیٰ
عنھاجن کا معروف نام فاطمۃ الزھراء ہے ۔حضرت محمد صلی اﷲ علیہ و آلہ وسلم
اور خدیجہ بنت خویلد رضی ﷲ تعالیٰ عنہا کی بیٹی تھیں۔تمام مسلمانوں کے
نزدیک آپ ایک برگزیدہ ہستی ہیں۔(6)۔ آپ کی ولادت 20 جمادی الثانی بروز جمعہ
بعثت کے پانچویں سال میں مکہ میں ہوئی۔ آپ کی شادی حضرت علی ابن ابو طالب
رضی ﷲ تعالیٰ عنہا سے ہوئی جن سے آپ کے دو بیٹے حسن رضی ﷲ تعالیٰ عنہا اور
حسین رضی ﷲ تعالیٰ عنہا اور دو بیٹیاں زینب رضی ﷲ تعالیٰ عنہا اور ام کلثوم
رضی ﷲ تعالیٰ عنہا پیدا ہوئیں۔ آپ کے کثیر القابات مشہور ہیں۔ام ابیہا۔۔۔ام
الحسنین۔۔ام الحسن۔۔۔۔ام الحسین۔۔القاب : الصدیقہ (سچی) ۔ ۔ المبارکہ (مبارک)۔۔الطاھرہ(پاک)۔۔۔۔الذکیہ
(گناہ سے پاک)۔الرضیہ(اﷲ کی رضا پر اضی)۔۔۔البتول(عفت والی؍پاک)۔۔۔الزھراء
((عالی شان؍روشن)۔۔۔سیدۃ النساء العالمین(تمام جہانوں کی عورتوں کی سردار)۔
میدان کربلا!جہاں آسمانِ دنیا نے وہ منظر دیکھا جو شاید انسانی تاریخ میں
اس سے پہلے نہ دیکھاگیا ۔جرائت و بہادری ،جانثاری سے سرشار حق کا پیغام عام
کرنے والے اہل بیت کے قافلہ اشاعت دین کے لیے کربلا کی جانب رواں دواں
تھا۔کیا معلوم تھاکہ کوفہ والوں کے خطوط ،دعوت نامے ،پیغامات سراسر بے
وفائی اور کدورت سے لبریز تھے جن کے پس پردہ دل شکنی ،شب خون مارنے کی
پلاننگ تھی ۔عراق کا یہ شہر حق و باطل کے معرکے کا ایک حتمی میدان ثابت
ہوگا۔آہ !!!!ایک دکھ اور صدمے کی داستان !!!جس پر آج بھی زبان ِ قال سے یہی
کلام جاری ہوجاتاہے کہ
(۳)کربلا تیری بہاروں کو سلام
جانثاری کے نظاروں کو سلام
(۳)یاحسین ابن علی مشکل کشا
آپ کے سب جانثاروں کو سلام
امام ِ حسین رضی اﷲ عنہ جو نواسہ ٔ رسول بھی ہیں اور شہزادہ ٔ بتول بھی ہیں
۔جنھوں نے دامن رحمت اللعلمین میں پرورش پائی ۔جن کے ناز تمام انبیاء کے
سرور صلی اﷲ تعالی علیہ واٰلہ وسلم نے اُٹھائے ۔آئیے !!ذراامام حسین رضی اﷲ
عنہ کا آپ کو تعارف پیش کردوں ۔
زمین کربلا پر آج مجمع ہے حسینوں کا
جمی ہے انجمن روشن ہیں شمعیں نور و ظلمت کی
آپ رضی اﷲ عنہ کا حسین نام اور ابو عبد اﷲ کنیت ہے، پیغمبر خدا حضرت محمد
مصطفےٰ صلی اﷲ تعالی علیہ وسلم کے چھوٹے نواسے علی و فاطمہ زہرا کے چھوٹے
صاحبزادے تھے۔ ان کے بارے میں رسولِ اکرم صلی اﷲ علیہ و آلہ وسلم کا ارشاد
ہے کہ ’’حسین منی و انا من الحسین‘‘یعنی حسین مجھ سے ہے اور میں حسین سے
ہوں۔آپ نے امام حسین رضی اﷲ عنہ کی ولادت کی خوش خبری سن کر جناب رسالت ماب
تشریف لائے ۔بیٹے کو گود میں لیا ،داہنے کان میں اذان اور بائیں میں اقامت
کہی اور اپنی زبان منہ میں دے دیدی ۔پیغمبر کا مقدس لعاب دہن حسین رضی اﷲ
عنہ کی غذا بنا ،ساتویں دن عقیقہ کیا گیا ۔آپ کی پیدائش سے تمام خاندان میں
خوشی اور مسرت محسوس کی جاتی تھی مگر آنے والے حالات کاعلم پیغمبر کی
انکھوں میں انسو برساتا تھا ۔اور اسی وقت سے حضرت امام حسین رضی اللّٰہ
تعالیٰ عنہکے مصائب کاچرچا اہلیبت ُ رسول کے زبانوں پر آنے لگا۔خاندان کا
خاندان امّت کے مستقبل ،گلشن اسلام کی آبیاری کے لیے قربان کردیا۔
کیا بات رضا ؔاس چمنستانِ کرم کی
زہراء ہے کلی جس میں حسین اور حسن پھول
واقعہ کربلا کے کردارعلی اکبر و علی اصغررضی اللّٰہ تعالیٰ عنھما بھی ہماری
نسلوں کے لیے ایک عمدہ پیغام ہیں ۔ہم قربان جائیں ان پر!
(۴)اکبر و اصغر پہ جاں قربان ہو
میرے دل کے تاجداروں کو سلام
میدان کربلا کی سرزمین ہے امام حسین کے ہمراہ ان کی آل بھی موجود ہے ۔چھوٹے
بڑے سبھی عظیم قائد کی قیادت میں سرفروشی کے لیے یک جہاں تیار ہیں ۔مدنی
چینل کے ناظرین :حضرت امام حسین رضی اﷲ عنہ کے فرزند حضرت امام علی اوسط جن
کو امام زین العابدین رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں جو حضرت شہر بانو بنت یزد
جرد بن شہریاربن خسرو پرویز بن ہرمز بن نوشیرواں کے بطن سے ہیں۔ ان کی
عمراس وقت بائیس سال کی تھی اوروہ مریض تھے۔ حضرت امام کے دوسرے صاحبزادے
حضرت علی اکبر رضی اﷲ تعالیٰ عنہ جو یعلی بنت ابی مرہ بن عروہ کے بطن سے
ہیں جن کی عمر اٹھارہ سال کی تھی (یہ شریک جنگ ہوکر شہید ہوئے)تیسرے شیر
خوار جنہیں علی اصغر رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں جن کا نام عبد اﷲ اور جعفر
بھی بتایا گیا ہے۔
کربلاکے معرکہ میں شیردل خواتین نے بھی مصائب کی شدت میں گرفتار ہو کر اپنے
کردار وعمل سے یہ ثابت کردکھایا کہ آزادی ضمیر انسانی کے امام کربلا میں ان
خواتین کو بے مقصد نہیں لائے تھے۔ فاتح کوفہ وشام جناب زینب بنت علی رضی اﷲ
عنہ کے بے مثل کردار وقربانیوں سے تاریخ کربلا کا ہرورق روشن نظر آتا
ہے۔حضرت امام حسن کے بیٹے قاسم تھے ۔۔آپ نے اپنے جگر پاروں عون ومحمد کو
اپنے نانا کے دین پر یہ کہہ کر قربان کردیا کہ اگرتم نے نصرت امام میں اپنی
قربانیاں پیش نہیں کیں تو تمہیں دودھ نہیں بخشوں گی۔ حق اورفرض شناسی کی
راہ میں دنیا کی ماوں کے لیے یہ جذبہ درس عبرت ہے۔یہ وہ بلند کردار ہستیاں
ہیں جن کے متعلق کہاگیا کہ :
(۵)قاسم و عباس پر ہوں رحمتیں
کربلا کے شَہسُواروں کو سلام
(۶)بھوکی پیاری بیبیوں پر رحمتیں
بھوکے پیاسے گل عِذاروں کو سلام
(۷)بھیدکیاجانے شہادت کا کوئی
اُن خداکے رازداروں کو سلام
(۸)بے بسی میں بھی حیاباقی رہی
سب حسینی پردہ داروں کو سلام
یعنی انسانیت انھیں سلام پیش کرتی ہے انسانیت کا سر فخر سے بلند کردیا۔حق و
باطل کے درمیان ایک اہم امتیاز پیداکردیا۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میدان کربلا میں صرف خاندان رسالت کے اہل حرم نے ہی قربانیاں پیش نہیں کیں
تھیں بلکہ اس گھرانے کی کنیزوں اوردیگر انصار خواتین نے بھی اپنے ایثار
وقربانی کے ایسے جوہر دکھائے جو آج بھی تاریخ انسانیت کے ماتھے کا جھومر بن
کر چمک رہے ہیں۔جن کا کردار بھی حق کے مثلاشیوں کے لیے لائق تقلید ہے کہ
جنہوں نے اپنے شوہرکوامام حسین رضی اﷲ عنہ کے ساتھ قربان ہونے کے لیے آمادہ
کیا۔
(۹)رحمتیں ہوں ہر صحابی پرمُدام
اور خصوصا چاریاروں کو سلام
جس میں جتنی سکت تھی اس کاروان اہلبیت کے ساتھ آزمائش کی اس گھڑی میں
کھڑارہا۔تندرست و بیمار سبھی یکساں حق کی فتح کے لیے سرگرم عمل تھے ۔وہ ذات
عون ومحمد کی ہو یابی بی زینب کے صبر کا امتحان ۔
(۱۰)بیبیوں کو عابدِبِیمار کو
بے کسوں کوغم کے ماروں کوسلام
(۱۱)ہوگئے قرباں محمد اور عَون
سید ہ زینب کے پیاروں کو سلام
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
لفظِ کربلا سنتے ہی ایک غم وملال کی کیفیت پیداہوجاتی ہے ۔کیوں کہ تاریخ ِ
انسانیت میں اتنا ظلم ،اتنی زیادتی شاید ہی ہوئی کہ انسان نے اپنے محسنوں
کو کس طرح شہید کیا۔کس طرح آل رسول پر قتل و خون کی ندیاں چلائیں ۔ان پرظلم
کے پہاڑ ڈھائے گے۔
آہ!!!!
(۱۲)کربلامیں ظلم کے ٹوٹے پہاڑ
جن پہ ان سب دلفگاروں کو سلام
اس قافلے کے شرکاء کو محبتوں و عقیدتوں بھراسلام ۔سلام ۔جنھوں نے عظیم
کارنامہ سرانجام دیکر اسلام کا حقیقی طرز حیات واضح فرمادیا۔
(۱۳)جو حسینی قافلے میں تھے شریک
کہتا ہے عطار ساروں کو سلام
شاعر نے ان روشن کرداروں کے متعلق بہت پیاری بات بیان کی ۔۔۔۔۔۔
یہ وہ شمعیں نہیں جو پھونکدیں اپنے فدائی کو ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔یہ وہ شمعیں نہیں
روکر کو جو کاٹیں رات آفت کی
یہ وہ شمیں ہیں جن سے جان تازہ پائیں پروانے ۔۔۔۔۔یہ وہ شمعیں ہیں جو ہنس
کرگزاریں شب مصیبت کی
یہ وہ شمعیں نہیں جن سے فقط اک گھر منور ہو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔یہ وہ شمعیں ہیں جن سے
روح ہوکافور ظلمت کی
محترم قائین !میں نے اس تحریر میں کربلا کے چیدہ چیدہ گوشوں کو اشعار کی
روشنی میں بیان کیا ہے ۔مفصل تحریر پھر پیش کروں گا۔اﷲ عزوجل سے دعا ہے کہ
یا رب !ہمیں شہداء کربلا کے طفیل معاف فرماہم سے بھی دین متین کی خدمت کا
کام لے لے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ |
|