عوامی کتب خانوں کی تاریخ

دوسری جنگِ عظیم کے بعد 1947ء میں آزادی کے بعد برصغیر میں قائم ہونے والا ’’عوامی کتب خانہ ‘‘ 1951ء میں دہلی میں قائم ہوا۔ اس کتب خانے میں تقریباً چھ لاکھ تیس ہزارکے لگ بھگ کتب موجود ہیں۔

کتب خانے ہماری ثقافت کا حصہ

پاکستان میں عوامی کتب خانے کی ابتدا انیسویں صدی کے نصف پر محیط ہے۔ سب سے پہلا عوامی کتب خانہ سندھ کراچی میں ’’فریئرہال لائبریری‘‘ کے نام سے 1851ء میں قائم کیا گیا۔ قیام پاکستان کے بعد اس کتب خانے کا نام لیاقت میموریل لائبریری رکھ دیا گیا۔ جسے آج کل کراچی میٹروپولیٹن سٹی لائبریری کے نام سے بھی پکارا جاتا ہے۔’’خالق دینا ہال لائبریری‘‘ اس کے بعد 1869ء میں سکھر میں ’’جنرل لائبریری‘‘ کا قیام عمل میں لایا گیا۔ راولپنڈی کی میونسپل لائبریری 1873ء میں قائم ہوئی۔ جب کہ ’’پنجاب پبلک لائبریری‘‘اس کے بعد 1884ء میں قائم ہوئی۔ ملتان میں ’’باغ لنگے خان کی لائبریری‘‘ اور کوئٹہ میں سینڈیمن لائبریری 1886ء میں، 1891کو کنٹونمنٹ بورڈ لائبریری، راولپنڈی اور ’’اقبال لائبریری‘‘ سیالکوٹ 1892ء میں قائم کی گئی۔ اس طرح اور بھی بہت سے’’ عوامی کتب خانے‘‘ مختلف شہروں میں قائم کیے گئے ان میں صوبہ سرحد میں بنوں کی ’’میونسپل لائبریری‘‘ جو 1905ء میں ’’میونسپل لائبریری‘‘ سرگودھا اور’’ کنگ لائبریری‘‘ گجرات 1920-30ء کے عشروں میں بنائی گئیں۔

کتب خانوں کی حالت 1950ء کے بعد بہتر ہونا شروع ہوئی۔ 1959ء کے قومی تعلیمی کمیشن کی رپورٹ کی سفارشات کی بنا پر عوامی کتب خانوں کی تحریک مضبوط ہوئی۔ ڈائریکٹوریٹ آف پبلک لائبریریز پنجاب کا قیام 1981ء میں ہوا۔ ’’پنجاب پبلک لائبریری‘‘ لاہور کا سب سے بڑا عوامی کتب خانہ تھا، جو آج بھی سنگِ میل کی حیثیت رکھتا ہے۔

’’عوامی یا پبلک لائبریریز ‘‘ہر خاص و عام کے لیے ہوتی ہیں ایسے کتب خانے عموماً حکومت کی جانب سے قائم کیے جاتے ہیں۔ ترقی یافتہ ممالک میں سماجی و نجی ادارے عوام الناس کے عملی تعاون سے ’’عوامی کتب خانے‘‘ قائم کرتے ہیں۔ پاکستان میں بھی بعض ایسے ادارے موجود ہیں جنھوں نے عوامی کتب خانوں کے فروغ اور قیام میں حکومت کے اشتراک سے نمایاں کارنامے انجام دیے اور کتب خانے قائم کیے۔ عوامی کتب خانے بلا امتیاز تمام لوگوں کے لیے ہوتے ہیں جہاں سے وہ بغیر کسی اُجرت کے فائدہ اُٹھاتے ہیں۔

’’عوامی کتب خانوں‘‘ میں کتابیں قارئین کی ضروریات کے مطابق ہونی چاہیے ان کتب خانوں میں چونکہ کتابیں عوام کی ضروریات کو مدِنظر رکھ کر نہیں خریدی جاتیں لہٰذا عوام کی دلچسپی ان کتب خانوں سے کم ہوجاتی ہے۔ کتب خانے عوام الناس کے لیے ہیں اس لیے ان میں کتابوں کی فراہمی ان کی ضروریات اور دلچسپی کے مطابق ہونی چاہییں۔

’’عوامی کتب خانے‘‘ کے ذخائر اور اس کی خدمات کا دوسرے کتب خانوں کے ذخائر اور خدمات سے روابط ہونا چاہیے۔ یہ کتب خانے کسی ضلعی اور صوبائی پالیسی کے تحت لازمی طور پر مربوط ہونے چاہییں۔ تاکہ بہتر خدمات سرانجام دے سکیں ۔ ان کتب خانوں میں مناسب عملے کا ہونا بھی انتہائی ضروری ہے کیونکہ مستند عملہ اور دیگر ضروری عملے کے بغیر کتب خانے کی مناسب خدمات ایک امرمحال ہے۔ مناسب فنڈز، مناسب کتابیں اور مناسب عملہ ہی کسی ’’عوامی کتب خانے‘‘ کی بہترخدمات کا ضامن ہوتی ہیں۔ نیزعوامی کتب خانوں میں گم شدہ کتب مقررہ شدہ نظام کے تحت قلم زد کرنے کے اختیارات بھی تفویض ہونے چاہییں۔

’’عوامی کتب خانے‘‘ اس ادارے کا نام ہے جو حکومت وقت، خودمختار، نیم سرکاری یا کسی فلاحی ادارے کی جانب سے یا مشترکہ طور پر عوام الناس کے لیے قائم کیا جائے اور بلاکسی امتیاز ہر خاص و عام کو بلااُجرت علمی فیض سے سیراب کرے۔‘‘

عوامی کتب خانوں کا بنیادی مقصد بلاامتیاز رنگ و نسل، ذات پات اور مذہب لوگوں کی علمی ضروریات پورا کرنا ہوتا ہے۔ عوام میں علمی ذوق پیدا کرنا، بچوں کی ذہنی سمجھ کے مطابق معیاری علمی مواد بہم پہنچانا تاکہ بچوں میں علمی ذوق اور پڑھنے کی عادات پیدا ہوں۔ کتب خانہ جس جگہ قائم ہو وہاں کے لوگوں کی تعلیمی قابلیت کے مطابق علمی مواد جمع کرنا۔

دوسری جنگِ عظیم کے بعد 1947ء میں آزادی کے بعد برصغیر میں قائم ہونے والا ’’عوامی کتب خانہ ‘‘ 1951ء میں دہلی میں قائم ہوا۔ اس کتب خانے میں تقریباً چھ لاکھ تیس ہزارکے لگ بھگ کتب موجود ہیں۔

’’عوامی کتب خانے‘‘ معاشرے کا ایک لازمی جزو ہے اور اس کا اہم کردار ہے ۔موجودہ دور میں علم میں بے پناہ وسعت آ گئی ہے۔ لا تعداد کتابیں شائع ہو رہی ہیں، بے شمار نئی تحقیقات ، مضامین ومقالات کی شکل میں آرہی ہیں۔ سائنس دانوں اور محققین کا جدید تحقیق سے واقف ہونا انتہائی ضروری ہے۔ اس کے ساتھ ہی عام آدمی کے لیے بھی جدید معلومات سے بہرہ ور ہونا لازمی ہے تاکہ وہ موجودہ معاشرے کے تقاضوں کو جانچ اور پرکھ سکے ۔عوامی کتب خانے تعلیم، ثقافت اور معلومات کی ایک زبردست قوت ِمتحرکہ ہیں۔

’’عوامی کتب خانے‘‘ ایسے ادارے ہیں جہاں عام آدمی خواہ وہ مستقل قاری ہو یا نہ ہو اپنی ضروریات کی فراہمی کے لیے کتب خانے میں تشریف لا سکتا ہے اور مستفید ہوسکتا ہے۔ عوامی کتب خانے ہرافراد کی ضروریات کو پورا کرتے ہیں۔ صنعت کاروں اور تاجروں کے لیے بھی مفید ہیں۔ نیز معاشرے کے مختلف ثقافتی گروہوں کو بھی خدمات مہیاکرتے ہیں اور تفریح کا سامان فراہم کرتے ہیں۔ نابینا اور دیگر معذور افراد کے لیے بھی کتب خانے سہولت بہم پہنچاتے ہیں۔
Naveed Pasha
About the Author: Naveed Pasha Read More Articles by Naveed Pasha: 3 Articles with 30543 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.