جموں وکشمیر اور گلگت بلتستان کے
رشتے اٹوٹ انگ ہیں جنہیں کبھی ختم نہیں کیا جاسکتا ہے ہے ،مگربدقسمتی سے
آزادی کے بعد پاکستانی قیادت، حکومت اور کشمیری قیادت نے گلگت بلتستان
اورجموں وکشمیر کے اٹوٹ انگ رشتوں کو عملًا تسلیم کرنے کے بجائے انہیں
توڑنے کی دانستہ اور غیر دانستہ ناکام کوششیں کی، لیکن 70سال گزرنے کے بعد
اب حکومتی ایوانوں میں ان اٹوٹ انگ رشتوں کی بحالی کیلئے آواز اٹھ رہی ہے
جو مثبت قدم ہے ۔ کرگل لداخ تاریخی راستہ کھولنے کے حوالے سے وزیر اعلیٰ
گلگت بلتستان حافظ حفیظ الرحمن کی کوشش اور ان کا حالیہ بیان اسی سلسلے کی
کڑی ہے ۔،بلتستان کے ضلع شگر میں11اکتوبر کو جلسے سے خطاب میں کہاکہ ’’
حکومت پاکستان کرگل لداخ کے تاریخی روڈ کو کھولنے کیلئے تیار ہے لیکن بھارت
اس میں رکاوٹ بنا ہوا ہے‘‘۔خطے کے سنجیدہ حلقے اس بیان کو انتہائی مثبت
قرار دے رہے ہیں ۔ اگرچہ بلتستان سے اس ضمن میں طویل عرصہ سے آواز اٹھتی
رہی ہیں لیکن ماضی اس طرح آوازوں کو پاکستان دشمنی سے تعبیر کیاجاتا رہاہے
۔
معروف قوم پرست رہنماء سید حیدر شاہ رضوی مرحوم ایک طویل عرصے تک اس پر
آواز اٹھاتے رہے ،اس ضمن میں ان پر مقدمات بھی بنے۔اسی طرح بلتستان کے ہیڈ
کوارٹر سکردو میں 2011ء میں مہاجرین کرگل نے اس روڈ کے کھولنے کے حق میں
میں مظاہرہ کیا اور کرگل کی طرف مارچ کا اعلان کیا جس کی حمایت معروف قوم
پرست رہنماء منظور حسین پروانہ کی اور اس کی پاداش میں ان پر ریاست مخالف
ہونے کا مقدمہ قائم کیاگیا جو آج بھی زیر سماعت ہے ۔گلگت بلتستان اور جموں
کشمیر کو ملانے والے کرگل لداخ روڈ اور سرینگر استور روڈ(براستہ وادی
گریز،قمری ،منی مرگ ،برزل ) تاریخی اور انتہائی اہمیت کے حامل ہیں ۔2004ء
کے بعد جب آزاد کشمیر اور بھارتی زیر انتظام کشمیر کے درمیان جہاں بس سروس
شروع کی گئی وہاں ملاقاتوں اور رابطوں کیلئے مختلف پوائنٹس کا بھی انتخاب
کیا گیا لیکن دانستہ طور پر اس عمل میں گلگت بلتستان کو نظر انداز کردیا
گیا، شاید اس کی بنیادی وجہ یہ تھی کہ اس ضمن میں گلگت بلتستان میں کوئی
سیاسی توانا آواز نہیں تھی۔راقم نے2004ء میں کراچی میں کشمیری قائدین میر
واعظ عمر فاروق، یاسین ملک اوردیگر قائدین کے سامنے نصف درجن سے زائد
ملاقاتوں میں بات کی اور درجنوں مضامین بھی لکھے مگر کوئی مثبت رد عمل نہیں
آیا۔دیر آید درست آید کے مصداق حافظ حفیظ الرحمن نے اگر اس سنجیدہ ایشو پر
کوشش کر رہے ہیں تو ان کا یہ عمل لائق تحسین ہے ۔کیونکہ ان راستوں کی بندش
سے جہاں ہزاروں منقسم خاندان تقریبا 70سال سے میل ملاپ اور رابطوں سے محروم
ہیں وہی پر دوطرفہ معاشی اور سماجی نقصانات بھی ہیں۔
بدقسمتی یہ ہے کہ گلگت بلتستان کے باسیوں کو ویزے کے ذریعے بھی بھارتی زیر
انتظام کشمیر میں آباد عزیزوں سے ملاقات کے مواقع بھی نہیں دیئے جاتے ہیں
اور اسی طرح کی صورتحال کا سامنا بھارتی زیر انتظام کشمیر کے باسیوں کیلئے
گلگت بلتستان میں ہے۔ایک سے چند کلومیٹر کے فاصلے کی دوری پر بسنے والے
والدیں بچے ، بھائی بہن ، بھائی اور دیگرانتہائی قریبی عزیز و اقرباء
دوبارہ ملاقات کی آس لیے اس دنیا سے چلے گئے اور اب ان کی نسلیں ملاقات کی
آس لگائے ہوئے ہیں۔ پاکستانی اور بھارتی پاکستان (بالخصوص گلگت بلتستان
بھارتی زیر انتظام کشمیر)کی حکومتوں کو اس اہم ایشو پر خصوصی توجہ ینا ہوگی
۔
حافظ حفیظ الرحمن کشمیر النسل ہونے کے ناطے منقسم خاندانوں کی تکلیف سے
بخوبی آگاہ ہیں ،امید ہے کہ وہ اس کو محسوس کرتے ہوئے سفارتی سطح پر کرگل
لداخ اور سر نگر استور روڈ( براستہ وادی گریز )کھولنے کیلئے کوشش میں تیزی
لائیں گے ۔اس ضمن میں تمام سیاسی،مذہبی وسماجی قوتوں کو بھی ان کا ساتھ
دینے کی ضرورت ہے۔ پیپلزپارٹی کے دور میں سابق وزیر اعلی سید مہدی شاہ نے
خود کشمیر النسل ہونے کے باوجود اس ایشو کو نظر اندازکیا اور کبھی کسی
حکومتی یا پارٹی فورم پر آواز نہیں اٹھائی ،شاید انہیں اقتدار کی کرسی چھن
جانے کاخوف تھا۔
موصوف نے 14اکتوبر کو بیان میں وزیر اعلی گلگت بلتستان حافظ حفیظ الرحمن کو
تاریخ کے نااہل ترین وزیر اعلیٰ قرار دیا ہے اب یہ معلوم نہیں کہ وہ کس
تاریخ کی بات کررہے ہیں کیونکہ خطے کی تاریخ میں پہلے منتخب وزیر اعلی وہ
خود اور دوسرے حافظ حفیظ الرحمن ہیں اور دونوں ہی کشمیر النسل ہیں۔ دراصل
ایسا لگتاہے کہ سید مہدی شاہ کو وزارت سے محرومی کے بعد پارٹی کی صوبائی
صدارت کے جانے کا غم کھائے جارہاہے کیونکہ اطلاعات ہیں پیپلزپارٹی کی
صوبائی قیادت نے جون 2015ء کے انتخابات میں پارٹی کی بدترین شکست کی ذمہ
داری سید مہدی شاہ پر عائد کی ہے جس کے بعد پارٹی کی صوبائی قیادت انہیں
صدارت کے عہدے سے ہٹانے کیلئے سرگرم ہے۔ اطلاعات ہیں کہ سید مہدی شاہ اور
جسٹس (ر) سید جعفر شاہ کے درمیان شدید اختلافات ہیں جس کی تصدیق پیپلزپارٹی
کے مرکزی رہنماء قمرالزمان کائرہ اور ندیم افضل چند نے اپنے حالیہ دورہ
گلگت بلتستان کے میں بھی کی ہے۔ پیپلزپارٹی کے ذرائع کا کہناہے کہ دونوں
رہنماء صوبائی قیادت کے مابین اختلاف کے خاتمے اور تنظیم سازی کیلئے گلگت
میں موجود ہیں بظاہر کوشش یہی ہورہی ہے کہ سید مہدی شاہ اور سید جعفر شاہ
کے درمیان اختلافات کا خاتمہ کرکے دونوں میں سے کسی ایک کاانتخاب کیاجائے ،لیکن
پارٹی کے اندر ایسے لوگ موجود ہیں جو اس سے شدید اختلاف رکھتے ہیں ۔پیپلزپارٹی
کے ذرائع کا دعویٰ ہے کہ دو ’’سیدوں‘‘ کی لڑائی میں صوبائی صدارت کا قرعہ
امجد حسین ایڈوکیٹ یا سابق دپٹی اسپیکر جمیل احمد کے نام نکل سکتاہے، تاہم
پیپلزپارٹی کے سنجیدہ حلقوں کو ان دونوں کی غیر سجیدگی پر شکایت ہے ۔ ذرائع
کے مطابق دونوں رہنماء متحرک اور سرگرم ضرور ہیں لیکن ان کی جذباتیت اور
جلد بازی پارٹی کے لیے مزید نقصان کا باعث بنے گی ،موجودہ صورتحال میں سید
جعفر شاہ ہی مضبوط امیدوار ہیں، تاہم انتخابات کے دوران گلگت ریجن کی ذمہ
داری ان کے پاس تھی لیکن انہیں کامیابی نہ مل سکی، یہی ناکامی ان کے ناقدین
کاسب سے بڑا ہتھیار ہے۔
دوسری جانب قمرالزمان کائرہ نے اعلان کیا ہے ’’پیپلزپارٹی دوبارہ اقتدار
پرآئی تو خطے کو صوبائی اسٹیٹس دے گی ‘‘دلچسپ بات یہ ہے 2009میں جب پیپلز
پارٹی نے خطے کیلئے انتظامی پیکج کا اعلان کیا موصوف بطور وفاقی وزیر امور
وگلگت بلتستان اور گلگت بلتستان کے پہلے گورنر کے یہ دعویٰ کرتے رہے کہ
پیپلزپارٹی نے گلگت بلتستان کو پاکستان کا پانچواں صوبہ بنایاہے ،جس نے بھی
ان بیانات یا اعلانات کی تاریخی حقائق کے خلاف قرار دیا اس کو غدار سمیت
عجب القابات سے نوازا گیا۔کیا موصوف قوم کو بتا سکتے ہیں کہ 2009سے 2013تک
صوبائی سیٹ اپ کے حوالے سے ان کے اعلانات اور بیانات درست تھے یا آج کا
اعلان ! بھر حال ہر دو صورت میں ایک بات تو غلط بیانی اور دھوکہ ہے ۔یہ ایک
تاریخی حقیقت ہے کہ تنازع کشمیرکی وجہ سے حکومت پاکستان گلگت بلتستان کو
زیادہ سے زیادہ اختیارات تو دے سکتی ہے لیکن آئینی صوبہ نہیں بنا سکتی ۔
اسی بنیاد پر یہ سوال اٹھایا جا رہا ہے کہ ’’گلگت بلتستان میں انسداد دہشت
گردی کی عدالت کے جج راجہ شہباز خان کی جانب سے12اکتوبرکو اداروں کے خلاف
بیان دینے پر ایم کیوایم کے قائد الطاف حسین کو 81سال قید ،جائیداد کی
ضبطگی اور 24لاکھ جرمانے کی سزا قابل عمل ہے یا نہیں ؟‘‘کیا آئین کے مطابق
جج صاحب اس طرح کا فیصلہ دینے کا اختیار رکھتے ہیں؟ موصوف نے ایک نجی چینل
کے حوالے سے بھی کچھ عرصہ قبل اسی طرح کا فیصلہ دیا تھا ان دونوں فیصلوں کا
باریک بینی سے جائزہ لیاجائے تو ایسا لگتاہے کہ یہ اختیارات سے تجاوز ہے
اور اس طرح کے فیصلوں سے ملک کے مختلف حصوں میں خطے کی عدالیہ کے حوالے سے
مثبت اثرات مرتب نہیں ہو رہے ہیں ، ایم کیوایم کے قائد الطاف حسین کے مبینہ
جرائم اپنی جگہ لیکن گلگت بلتستان کی عدالت کا یہ فیصلہ بھی اپنی جگہ خود
ایک سوالیہ نشان ہے؟۔ |