عمر عبداللہ سے ایک یادگار ملاقات

جموں و کشمیر کے سابق وزیر اعلی جناب عمر عبداللہ کا خاندان بھارتی سیکولرازم کی بے مثال علامت ہے ۔ عمر عبداللہ کی اہلیہ سکھ خاتون ہیں ، عمر عبداللہ کی بہن ساراعبداللہ کی شادی سابق بھارتی وزیر داخلہ کٹر ہندو راجیش پائلٹ کے بیٹے سچن پائیلٹ سے ہوئی ہے جبکہ عمر عبداللہ کی والدہ ایک عیسائی خاتون ہیں۔ بھارتی سیکولر ازم میں کوئی دوسرا یسا خاندان موجود نہیں ہے جس میں تمام مذاہب کا امتزاج موجود ہو ۔کشمیریوں کی رواں تحریک میں2006 کا سال اس حوالے سے اہم تھا کہ پہلی بار روائتی موقف سے ہٹ کر پاکستان کی طرف سے مسلہ کشمیر پر نئی تجایز سامنے لائی گئی تھیں۔ جنرل پرویز مشرف کے چار نکاتی فارمولے نے اقوام متحدہ کی قراردادوں کو پس منظر میں دھکیل دیا تھا۔پاکستانی اسٹبلشمنٹ کے حمایت یافتہ کشمیری رہنماوں نے سلف رول ، غیرمتعلق سرحدیں اور دوسری تجایز کی ترجمانی شروع کر دی تھی۔ انہی دنوں تاریخ میں پہلی مرتبہ مقبوضہ کشمیر کے موجودہ وزیر اعلی عمر عبداللہ سمیت کئی سرکردہ بھارت نواز رہنما بھی پاکستان کے دورے پر اسلام آباد پہنچے تھے ۔ جنرل مشرف سے ملاقات کے بعد سری نگر واپسی پر مشرف کی تجاویز کی جم کر وکالت شروع کر دی۔ ڈان نیوز کے جناب عبد الشکور کو کشمیر کی روائتی سیاست کاری پسند نہیں مگر کشمیر کی سرکردہ شخصیات بارے ان کے خیالات ضرور ہیں۔ ہمارے دوست عبد الشکور یہ بھی اندازہ لگا بیٹھے ہیں کہ کشمیر کا کونسا رہنما زیادہ خوبصورت ہے ۔2006 میں عمر عبداللہ کشمیر کانفرنس کے سلسلے میں اسلام آباد آئے تھے۔اسلام آباد میںدونوں کشمیری رہنمائوں نے مصروف ترین ہفتہ گزارا اسی دوران عمر عبداللہ کے اعزاز میں اسلام آباد کلب میں ظہرانے کی ایک تقریب میں جناب عبد الشکور نے خالد ابراہیم اور عمر عبداللہ کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ کشمیری واقعی بڑے خوبصورت لوگ ہیں ۔لائن آف کنٹرول کے اس پار عمر عبداللہ ایک خوبصورت نوجوان ہیںمگر لائن آف کنٹرول کے اس پار جموں کشمیر پیپلز پارٹی کے سربراہ خالد ابراہیم بھی خوبصورتی میں کسی سے کم نہیں ہیں۔اس محفل میں عبدالشکور اور میری عمر عبداللہ سے کھل کر تفصیلی بات چیت ہوئی ، یہ وہ دن تھے جب جموں کے ہندوائوں نے وادی کے مسلمانوں کی معاشی ناکہ بندی کررکھی تھی جموں سے اشیائے خورد ونوش اور دوسرا سامان مقبوضہ کشمیر نہیں لے جایاجا سکتا تھا۔میں عمر عبداللہ سے پوچھ بیٹھا کہ مذہب کی بنیاد پر کسی قوم کا روٹی پانی بند کرنا بندترین انتقامی کارروائی ہے ۔بھارتی حکومت کچھ نہ کر کے اس انتقامی کارروائی کا حصہ کیوں بن گئی ہے؟ بھارتی حکومت پر تنقید سے عمرعبداللہ ر سیخ پا ہو گئے اور کہا کہ بھارتی حکومت نے اپنی تمام تر ذمہ داریاں پوری کر رہی ہے ۔اسی تقریب میں جناب خالد ابراہیم بھی موجود تھے۔ نئی دہلی کے وفاداروں عمرعبداللہ اور محبوبہ مفتی کو اسلام آباد بلانے پر اسلام آباد میں حریت والے حکومت پاکستان سے ناراض تھے ۔ عمر عبداللہ کے اسلام آباد آنے کا کیا مقصد ہے اور حکومت پاکستان کی طرف سے عمر عبداللہ اور محبوبہ مفتی کی پذیرائی کے کیا معنی ہیں۔میں نے یہی سوال خالد ابراہیم سے پوچھا ۔ جناب خالد ابراہیم نے ایک ہی جملے میں ساری کہانی بیان کر دی تھی ۔ان کا کہنا تھا کہ مقبوضہ کشمیر میں آنے والے انتخابات کے نتیجہ میں نیشنل کانفرنس کی حکومت بنے گی۔عمر عبداللہ مقبوضہ کشمیر کے نئے وزیراعلی ہوںگے چنانچہ حکومت پاکستان مقبوضہ کشمیر کے ایک وزیراعلی سے لابنگ میں مصروف ہے۔ مقبوضہ کشمیر کے بھارت نواز رہنماوں کو اسلام آباد آمد پر اپنے گندے کپڑے سرعام دھو نے کا موقع مل گیا تھا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ عمر عبداللہ اور اس کا خاندان بھارت کا وفادار ہے ۔عمر عبداللہ اور محبوبہ مفتی نے دورہ پاکستان کے بے بہا ثمرات حاصل کیے تھے ۔ سری نگر واپسی پر عمر عبداللہ اور محبوبہ مفتی نے انتخاب لوگوں سے یہ کہہ کر ووٹ لیے تھے کہ پاکستان کے دوست صرف حریت والے ہی نہیں ہم بھی ہیں۔جنرل پرویز مشرف کی طرف سے اسلام آباد میں عمر عبداللہ اور محبوبہ مفتی کی پذیرائی نے ان کے ووٹ بنک کو محفوظ کرنے میں اہم کردار ادا کیا تھا۔۔ جنوری 2015 میں مقبوضہ جموں وکشمیر میں پی ڈی پی اور بی جے پی پر مشتمل نئی حکومت کا قیام عمل آگیا تھا ۔۔ عمرعبداللہ کی نیشنل کانفرنس کی مقبولیت کا گراف اس دفعہ کم ہر حالانکہ ان انتخابات کے موقع پر بھی عمر عبداللہ لوگوں سے کہتے ر ہے ہیں کہ میں بھی چاہتا ہوں ،میری بھی خواہش ہے کہ مسئلہ کشمیر حل ہو میں بھی چاہتا ہوں کہ رائے شماری ہو مگر مسئلہ یہ ہے کہ اگر بی جے پی جیت گئی تو کشمیر بارے بھارتی آئین کے آرٹیکل 370 کا خاتمہ ہو جائے گا۔ آئین کے اس آرٹیکل کے خاتمے سے سٹیٹ سبجیکٹ رول کا تحفظ ختم ہو جائے گا۔بھارتی ہندو کشمیر میں جائیدادیں خریدیں گے اور ریاست کی ڈیموگرافی تبدیل ہو جائے گی۔ایسے میں رائے شماری ہمارے حق میں نہیں ہو گی بلکہ ہم بھارت کا حصہ بن جائیں گے جس طرح بھارت کی دوسری ریاستیں ہیں۔اس لیے مجھے کامیاب کیا جائے تاکہ ہم دفعہ 370 کاتحفظ کر سکیں۔عمرعبداللہ کی نیشنل کانفرنس اب اپوزیشن کی جماعت ہے ۔ اگر عمرعبداللہ اقتدار میں آجاتے تو بھی صورت حال میں کوئی تبدیلی نہیں آنی تھی اس لیے کہ اقتدار کے لیے شیخ عبداللہ نے اندرا گاندھی سے معائدہ کرکے رائے شماری کا نعرہ ترک کر دیا تھا عمرعبداللہ کیسے حریت پسندی کے راستے پر چل سکتے ہیں ۔
Sardar Ashiq Hussain
About the Author: Sardar Ashiq Hussain Read More Articles by Sardar Ashiq Hussain: 58 Articles with 55923 views
The writer is a Journalist based in Islamabad. Email : [email protected]
سردار عاشق حسین اسلام آباد میں مقیم صحافی ہیں..
.. View More