بے حسی کی معراج
(عبدالرزاق چودھری, lahore)
مسلہ فلسطین کے تناظر میں تحریر |
|
گزشتہ کچھ ہفتوں میں ایسے دلخراش
سانحات رونماہوے جنہوں نے پوری امت مسلمہ کو افسردہ اور غمزدہ کر دیا۔ایک
تو سانحہ منیٰ کا دردناک واقعہ جو ابھی تک عالم اسلام کے لیے دکھ اور تکلیف
کا باعث بنا ہوا ہے اور دوسرا اسرائیلی جارحیت کا تازہ ترین واقعہ جس میں
موصولہ اطلاعات کے مطابق درجنوں معصوم اور نہتے فلسطینی جام شہادت نوش فرما
چکے ہیں اور سینکڑوں زخمی حالت میں ہسپتالوں میں مدد کے منتظر ہیں۔یہ افسوس
ناک واقعہ اس وقت رونما ہوا جب اسرائیلیوں کی جانب سے مسجد اقصیٰ کی بے
حرمتی کی گئی اور قبلہ اول سے متعلق ان کے مکروہ عزائم کھل کر سامنے آئے۔تو
اس کے ردعمل میں فلسطینی نوجوان سر پر کفن باندھے سینہ تان کر مسجد اقصیٰ
کی حفاظت کے لیے میدان میں کود پڑے اور اس مقدس مشن کی خاطر جانوں کے
نذرانے پیش کرنے لگے۔اسرائیل جو فلسطینیوں پر ظلم و ستم ڈھانے کی طویل ترین
اور بدترین تاریخ کا مکروہ کردار ہے اس نے ایک مرتبہ پھر سفاکی کی اس
داستان کو دہرا دیا۔ بچوں،بوڑھوں،خواتین اور جوانوں کی تمیز روا رکھے بغیر
دہشت گردی کی انتہا کر دی اور ان کا قصور صرف یہ کہ ایک تو وہ مسلمان ہیں
اور دوسرا اپنے حقوق کے حصول کی جدوجہدمیں مصروف ہیں۔
شنید ہے کہ امریکی وزیر خارجہ جان کیری عنقریب مشرق وسطیٰ کا دورہ کرنے
والے ہیں جہاں وہ اس مسلئے کے حل کے لیے اپنا کردار اد کریں گے۔ سوچنے کی
بات ہے جہاں اس مسلۂ کو لے کر تمام اسلامی ممالک،یو این او اور او آئی سی
جیسی تنطیموں کا کردار شرمناک ہے وہاں مکار ،عیار اور منافق امریکہ اس
مسلئے کے حل کے لیے کونسا ایسا انصاف پر مبنی کردار ادا کرے گاجو اسرائیلی
ظلم وستم کا شکار فلسطینیوں کی اشک شوئی و دلجوئی کا موجب ہو گا۔امریکہ کرہ
ارض پر موجود ایک ایسا پراسرار کردار ہے جس نے نہایت چالاکی اور مہارت سے
مسلمان ملکوں کو اندرونی مسائل میں اسطرح الجھا دیا ہے کہ ایک مسلمان ملک
کسی دوسرے برادر اسلامی ملک کی مدد کرنے کے قابل ہی نہیں ۔ہر ایک اپنے
مسائل میں اس قدر جکڑا ہوا ہے کہ دوسرے کی خبر گیری کی اسطاعت ہی نہیں
رکھتا۔ملک یمن کی اندرونی شورش کی کہانی ہو ،شام و عراق کا تنازعہ یا داعش
اور طالبان کی پیدائش سب کے پیچھے امریکی ہاتھ کارفرما نظر آتا ہے۔
غیر مسلموں سے گلہ کیا کرنا جب ہم اپنے گریبان میں دیکھیں تو شرمناک
صورتحال آنکھوں کے سامنے رقصاں ہے۔کیا قبلہ اول کی حفاظت صرف فلسطینیوں کا
فرض ہے۔کیا مسجد اقصیٰ کی حرمت کی پاسداری محض فلسطینیوں کی شہادتوں کی
متقاضی ہے۔ باقی عالم اسلام اس سے بر ی الذمہ ہے۔اس کا کوئی فرض نہیں کہ وہ
اپنے قبلہ اول کی حفاظت کے لیے کوئی کردا ر ادا کرے۔اس ضمن میں بڑے دکھ اور
افسوس سے کہنا پڑتا ہے پوری اسلامی دنیا اس مسلۂ میں اپنا وہ کردار ادا
کرنے سے قاصر دکھائی دیتی ہے جو حقیقی معنوں میں اسے ادا کرنا چاہیے۔عرب
ممالک کو دیکھ لیجیے اس مسلئے پر کھل کر بیان دینے سے بھی احتراز کرتے ہیں
اور جب معاملہ ہو اپنی داخلی صورتحال اور خودمختاری کا تو راتوں رات اتحاد
تشکیل پا جاتے ہیں فکر لاحق ہو جاتی ہے اور کھلبلی مچ جاتی ہے کبھی بھاگتے
ہیں امریکہ کی طرف اور کبھی دیگر ممالک کی افواج کا سہارا ڈھونڈتے ہیں۔آج
تک کتنے اتحاد اسرائیل کے خلاف وجود میں آئے یا اسرائیلی مظالم کو روکنے کے
لیے کوئی منظم ،موثر اور مربوط تحریک نے جنم لیا۔ مسلۂ فلسطین کے تناظر میں
عرب ممالک کی نسبت پاکستان کا کردار قابل تحسین ہے ۔پاکستان نے آج تک
اسرائیل کو منہ نہیں لگایا اور ہمیشہ برملا ہر فورم پر فلسطینیوں کے موقف
کی تائید کی ۔افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ زبانی جمع خرچ سے فلسطینیوں کے موقف
کو کبھی تقویت نہیں ملے گی جب تک اسلامی ممالک کا منظم اتحاد کھل کر سامنے
نہ آئے اور اینٹی اسرائیل تحریک کا آغاز نہ ہو جبکہ موجودہ حالات میں ایسے
کسی اتحاد کے وجود میں آنے کا امکان دور دور تک نظر نہیں آتا اور بظاہر
دکھائی دیتا ہے کہ آزادی کی یہ جنگ فلسطینیوں کو اپنے زور بازو پر ہی لڑنا
ہو گی۔
موجودہ حالات میں جس طرح اسرائیل بلا خوف و خطر فلسطینی باشندوں کو زدوکوب
اور تشدد کا نشانہ بنا رہا ہے اور عالم اسلام کی بے حسی معراج کو چھو رہی
ہے اس صورتحال کی نشاندہی کرتی ہے کہ مسلمان اپنی کمزوریوں اور کوتاہیوں کے
سبب احساس جیسے قیمتی جوہر کو کھو چکے ہیں اور ایمان کی حرارت بھی بلند
درجہ مقام پر فائز دکھائی نہیں دیتی ۔ورنہ یہ کیسے ممکن ہے کہ ایک بھائی
دہشت گردی ،گولہ باری اور سفاکیت کا نشانہ بن رہا ہو اور دوسرا بھائی خود
غرضی کا کمبل اوڑھ کر خواب غفلت کا شکار ہو۔سچ تو یہ ہے کہ فلسطینیوں کو
مسجد اقصیٰ کی حفاظت کی پاداش میں ظلم و ستم کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔اور
بد مست اسرائیل طاقت کے نشے میں نہتے فلطینیوں پر عالم اسلام کی خاموشی اور
بے حسی کا فائدہ اٹھا کر بغیر کسی خوف کے تمام مروجہ اخلاقی حدود پھلانگ کر
تعصب اور نفرت کی تلوار تیز کر کے تابڑتوڑ حملوں میں مصروف ہے اور ان حملوں
کے نتیجے میں ہزاروں قیمتی جانوں کا ضیاع ہو چکا ہے اور یہ سلسلہ تاحال
رکتا دکھائی نہیں دیتا ۔اگرچہ اس صورتحال پر درد مند مسلمانوں کا دل پسیج
رہا ہے لیکن وہ کر کچھ نہیں سکتے کیونکہ ان کے ہاتھ طرح طرح کی مجبوریوں کے
سبب بندھے ہوے ہیں۔
قبلہ اول جس کی حفاطت کی خاطر فلسطینی تکلیفوں کے پہاڑ کا سامنا کر رہے ہیں
دراصل دنیا بھر میں بسنے والے ایک ارب سے زائد مسلمانوں کے فرض کو تن تنہا
سرانجام دے رہے ہیں۔سچ تو یہ ہے کہ قبلہ اول کی جتنی اہمیت فلسطینیوں کے
لیے ہے اس کی اتنی ہی اہمیت دنیا کے دیگر ممالک میں بسنے والے مسلمانوں کے
لیے ہے۔اس لیے ضروری ہے کہ امت مسلمہ سر جوڑ کر کوئی ایسا لائحہ عمل طے کرے
جس سے مسلۂ فلسطین ہمیشہ ہمیشہ کے لیے حل ہو جاے اور مسجد اقصیٰ کی بے
حرمتی اور فلسطینیوں کے حقوق پر ڈاکہ ڈالنے جیسے مسائل ہمیشہ کے لیے دفن ہو
جائیں اور اس سلسلے میں عرب لیگ کو بھی کوئی جاندار کردار ادا کرنا چاہیے
آخر کار معاملہ صرف فلسطینیوں کی آزادی ہی کا نہیں قبلہ اول کی حفاظت کا
بھی ہے۔
|
|