ایم کیو ایم،گینگ وار اور طالبان اتحاد مبارک ہو

ایک وقت تھا کہ ایم کیو ایم کے رہنماجب ٹاک شوز میں آتے تھے اپنی گردن کی نسیں پھلا پھلا کر طالبان اور جماعت اسلامی کا گٹھ جوڑ ثابت کرنے کی کوشش کرتے تھے ۔جماعت کے رہنماؤں کے بیانات کو توڑ مروڑ کر پیش کیا جاتا اور عوام کو گمراہ کرنے کی کوشش کی جاتی ۔پھر یہ بھی دعوی کیا جاتا کہ الطاف بھائی وہ پہلے رہنما ہیں جنھوں نے بہ بانگ دہل سب سے پہلے یہ اطلاع دی تھی کہ طالبان کراچی میں آگئے ہیں ۔اسی زمانے میں ایم کیو ایم نے پورے ملک میں ایک ریفرنڈم کرانے کا اعلان بھی کیا تھا کہ آپ کو قائد اعظم کا پاکستان چاہیے یا طالبان کا پاکستان ۔لیکن پھر خود ہی اس اعلان سے دستبردار ہو گئے ۔2013کے عام انتخابات کے موقع پر ایم کیو ایم کہ دفاتر کے قرب وجوار میں جو دھماکے ہو رہے تھے تو میڈیا میں دھماکے کی خبر کے ساتھ ساتھ یہ خبر بھی نشر کی جاتی کہ طالبان نے اس دھماکے کی ذمہ داری قبول کر لی ہے ۔جو بظاہر تویہ باور کرانے کیے تھا کہ طالبان کراچی میں ایم کیو ایم کے خلاف متحرک ہے خبر میں ذمہ داری قبول کرنے والے طالبان کے کسی رہنما کا نام نہیں نشر ہوتا تھا ۔

طالبان اب کسی گروہ کا نام نہیں ہے بلکہ یہ ایک طرز عمل کا نام ہے اور اس کی اتنی اقسام ہیں انھیں گنا بھی نہیں جاسکتا ۔پاکستان میں طالبان کے جتنے گروپ کا م کررہے ہیں ان میں ایک قدر مشترک یہ ہے کہ ریاست کے خلاف کام کررہے ہیں البتہ ان کے سرپرست الگ الگ ہیں ۔فوج ایک طویل عرصے سے طالبان کے خلاف آپریشن میں مصروف ہے ۔کراچی میں طالبان سے پہلے لیاری امن کمیٹی کے نام سے ایک اور گروپ منظم ہوا جس نے ایم کیو ایم کی طرز پر بھتوں کا سلسلہ شروع کیا کراچی میں بھتے کی بنیاد دالنے والی تو ایم کیو ایم ہی تھی اب یہ ایک نیا عنصر شامل ہو گیا جس نے زیادہ سفاکی کے ساتھ یہ سلسلہ شروع کیا پہلے تو کہیں کہیں کچھ تصادم بھی ہوا پھر کچھ عرصے بلوچ مہاجر فسادات بھی کرائے گئے جس میں بے قصور بلوچ اور مہاجر مارے گئے ۔بھتوں کی وصولیابی کے حوالے سے بھی ٹکراؤ ہوا ۔ طالبان کا نام بھی بھتوں کی وصولیابی کے حوالے اخبارات کی زینت بننے لگا۔

اس کے بعد کراچی کے شہریوں نے یہ منظر بھی دیکھا کہ بھتا وصول کرنے والے ان تینوں گروہوں میں ایک خاموش اتحاد ہو گیا ہے اور آپس میں علاقے تقسیم کرلیے گئے ہیں کہ اس علاقے میں تم نہیں آؤ گے ہم تمہارے علاقوں میں نہیں جائیں گے ۔اس کے باوجود بعض علاقے ایسے بھی تھے جہاں دکانداروں کو تینوں گروپ کی طرف سے بھتوں کی پرچیاں ملتی تھیں ۔اس میں بالخصوص پاک کالونی کے منگھو پیر روڈ پر ماربل کا کاروبار کرنے والے زیادہ پریشان رہتے تھے کہ ایک ایک دکان پر تینوں گروپ کی پرچیاں آجاتی تھیں ۔اس صورتحال نے کراچی کے کاروبار کو تباہ کر کے رکھ دیا کراچی سے سرمایہ اڑکر ملک کے دوسرے حصوں کی طرف جانے لگا جس سے بے روزگاری میں اضافہ ہوا اور اس کے نتیجے میں چوری و ڈکتی کی وارداتوں میں بہت تیزی سے اضافہ ہونے لگا ۔

اب آج تو یہ باتیں کھل کر سامنے آگئیں کہ ہمارے پڑوسی ملک بھارت کی اصل کوشش یہ رہی ہے کراچی میں مسلسل عدم استحکام کا سلسلہ جاری رہے کہ یہ پورے ملک کا معاشی حب ہے یہاں پر اہدافی قتل ہوتے رہیں روزآنہ بیس پچیس لاشیں گرتی رہیں کاروباری حضرات سے بھتوں کا سلسلہ جاری و ساری رہے ،اس شہر کے علماء ،دانشور ،ادیب ،صحافی ،استادوں اور ڈاکٹروں کا قتل ہوتا رہے تاکہ یہاں کی معاشی سرگرمیاں معطل رہیں اور ملک معاشی ابتری کا شکار ہو کر عالمی مالیاتی اداروں سے قرض لینے پر مجبور ہو جائے پھر یہ عالمی مالیاتی ادارے اپنی شرائط پر قرضوں کا اجراء کریں پچھلے پندرہ بیس سال سے اس شہر میں یہی کچھ ہو رہا تھا اور ہمیں انتہائی دلی دکھ اور افسوس ہے کہ اس شہر کی ایک معروف لسانی جماعت جو اپنے آپ کو اس ملک کے بانیان کی اولادیں کہتے ہیں وہی اس میں ملوث پائے گئے ۔

ابھی حال ہی میں آپ نے یہ خبر بھی پڑھی ہو گی کہ برطانوی حکومت نے پاکستان کی حکومت کو ایم کیو ایم کے ان تمام افراد کی فہرست دے دی ہے جو ہندوستان کی خفیہ تنظیم را سے رقم لے کر پارٹی کی لندن قیادت کو دیتے تھے اور پچھلے دنوں لندن میں ایم کیو ایم کے رہنما محمد انور نے تو بی بی سی میں تو باقاعدہ یہ بیان دیا ہے کہ انھوں نے را سے رقوم حاصل کی ہے اور اس کے بدلے کراچی میں امن وامان کے مسائل پیدا ہوتے رہیں ۔اتناسب کچھ آنے کے باوجود ہماری وفاقی حکومت ان حضرات کی نازبرداریاں کررہی ہے دوسری طرف یہ خبریں بھی سنائی دیتی ہیں کہ تحریک طالبان پاکستان کو ہمارے دشمن ممالک بالخصوص بھارت کی سرپرستی حاصل ہے ۔طالبان کو جب بھی موقع ملتا ہے پاکستان میں کوئی خوفناک کارروائی کر ڈالتے ہیں ۔کراچی میں طالبان ،متحدہ قومی موومنٹ اور لیاری گینگ وار کا بھتا وصولیابی کے حوالے سے ایک خاموش اتحاد پہلے سے چلا آرہا تھا ۔

نئی صورتحال میں جب رینجر نے کراچی میں آپریشن کا آغاذ کیا تو بیک وقت تینوں گروپ کے خلاف کاروائی شروع کی ۔یہ بات بھی سننے میں آئی کہ نائن زیرو پر چھاپے سے پہلے رینجرز حکام نے ایم کیو ایم کی قیادت کو مطلوبہ ملزمان کی ایک فہرست پیش کی تھی کہ یہ لوگ نائن زیرو پر چھپے ہوئے ہیں انھیں رینجر کے حوالے کیا جائے ،تو ان کی طرف سے انکار کردیا گیا اور شاید ایم کیو ایم کی قیادت کو یہ زعم تھا کہ نائن زیرو پر تو چڑیا پر بھی نہیں مار سکتی لیکن جب چھاپا پڑا تو سارے مطلوبہ ملزمان وہیں سے بر آمد ہوئے ۔ایم کیو ایم کیونکہ ایک سیاسی تنظیم ہے اس لیے یہ اپنے آپ کو مظلوم بنا کر پیش کرتی ہے جب کہ یہاں ایسی بھی خبریں سننے کو ملیں کہ طالبان کے لوگ پکڑے گئے لیکن وہ پولیس مقابلے میں مار دیے گئے رینجرز کے اقدام سے شہر کراچی میں امن وامان قائم ہوا ہے لوگوں نے سکھ کا سانس لیا ہے ۔لیکن اس کے ساتھ ہی لیاری گینگ وار کے خلاف بھی آپریشن کیا گیا اور آج لیاری میں بھی امن قائم ہوگیا جہاں یہ لوگ اپنے مخالفین کو مار کر ان کے سروں سے فٹبال کھیلتے تھے ۔

اب تک تو ان تینوں تنظیموں میں بھتوں کے حوالے سے اتحاد تھا اب رینجرز کے خلاف اور کراچی میں دہشت گردانہ کارروائی کے لیے ایم کیو ایم ،گینگ وار اور طالبان تینوں ایک ہو گئے کہ تینوں کے مشترکہ دشمن تمام ریاستی ادارے بالخصوص رینجرز ہے اس لیے کراچی میں پولیس اہلکار اور ٹریفک پولیس والوں کی ٹارگٹ کلنگ ہو رہی ہے اس سلسلے میں حساس اداروں نے ایک رپورٹ جاری کی ہے جس کو پڑھ کر اندازہ ہو گا کہ اب تک بھتوں کی وصولیابی میں خاموش اتحاد کرنے والے ریاستی اداروں کے خلاف دہشت گردی میں بھی متحد ہو چکے ہیں ۔جمعہ 16اکتوبر کے روزنامہ نئی بات میں خبر شائع ہوئی ہے کہ "کراچی میں جاری پولیس اہلکاروں کی ٹارگٹ کلنگ پر تیار کی گئی تحقیقاتی رپورٹ خفیہ اداروں نے اعلیٰ حکام کو ارسال کردی ہے ۔رپورٹ کے مطابق پولیس اہلکاروں کے قتل میں کالعدم تحریک طالبان،لیاری گینگ وار اور متحدہ قومی موومنٹ کے عسکری گروپ ملوث ہے۔خفیہ اداروں کی تیارکردہ تحقیقاتی رپورٹ کے مطابق گولی مار چورنگی کے قریب ٹریفک پولیس اہلکاروں پر حملے میں کالعدم تحریک طالبان ملوث ہے ۔اس کے علاوہ چنگ جی رکشہ پر پابندی کی پاداش میں ٹریفک پولیس اہلکاروں کو نشانہ بنایاجارہا ہے ۔رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ پولیس اہلکاروں پر حملے میں لیاری کے دو گینگ ملوث ہیں ان گروپس کو سلیم چاکلیٹی اور شاہد بکک چلا رہے ہیں جب کہ ایم کیو ایم کا معین ٹی ٹی گروپ بھی حملوں میں ملوث ہے ۔"
Jawaid Ahmed Khan
About the Author: Jawaid Ahmed Khan Read More Articles by Jawaid Ahmed Khan: 80 Articles with 50034 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.