تحریر کے معنی لکھنا لکھائی،
دستاویز، نوشتہ، عبارت، مضمون۔ لکھنے کا ڈھنگ، چٹھی، خط و کتابت وغیرہ اور
ذریعہ سے مراد وہ اشیا جن پر تحریرکیا گیا ہو۔ذرائع ذریعہ کی جمع ہے۔
انسانی تہذیب کی پہلی تحریر علامت پتھر پر کنندہ نقوش ہیں۔ عہد قدیم میں
کتابت کے لیے مختلف سامان دریافت کیے گئے جیسے پتیاں، کیلے کی پتیاں، کنول
کی پتیاں، درختوں کی چھال، پتھر،چمڑا،کپڑا، دھات، لکڑی، وغیرہ ۔اور اس
سامان کے استعمال میں فراہمی اور ضرورت کے لحاظ سے وقتاً فوقتاً کمی بیشی
ہوتی رہی۔عہد وسطیٰ میں مغلوں نے کاغذ بنانے اور اس کو بڑے پیمانے پر
استعمال کرنا شروع کیا۔ ابتدائی ادوار میں تحریر خاص طبقہ کے استعمال کی
چیز رہی، جو ابتدائی تحریریں سامنے آتی ہیں وہ خطوط، حسابات، کھانے پکانے
کے نسخے اور سفرنامے وغیرہ ہیں اس طرح بتدریج کتابت اور مطالعہ کے فن کو
فروغ حاصل ہوا۔
عہدقدیم میں افلاطون، سقراط اور ارسطو کے فلسفوں اور نئے نئے خیالات سے
اتنی ترقی ہو چکی تھی کہ یونان علوم فنون کے میدان میں دنیا کی قیادت کر
رہا تھا۔ یونان میں ہر فلسفی کا ایک علمی حلقہ تھا جس میں شاگردوں کی خاصی
تعداد ہوتی تھی۔ ان کے فلسفوں کی جہاں تعلیم دی جاتی تھی وہ ’’اکیڈمی‘‘
کہلاتی تھی۔ اس میں شاگردوں کی ضروریات کے لیے کتابوں کا معقول ذخیرہ ہوتا
تھا۔ چنانچہ افلاطون اور ارسطو کے نام سے قائم ہونے والی اکیڈمیوں میں بھی
معیاری کتب خانے تھے۔ ارسطو نے افلاطون کے ذخیرہ کتب کو خریدکر اپنے
شاگردوں کے لیے وقف کر دیا تھا۔ اس طرح ارسطو کے’’ تعلیمی کتب خانے‘‘ کو
پہلا یونی ورسٹی کتب خانہ کہا جاتا ہے۔ اس کے بعد روم میں بھی ایسے کتب
خانوں کا نشان ملتا ہے جن میں اوکتاوین، بالاتین، سوئس اور آرونکا کے کتب
خانے بہت مشہور ہیں۔ ان میں زیادہ تر ’’تعلیمی کتب خانے‘‘ تھے مگر ان کی
تعداد انگلیوں پر شمار کی جا سکتی تھی۔
کتب خانہ آشوربانی پال اور اس عہد کے دیگر کتب خانوں کا تحریری مواد مٹی کی
تختیوں یا الواحِ سفالی(مٹی کے برتنوں) پر مشتمل تھا۔ قدیم مصر میں، قرطاس
مصری یا ’’پیپرس‘‘ کو بطور تحریری مواد کام میں لایا جاتا تھا۔ان کو گول
کرنے کے بعد ان پر ایک پرچی چپکا دی جاتی تھی۔ جس پر کتاب کا نام لکھا ہوتا
تھا۔ قاری ایک پیپرس کی چھوٹی پرچی پر نام لکھ دیتا تھا اور بڑے بڑے رولوں
کی قطار سے کتب خانے کا نگراں مذکورہ رول نکال کر دے دیتا تھا۔ چوتھی صدی
عیسوی میں چرمی کاغذ قرطاس مصری پر سبقت لے گیا۔
اسی طرح روم میں جہاں چرمی و جھلی نما کتب کی ایک گراں قدر تعداد موجود تھی
کتابیں اپنے موضوعات اور مصنّفین کے اعتبار سے ترتیب دی جاتی تھیں۔ان کتب
خانوں میں مواد کا استعمال عام قاری بھی کرتے تھے لیکن ہر کتب خانہ یا تو
کسی بادشاہ یا امیر کے محل میں اس کے ذاتی استعمال کے لیے ہوتا تھا یا دینی
عبادت گاہوں میں پروہتوں کے مطالعہ کے لیے ہوتا تھا یا عوام الناس کے لیے۔
لیکن عوامی کتب خانوں کی بہتات صرف اسلامی دور میں ہوئی۔ عموماً کتب خانے
مصروف شاہراہوں پر واقع ہوتے تھے جہاں ادبا فضلا اور شعرا دن کے اوقات میں
مطالعے کرتے تھے۔ رات میں مطالعہ کا رواج نہیں تھا۔ کتب خانہ میں جہاں
مخطوطات نقل کیے جاتے تھے یا مطالعہ کیا جاتا تھا وہاں مکمل خاموشی ہوتی
تھی۔ مصر و روم میں بھی ہزارہا کتابوں اور رولوں کے کیٹلاگ بنائے گئے جو اب
دستیاب نہیں ہیں۔
اسکندریہ کے کتب خانہ کی کیٹلاگ تاریخ میں مذکور ہے یہ پناکس Pinakesکے نام
سے مشہور ہوا۔ ان عظیم کتب خانوں کے حصولِ مواد کے اہم ذرائع میں کتابوں کی
سرپرستی کرنے والے حکمرانوں کی ذاتی دلچسپی اور کوششوں کو بڑا دخل حاصل
تھا۔ اس کے علاوہ کتب دور دراز کے ممالک سے منھ مانگے داموں خرید ی جاتی
تھیں۔
اس مقصد کے لیے تقریباً ہر بڑے کتب خانے کے ساتھ کاتبوں اور محرروں کی
جماعت ہوتی تھی۔ اس غرض کے لیے اسکندریہ اورسیزریہ میں معیاری دارالکتابت
یا دارالانشاء قائم کیے گئے تھے۔ خواندہ غلاموں کو دارالانشاء میں فرائض کی
انجام دہی پر مامور کیا جاتا جو کہ نسخوں کی کتابت اور بوسیدہ مخطوطات کی
مرمت و جلد بندی کا فریضہ بھی ادا کرتے تھے۔
عہدِ قدیم کے کتب خانے بڑی سنگِ میل کی حیثیت رکھتے تھے۔ |