تحریر: شاہین اختر
گزشتہ دنوں مقبوضہ جموں و کشمیر کی ہائی کورٹ نے اپنے ایک تاریخ ساز فیصلے
میں کہا کہ دیگر خود مختار ریاستوں نے بھارت کے ساتھ دستاویز الحاق پر
دستخط کیے تھے ، لیکن جموں و کشمیر کی ریاست برصغیر کی تقسیم کے بعد بھارت
میں ضم نہیں ہوئی تھی بلکہ اس نے بھارت کے ساتھ الحاق کے وقت اپنی محدود
خود مختاری برقرار رکھی تھی۔ جموں وکشمیر ہائی کورٹ نے اپنے ایک تاریخی
فیصلے میں کہا تھاکہ جموں و کشمیر کی خود مختاری سے متعلق دستاویز بھارتی
آئین کا مستقل حصہ بن چکی ہے ، جس کو نہ تو منسوخ کیا جا سکتا ہے نہ ہی اس
میں کوئی ترمیم کی جا سکتی ہے ۔ جموں و کشمیر ہائی کورٹ کے جسٹس حسنین
مسعودی اور جسٹس راج کوتوال پر مشتمل ڈویژن بینچ نے اپنا فیصلہ صادر کرتے
ہوئے کہا کہ چونکہ جموں وکشمیر کی آئین ساز اسمبلی نے 1957 میں تحلیل ہونے
سے قبل دفعہ 370 میں ترمیم یا اسے منسوخ کرنے کی سفارش نہیں کی تھی جس کی
وجہ سے دفعہ 370 نے بھارتی آئین میں ایک مستقل مقام حاصل کر لیا اوراب اس
میں نہ کوئی ترمیم کی جا سکتی ہے اور نہ ہی اسے منسوخ کیا جا سکتا ہے ۔
واضح رہے کہ مقبوضہ جموں و کشمیر کو دفعہ 370 کے تحت خصوصی پوزیشن حاصل ہے
۔ مقبوضہ جموں وکشمیر کے اس تاریخی فیصلے سے بھارتیہ جنتا پارٹی(بی جے پی)
اور راشٹریہ سویم سیوک سنگھ (آر ایس ایس)کے موقف کو زوردار جھٹکا لگا ہے ۔
دفعہ 35 اے کی آئینی حیثیت کو آر ایس ایس سے وابستہ ایک تھنک ٹینک جے کے
اسٹڈی سینٹرنے سپریم کورٹ میں چیلنج کیا ہے ۔
مسئلہ کشمیر سابقہ 67 سالوں سے ہمارے لیے حد درجہ اہمیت کا حامل رہا
ہے۔بھارت نے کشمیر پر غاصبانہ قبضہ کر رکھا ہے اور ریاستی دہشت گردی کے
ذریعے تحریک ِآزادی کشمیر کو دبانے کی ناکام کوشش میں مصروف ہے۔ حق خود
ارادیت کشمیری عوام کا وہ حق ہے جسے بین الاقوامی برادری تسلیم کرتی ہے۔ جس
وقت تک یہ حق اہالیان کشمیر کو مل نہیں جاتا اس وقت تک تحریکِ آزادی کشمیر
رک سکتی ہے اور نہ دنیاکی کوئی طاقت اسے روک سکتی ہے۔ اس مسئلہ کا قابل عمل
حل اقوام متحدہ کی قراردادوں کی روشنی میں ہی ممکن ہے۔ اس وقت جنوبی ایشیا
میں امن کی خواہش رکھنے والی دنیا کو یہ احساس دلانا از حد ضروری ہے کہ
مسئلہ کشمیر کو حل کیے بغیر اس خطہ میں امن کے خواب دیکھنا بے سود ہیں۔
1947 میں بھارت نے ہی اقوام متحدہ کو مسئلہ کشمیر کے حل کے لیے خود درخواست
دی تھی۔ جب اقوام متحدہ نے ایک قرارداد منظور کر کے کشمیریوں کو استصواب
رائے کا حق دیا تو اس وقت ہندوستان نے ریاست جموں و کشمیر میں رائے شماری
پر حامی بھر لی لیکن بعد میں انکاری ہو گیا۔ اِس وقت آٹھ لاکھ کے قریب فوج
مقبوضہ کشمیر میں موجود ہے۔ ظلم و ستم کا ہر حربہ استعمال کیا جا رہا ہے۔
ابھی تک بھارت ایک لاکھ سے زیادہ لوگوں کو شہید کرچکاہے۔ ہزاروں مکانات
مسمار کر دئیے گئے۔ لاکھوں بچے یتیم اور ہزاروں عورتیں بیوہ ہو گئیں۔ عفت
مآب خواتین کی عصمت دری روز کا معمول بن چکا ہے۔ بھارت کے ظلم و ستم نے و
ادی کشمیر کو لہو رنگ اور انسانیت کا مدفن بنا دیا ہے۔ہم کشمیری عوام کی
جرات، حوصلے اور پامردی کو سلام پیش کرتے ہیں کہ یہ ساری صعوبتیں بھی انہیں
اپنے مشن سے سر مو منحرف نہ کر سکیں بلکہ اس سے تحریک آزادی کشمیرمزیدمضبوط
ہوئی۔ اب وقت ہے کہ اقوام عالم کے ضمیر کو جھنجھوڑا جائے۔ذرائع ابلاغ کے
ذریعے انسانیت کو بیدار کیا جائے تاکہ عالمی برادری کشمیریوں کے شانہ نشانہ
کھڑی ہو کر ان کے پیدائشی حق خود ارادیت کی مکمل حمائت کرے اور بھارت یہ حق
دینے پر مجبور ہو۔ |