کلکرنی کا کالا منہ ۔ بھارت کا اصل چہرہ

بھارت کی تھنک ٹینک تنظیم آبزرور ریسرچ فاونڈیشن نے پاکستان کے سابق وزیر خارجہ خورشید محمود قصوری کو ان کی کتاب کی تعارفی تقریب کے انعقاد کی دعوت دی، تقریب سے قبل بھارت متعصب ہندو کی تنظیم شیو سینا کے غنڈو نے ناصرف احتجاج کیا، پاکستان کے خلاف نعرے بازی کی حتیٰ کہ ان کے منہ کوکالا کر ڈالا۔ شیو شینا کے غنڈے آجکل مودی سرکار کی آشیر واد کے ساتھ پاکستان کے خلاف سخت رویہ اختیار کیے ہوئے ہے۔ اس کالم میں اس تقریب کا حال شیو شینا کی غنڈہ گردی ار پاکستان دشمنی کی تصویر کشی کی گئی ہے۔

پاکستان کے سابق وزیر خارجہ خورشید محمود قصوری کی کتاب کی تعارفی تقریب سے قبل بھارت کے شیو سینا کے غنڈو نے ان کے منہ کالا کر ڈالا

بھارت کے متعصب ہندوؤں کی تنظیم شیو سیناکے دہشت گردوں نے اپنے ہی ہم وطن و ہم مذہب سدھندرا کلکرنی جو بھارتی سیاست داں، صحافی، کالم نگار اور بھارتی تھنک ٹینک ’آبزرور ریسرچ فاؤنڈیشن‘(Observer Research Foundation, ORF)کے سربراہ بھی ہیں کے چہرہ پر کالا پینٹ مل کر اس کا منہ کالا کردیا ، یہ عمل محض کلکرنی کا منہ کالا کرنا ہی نہیں بلکہ ایسا کرکے شیوسینا کے دہشت گردوں نے بھارت کا اصلی چہرہ دنیا کے سامنے پیش کیا ہے۔ ہمیں تو ان بھارتی دہشت گردوں کا شکر گزار ہونا چاہیے کہ ہم 67سال سے دنیا کو بھارت کی پاکستان دشمنی کے حقائق دکھا رہے کہ بھارت مسلسل پاکستان دشمنی پر آمادہ ہے، اس نے پاکستان کے وجود کو پہلے دن سے ہی قبول نہیں کیا ہے، اس نے سازش کر کے پاکستان کو دو لخت کرنے میں بنیا دی کردار ادا کیا، حال ہی میں نریندر مودی نے دنیا کے سامنے اس اعتراف بھی کیا کہ انہوں نے بنگلہ دیش قائم کرایا، وہ کشمیر یوں پر ظلم وستم کے پہاڑ ڈھا رہا ہے ، اس نے کشمیریوں کو ان کے حقِ خود ارادیت سے محروم کیا ہوا ہے، اقوام متحدہ کی قرار داد کی مسلسل نفی کررہا ہے، بلوچستان میں علیحدگی پسندوں کی پشت پناہی کررہا ہے، وہ کسی صورت بھی پاکستان کو خوش حال اور ترقی کرتا نہیں دیکھنا چاہتا۔ ہندو تنظیم شیو سینا کے غنڈوں نے کلکرنی کے منہ پر سیاہی مل کر پاکستان کے اصولی موقف کی تائید کردی، ثابت ہوگیا کہ بھارت پاکستان سے کس قدر عداوت ، نفرت اور دشمنی رکھتا ہے۔

پاکستان کے سابق وزیر خارجہ خورشید محمود قصوری کی کتاب "Neither a back nor a dove"کی تعارفی تقریب کی دعوت بھارت کی ایک تھنک ٹینک تنظیم آبزرور ریسرچ فاؤنڈیشن کے چیرٔمین سدھندرا کلکرنی(Sudheendra Kulkarni)نے دی۔ اس کتا ب میں قصوری صاحب نے ہندوستان اور پاکستان کے تعلقات کے حوالے سے بہت سے حقائق بیان کیے ہیں۔ سندھندراکلکرنی بنیادی طور پر کمیونسٹ خیالات کاحامل کالم نگار، صحافی اور سیاسی کارکن ہے۔ یہ بھارٹی کمیونسٹ پارٹی( مارکسسٹ) کا رکن بھی رہ چکا ہے۔1996ء میں یہ بھارتیہ جنتا پارٹی(BJP) سے منسلک ہوا، مارکسی نظریات رکھتا تھا لیکن جلد ہی اس نے محسوس کیا کہ مارکسی نظریات بھارت کے لیے مناسب نہیں۔چنانچہ اس نے ان نظریات سے کنارہ کشی اختیار کر لی۔ بھارتی سیاست دانوں کے قریب بھی رہا اٹل بہاری واجپائی کی تقاریر بھی لکھتا رہا ، 2008ء میں لال کرشن ایڈوانی کا شریک کار بن گیا جس نے اسے سیاسی طور پر متعارف کرانے اور اوپر پہنچانے میں اہم کردار ادا کیا ۔ 2009ء میں بھارتیہ جنتا پارٹی(BJP) سے علیحدہ ہوگیا۔ پارٹی کو شکست ہوئی تو اس کا کردار بھی پارٹی سے ختم ہوگیا۔ لیکن 2012ء میں یہ دوبارہ بھارتیہ جنتا پارٹی(BJP) میں شریک ہوگیا۔ اس دوران اس نے کالم نگاری کے ساتھ ساتھ تھک ٹینک کی بنیاد رکھی اور اس کے زیر اہتمام مختلف سیاسی، نیم سیاسی اور ادبی وعلمی سرگرمیاں شروع کیں۔ یہ بھارت میں ہونے والے ایک معروف اسکینڈل Cash-for-votesکے حوالے سے بھی جانا جاتا ہے۔ چند روز قبل ممبئی میں اس نے خورشید قصوری صاحب کو ان کی کتاب کی تقریب رونمائی کی دعوت دی۔ بظاہر اس تقریب کا سیاست سے کوئی تعلق نظر نہیں آتا لیکن بھارت کی انتہاپسند تنظیم شیو سیناکے غنڈوں نے کلکرنی کو اس تقریب کے انعقاد سے روکا اور مختلف قسم کی دھمکیا ں دیں۔ بھارت کے انتہا پسندوں کی جانب سے ایسا کرنا کوئی نئی بات نہیں تھی۔ وہ مسلسل اس قسم کی غیر اخلاقی، پاکستان دشمن حرکتیں کر تے رہے ہیں۔ پاکستان کی کرکٹ ٹیم کو بھارت کے دورہ پر خطرناک انجام کی دھمکی دے کر دورے کو ملتوی کرانا، سمجھوتا ایکسپریس کی بندش ، پاکستان کے فنکاروں کے لیے بھارت میں داخلے پر انہیں دھمکیاں دینا، فن کار غلام علی کا شو ملتوی کرانا، گائیں کے گوشت پر مسلمانوں کو قتل کردینا، جو مسلمان ہندوستان میں رہتے ہیں انہیں مختلف ہیلے بہانوں سے پریشان کرنا اس تنظیم کا شیوہ ہے۔ مودی حکومت نے اس تنظیم کی دہشت گردی کو روکنے کے بجائے انہیں کھلی چھٹی دے رکھی ہے۔ جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ حکومت بھی یہی کچھ چاہتی ہے جو اس تنظیم کے دہشت گردکر رہے ہیں۔

ممبئی میں قصور صاحب کی کتاب کی تقریب کا انعقاد تمام تر دھمکیوں کے باوجود منعقد ہوا۔ کلکرنی کا کہنا تھا کہ وہ ہر صورت تقریب کا احتمام کریں گے ۔ ان کے خیال میں ’نادھمکی سے، نہ بندوق سے، نا گولی سے بات بنتی ہے بولی سے‘۔ بات مناسب ہے کہ دھمکیاں اور دہشت گردی سے بات بگڑتی ہی ہے بنتی نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان مسلسل بھارت سے گفت وشنید کا سلسلہ دوبارہ شروع کرنے پر زور دے رہا ہے لیکن بھارت اس سے اتنا ہی دور بھاگنے کی کوشش کررہا ہے۔ تقریب کا آغاز ہونے والا تھا، مہمان آنا شروع ہوچکے تھے۔ تقریب کے مہمان خصوصی اور صاحبِ کتاب خورشید قصوری صاحب بھی تقریب میں پہنچے، میزبان سدھندر اکلکرنی جوں ہی تقریب گاہ پہنچے تقریب گاہ کے باہر موجود متعصب ہندو تنظیم شیو سیناکے غنڈوں نے کلکرنی کے اوپر دھاوا بول دیا، ان کے منہ پر کالا پینٹ اس طرح ملا کے ان کا پورا چہرہ سیاہ ہوگیا۔ اس موقع پر انہیں ذود و کوب بھی کیا گیا۔ یہ سیاہ چہرہ کلکرنی کا نہیں بلکہ شیو سینا کے غنڈوں نے بھارت کا اصلی چہرہ دنیا کے سامنے پیش کیا ۔شیو سینا کے غنڈوں نے یہ عمل کرکے دنیا کو یہ دکھا دیا کہ بھارت جو سیکولرزم کا دعویٰ کرتا ہے اس کے قول و فعل میں کس قدر تضاد ہے۔ اس صورت حال کے باوجود میزبان اپنے موقف پر ڈٹے رہے ، شیو سینا کے غنڈو نے کلکرنی کو’ پاکستان کا ایجنٹ ‘قرار دیا جس کے جواب میں کلکرنی کا کہنا تھا وہ ’پاکستان کا ایجنٹ نہیں وہ امن کا ایجنٹ ہے‘(I am agent of peace not Pakistan)، وہ اپنے مقصد پر ڈٹا رہا، اس کا ارادہ مختہ اور لگن سچی تھی۔وہ ایک علمی کام کرنے جارہا تھا۔ شیو سینا کے کارندے اس کا کچھ نہ بگاڑ سکے ، وہ اپنے مقصد میں کامیاب ہوا، خورشید قصوری کی کتاب کا تعارفی پروگرام طے شدہ شیڈول کے مطابق منعقد ہوا، فرق صرف یہ پڑا کے کلکرنی کا لے منہ کے ساتھ تقریب میں بیٹھا رہا ، اس نے اپنے خیالات کا اظہار بھر پار انداز سے کیا ،کلکرنی کا یہ کالا منہ بھارت کے انتہا پسند و متعصب ہندوؤں کے منہ پر تماچہ تھا۔

کلکرنی کا یہ عمل ثابت کرتا ہے کہ بھارت کے تمام ہندو شیوسینا کی سوچ اور خیال کے حامی نہیں وہاں کلکرنی جیسے اصول پسند، لبرل، انتہا پسندی ، تعصب کو برا کہنے اور سمجھنے والے موجود ہیں۔ بھارت میں ایسے لوگ ہیں جو پاک بھارت تعلقات کو قائم رکھنے کے حامی ہیں ۔ شیو سینا کو اپنے کالے کرتوتوں پر سنجیدگی سے سوچنا ہوگا کہ اس کے اس طرح کے اقدامات سے پاک بھارت تعلقات تو متاثر ہوں گے ہی ساتھ ہی دنیا کے سامنے بھارت کا امیج خراب ہی نہیں ہوگا بلکہ اسے دہشت گرد، غیر مہذب قوموں میں شامل کیا جائے گا۔ خود بھارت میں شیو سینا کے اس بے ہودہ فعل کو اچھی نظر سے نہیں دیکھا گیا، بہت سے لوگوں نے ، سوشل میڈیا پر، برقی میڈیا پر ، اخبارات میں لکھنے والوں نے اس عمل کی شدید الفاظ میں مذمت کی، بھارت کی سیاسی جماعت کانگریس نے اس عمل کی سخت الفاظ میں مذمت کی، بی جے پی کے رہنما ایل کے ایڈوانی نے بھی اس واقعے کی سخت الفاظ میں مذمت کرتے ہوئے اسے’ بھارت کے چہرے پر سیاہی مل دینے کے مترادف قرار دیا‘۔نریندر مودی کا اس پر کیا ردِ عمل رہا اس کی باز گشت سنائی نہیں دی۔ وہ تو از خود انتہا پسند ، پاکستان دشمنی کے نتیجے میں اقتدار تک پہنچا سکا ہے۔ وہ اس واقعے کی مذمت کس طرح کرسکتا ہے۔ حکومت نے شیو سینا کے کچھ لوگوں کو گرفتار کیا ہے لیکن ان کے حوالے سے حکومت کا رویہ نرم نظرآتا ہے جس سے لگتا ہے کہ حکومت اس معاملے کو سنجیدگی سے نہیں لے رہی۔

اس واقعہ پر خورشید قصوری کا کہنا تھا کہ شیو سینا لوگوں کو احتجاج کرنے کا حق حاصل ہے، سیاسی آزادی انہیں یہ حق دیتی ہے کہ وہ اگر اسے اچھا نہیں سمجھتے تھے تو اس کے خلاف احتجاج کرتے، آواز بلند کرتے لیکن جو کچھ انہوں نے کیا براکیا ۔ ایسا ہر گز نہیں ہونا چاہیے تھا۔قصوری صاحب نے کہا کہ کتاب لکھنے کا مقصد پاکستان اور بھارت کے درمیان پائی جانے والی کچھ بڑی غلط فہمیاں دور کرنا ہے، انہوں نے اپنی کتاب میں لکھا کہ جنگ کسی بھی مسئلہ کا حل نہیں، تمام مسائل مذاکرات کے ذریعہ ہی حل ہوسکتے ہیں۔پاکستان اور بھارت ایٹمی ہتھیاروں سے لیس ہوچکے ہیں ، ایل او سی پر جب بھی فائرنگ ہوتی ہے پاکستان اور بھارت دونوں ایک دوسرے پر الزام لگاتے ہیں۔ تقریب سے قبل قصور اور کلکرنی نے پریس کانفرنس سے بھی خطاب کیا ۔ قصوری صاحب کا کہا تھا کہ پاکستان اور بھارت 9مرتبہ جنگ کے دہانے پر آچکے ہیں ہم مسئلہ کشمیر کا حل چاہتے ہیں انہوں نے کہا کہ میں لڑنے کے لیے نہیں امن کا پیغام لے کر بھارت آیا ہوں، دونوں ممالک کے روابط ختم ہونے سے تباہی آجائے گی۔ دونوں ممالک کے عوام کو مثبت پیغام دے کر امن قائم کیا جاسکتا ہے۔ انہوں نے کلکرنی کے ساتھ پیش آنے والے واقعہ کو افسوس ناک قرار دیتے ہوئے کہا کہ اس طرح کے واقعات سے دلبرداشتہ نہیں ہوں احتجاج پرامن انداز میں ہونا چاہیے میں نے کئی بار پولس اور لاٹھی چارج کا سامنا کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان اور بھارت کے عوام ہر صورت میں امن کے خواہ ہیں۔

بھارت کی حکومت اور بھارت کے سنجیدہ طبقے کو اس قسم کے واقعات کا نوٹس لینا چاہیے، شیو سینا کے غنڈے ایسا کرکے پورے بھارت کو دنیا میں رسوا و بدنام کرنے کاباعث ہورہے ہیں ۔ بھارتی حکومت کو اس قسم کے سیاسی گروہوں پر پابندی جیسے اقدامات سے بھی ہر گز گریز نہیں کرنا چاہیے۔ اس طرح کے لوگ کسی بھی ملک کے لیے ناسور کی حیثیت رکھتے ہیں۔ اگر انہیں ایسے ہی چھوڑ دیا جائے تو یہ بڑھ کر کینسر کی صورت اختیا کر لیں گے۔ ایسے ناسوروں کا قَلع قَمع کردینا ہی ملک و قوم کے لیے بہتر ہوتا ہے۔ بھارت کا میڈیا قابل مبارک باد ہے کہ اس نے شیو سینا کے غنڈو کو اس واقعہ پر سخت تنقید کا نشانہ بنا یا۔بھارت کی انتہا پسندجماعت شیو سینا کوئی نئی تنظیم نہیں بلکہ اسے قائم ہوئے پچاس برس ہونے کو ہیں ۔لیکن پاکستان کے حوالے سے اس کی سوچ اور رویہ بہت منفی رہا ہے۔ اس جماعت سے اسی قسم کے واقعات کی توقعہ آئندہ بھی کی جاسکتی ہے۔ بھارت کی انتہا پسند تنظیموں راشٹریہ سیوک سنگھ، وشواہندو پریشد اور بجرنگ دل، ابھینا و بھارت ، شیوسینا جیسے تنظیموں کو لگام دینے کی ضرورت ہے ۔ مودی حکومت میں ان گروپوں نے قومی دھارے میں شامل ہوکر حکومت پر اثر انداز ہونے کی کوشش شروع کردی ہے۔ بابری مسجد کی شہادت پھر2002میں گجرات میں مسلمانوں کا سب سے خوفناک قتل عام کس کی سرپرستی میں ہوا کس کو نہیں معلوم؟ وہی تو آج بھارت کے مائی باپ بنے ہوئے ہیں ۔گائے اسمگل کرنے کے الزام میں انتہا پسند وں نے ایک مسلمان نوجوان ڈرائیور نعمان جس کا تعلق سہارنپور سے تھا کو بجرنگ دل کے دہشت گردوں نے مار مار کر شہید کردیا۔ اس کاجرم یہ تھا کہ وہ اپنے ٹرک میں ھائیں، بھیس ایک شہر سے دوسرے شہر لے جارہا تھا۔ یہ واقعہ ہما چل پردیش میں پیش آیا۔ ان شدت پسندوں کا کہنا تھا کہ مسلمانوں کو بھارت میں رہنا ہے تو انہیں گائے کا گوشت کھانا ترک کرنا ہوگا۔ یہ منطق بھی خوب ہے کہ بھارت دنیا بھر میں گائیں کا گوشت سپلا ئی کرنے والا سب سے بڑ ابرآمد کنندہ ہے اور اپنے ملک میں مسلمانوں پر پابندی۔ اس صورت میں کلکرنی کے منہ پر سیاہی ملنے جیسے واقعات کا ہوجانا کوئی حیرت کی بات نہیں۔
Prof. Dr Rais Ahmed Samdani
About the Author: Prof. Dr Rais Ahmed Samdani Read More Articles by Prof. Dr Rais Ahmed Samdani: 866 Articles with 1439606 views Ph D from Hamdard University on Hakim Muhammad Said . First PhD on Hakim Muhammad Said. topic of thesis was “Role of Hakim Mohammad Said Shaheed in t.. View More