اس کے باوجود کہ علیم خان
کی جانب سے دولت کی برسات اور عمران کی الزام تراشی کے باوجود مسلم لیگ ن
نے لاہور این اے 122 کاالیکشن جیت لیا ہے لیکن صوبائی حلقے میں مسلم لیگی
امیدوار محسن لطیف کی شکست کو صرف نظر نہیں کیاجاسکتا ہے بلکہ یہ شکست مسلم
لیگی قیادت کے لیے وارننگ کی حیثیت رکھتی ہے ۔ اوکاڑہ کے حلقے سے مسلم لیگی
امیدوار کی شکست اور آزاد امیدوار کی حیثیت سے پرانے مسلم لیگی کارکن کی
شاندار کامیابی بہت سے سوال ذہنوں میں اٹھا رہی ہے ۔بات شروع کرنے سے پہلے
میں دو افراد کے بارے میں تاثرات سے آگاہ کرنا ضروری سمجھتا ہوں۔ چند دن
پہلے میں ایک تقریب میں شریک تھا کہ وہاں آٹھ دس افراد ایک شخص کو گھیرے اس
سے بلدیاتی الیکشن میں سپورٹ اور ووٹ مانگ رہے تھے ۔وہ نظریاتی مسلم لیگی
کارکن تھا جبکہ ووٹ مانگنے والے بھی پرانے مسلم لیگی تھے انہیں قیادت کی
جانب سے ٹکٹ نہیں ملا تھا وہ آزاد حیثیت سے بلدیاتی الیکشن میں حصہ لے رہے
تھے ۔ نظریاتی مسلم لیگی کارکن کہہ رہا تھا اس کے باوجود کہ مسلم لیگی
قیادت نے کبھی اس کے جائز کام بھی نہیں کیے اورنہ ہی کبھی مشکل وقت میں
ساتھ دیا ہے پھر بھی وہ اپنے خاندان سمیت 1984سے آج نوازشریف کو ووٹ دیتا
اور دوسروں کو ووٹ دینے کی ترغیب اس لیے دیتا چلاآیا ہے کہ وہ نواز شریف کی
شکست نہیں دیکھ سکتا ۔ ووٹ مانگنے والے اسے یقین دلارہے تھے کہ بے شک ہمیں
شیر کا انتخابی نشان نہیں ملا لیکن ہمارے رابطے مسلم لیگی قیادت کے ساتھ
قائم ہیں اور ہم جیت کر مسلم لیگ میں شامل ہوجائیں گے ۔یہ بھی بتاتا چلوں
کہ اسی بلدیاتی حلقہ 205میں ایک اور مسلم لیگی گروپ بھی آزاد حیثیت میں
الیکشن میں حصہ لے رہا ہے ۔اس صورت حال میں کیاشیر کا نشان والا مسلم لیگی
جیت پائے گا ؟۔ یہ صورت حال صرف ایک بلدیاتی حلقے کی نہیں ہے بلکہ ہر حلقے
میں تین تین چارمسلم لیگی امیدوار آزاد حیثیت میں آپس میں ہی برسرپیکار ہیں
۔اگر یہاں تحریک انصاف کے امیدوار کامیاب ہوجاتے ہیں تو کسی کو حیرت نہیں
ہوگی ۔میں سمجھتا ہوں یہ مسلم لیگی قیادت کے بدترین فیصلے اور تنظیم سازی
کے فقدان کانتیجہ ہے جو آنکھیں بند کرکے نامزدگیاں کرکے خود اور پرانے مسلم
لیگیوں کو بھی شرمندہ کررہے ہیں۔مظفر گڑھ کا ایک نوجوان( رضوان حیدر ) جو
ملازمت کے سلسلے میں لاہور میں قیام پذیر ہے ٗ ملاقات ہوئی تو اس نے کہا
اگر صورت حال یہی رہی تو عمران خان اگلے الیکشن میں واضح اکثریت حاصل کرکے
وزیر اعظم بن جائے گا۔ میں نے کہا وہ کیسے ؟ شہباز شریف پنجاب کے تمام
علاقوں میں بڑی بڑی سڑکیں ٗ فلائی اوورز ٗ انڈر پاسسز تعمیر کررہا ہے
ہسپتال نالج سٹی ٗ میٹر و بس اور میٹرو ٹرین جیسے منصوبوں کو پایہ تکمیل تک
پہنچا رہا ہے کیا اس صورت حال میں بھی لوگ عمران کو ووٹ دینے پر تیار
ہوجائیں گے ۔بھوکے پیٹ اور خالی جیب والے اس نوجوان نے نہایت درد بھرے لہجے
میں کہا میں یہ سب کچھ مانتاہوں لیکن مجھے یہ بتائیں کہ نواز شریف اور
شہباز شریف نے ہم جیسے غریبوں کے لیے کیا کیا ۔ آٹا کتنا سستا کیا ٗ چاول ٗ
گھی ٗ دالوں ٗگوشت ٗ دودھ ٗدھی کے ریٹ کس قدر کم کیے ۔ بجلی گیس اور پٹرول
کے قیمتوں میں کتنی کمی کی ۔ سرکاری سکولوں (جہاں ہم جیسے غریب لوگ پڑھتے
ہیں وہ آج بھی 19 ویں صدی جیسے ماحول میں قائم ہیں جہاں صبح نو بجے بجلی
بند ہوتی ہے اور اس وقت واپس آتی ہے جب چھٹی ہوجاتی ہے بچے کم روشنی اور
سخت ترین گرمی میں پڑھنے کی بناپر آنکھوں کی بینائی اور موسمی صعوبتوں کا
شکار ہوکر نفسیاتی مریض بنتے جارہے ہیں۔ پرائیویٹ تعلیمی اداروں کی فیسیں
اس قدر زیادہ ہیں کہ موچی ٗ دھوبی ٗ میکنک ٗ ویلڈر ٗ مزدور اورکسان کا بچہ
وہاں تعلیم حاصل کرنے کا تصور بھی نہیں کرسکتا ۔ وہ چند لمحے کے لیے رکا
پھر بولا آپ کو پتہ ہے الیکشن میں یہی غریب ترین طبقہ ووٹ ڈالنے کے لیے
جاتا ہے ۔میں عمران کو فرشتہ نہیں کہتا کیونکہ وہ بھی ایلیٹ کلاس کا
نمائندہ ہے اس کے ارد گرد بھی ارب اور کھرب پتی لوگ ہیں ۔اسے بھی عام لوگوں
کے مسائل کاادرا ک نہیں ہے ۔وہ لوگ جو نواز شریف کو ووٹ دیتے رہے ہیں ان کے
لیے تو اڑھائی سال سے نواز شریف نے کچھ نہیں کیا لوڈشیڈنگ کا عذاب ہو ٗ
بجلی کے ہوشربا بل ہوں ٗ مہنگائی کا عذاب ہو ٗ پولیس اور پبلک ڈیلنگ والے
محکموں کی زیادتیوں ہوں ٗ یہ سب کچھ برداشت کرتے کرتے غریب لوگوں قبروں میں
اترتے جارہے ہیں ۔اس نے مزید کہا مجھے بتائیں کہ کس سرکاری محکمے میں بغیر
رشوت یا سفارش کے کام ہوتاہے۔میرے والد نے گھر بار فروخت کرکے مجھے
بہاولپور یونیورسٹی سے ماس کیمونی کیشنز میں ماسٹر ڈگری دلوائی ۔ آج میں
لاہور کی سڑکوں پر ملازمت کے لیے دھکے کھاتا پھر رہا ہوں۔نہ جانے مجھ جیسے
کتنے ہی اور تعلیم یافتہ نوجوان بھی دور دراز علاقوں سے بیروزگاری کا عذاب
جھیل رہے ہیں۔کیا نواز شریف کو ہم جیسے غریب لوگوں کا خیال نہیں ہے۔ پہلے
گھر میں ایک وقت کاکھانا بیس تیس روپے میں پک جاتا تھا اسحاق ڈار کی
مہربانی سے اب تین سے چار سو روپے خرچ ہوجاتے ہیں ۔شادی بیاہ پر کپڑے
خریدنے جاؤ تو ہزاروں خرچ ہوجاتے ہیں جوتے خریدنے جاؤ تو جیب ہی خالی ہو
جاتی ہے پھل کھانے کو دل چاہے تو جیب میں پیسے نہ ہونے کی بنا پر مایوس
لوٹنا پڑتا ہے ۔نواز شریف جن امیروں کے لیے سڑکیں فلائی اوورز اور میٹرو
ٹرین سسٹم بنا رہے ہیں پھر انہی سے ووٹ بھی مانگ لیا کریں ۔ اس نے کہا میں
خود بھی مسلم لیگی ہوں اور میرے باپ دادا بھی مسلم لیگی ہیں لیکن میں
لاہورکی سڑکوں پر ملازمت کے لیے دھکے کھا رہا ہوں اگر مسلم لیگی قیادت نے
اب بھی غریب عوام اور مسلم لیگی کارکنوں کے لیے کچھ نہ کیا تو وہ بھی پیپلز
پارٹی کی طرح دفن ہوجائے گی اور مقبولیت کا بخار جلد اتر جائے گا۔ یہ باتیں
تو مظفر گڑھ کے نوجوان کی تھیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ وقت ہاتھ سے نکلنے سے
پہلے مسلم لیگی قیادت کو ممبر سازی کے علاوہ پرائمری یونٹوں کے نمائندے
بذریعہ الیکشن منتخب کرواکر بلدیاتی ٗصوبائی اور قومی حلقوں کے امیدواروں
کا فیصلہ خفیہ ووٹ کے ذریعے پرائمری یونٹ کے نمائندوں پر چھوڑ دینا چاہیئے
۔علاو ہ ازیں قیادت کی جانب سے نظریاتی اور پرانے لیگی کارکنوں کو خود فون
کرکے بات کرنا یا ان کے گھروں میں جا کر ان کے مسائل حل کرنے کی جانب بھی
توجہ دینی ہوگی ورنہ محسن لطیف کی طرح لاہور شہر( جسے نواز شریف کا قلعہ
تصور کیاجاتا تھا ) میں بھی شکست کا سامنا کیا جاسکتاہے ۔ |