کچھ علماء کرام نے لکھا ہے کہ
لفظ "علیہ السلام " انبیاء اور فرشتوں کے لئے ہی بولا جائے ۔ تاکہ ایک الگ
پہچان قائم رہے۔ لیکن ان علماء کرام نے بھی اس کو واجب یا فرض کا درجہ نہیں
دیا۔ یعنی انہوں نے بھی اس پر کوئی سختی نہیں کی۔ کہ اگر کوئی غیر نبی کے
لئے علیہ السلام بولے گا تو وہ گناہ گار ہوگا۔ ایسا کسی عالم نے نہیں کہا۔
کیونکہ اس کے بارے احادیث میں کو ئی حکم بھی موجود نہیں۔ صرف الگ شناخت کے
لئے ایسا کیا جاتا ہے۔ ویسے بھی علیہ السلام کے مطلب ہے۔ "ان پر سلامتی ہو"
یا "ان پر اللہ کا سلام ہو"۔ تقریبا یہ ہی معنی السلام علیکم کےبھی ہیں۔ جو
ہم آپس میں ملتے ہوئے ایک دوسرے کو بولتے ہیں۔
کئی جگہ پر بخاری شریف میں ہے ۔ امام بخاری اہل بیت اطہار کے نام کے ساتھ
علیہ السلام کا لفظ استعمال کرتے تھے۔ جیسے آپ یہ ایک حدیث کے الفاظ ملاحظہ
کریں۔
أتي عبيد الله بن زياد برأس الحسين بن علي عليه السلام ، فجعل في طست ،
فجعل ينكت ، وقال في حسنه شيئا ، فقال أنس : كان أشبههم برسول الله صلى
الله عليه وسلم ، وكان مخضوبا بالوسمة .
صحيح البخاري - الرقم: 3748
اس حدیث میں امام بخاری نے امام حسین بن علی کے لئے لفظ علیہ السلام
استعمال کیا ہے۔
اسی طرح امام ابو داود نے اس روایت میں امام علی علیہ السلام کے ساتھ لفظ
استعمال کیا
حَدَّثَنَا حَفْصُ بْنُ عُمَرَ حَدَّثَنَا شُعْبَةُ عَنْ أَبِى إِسْحَاقَ
عَنْ عَاصِمِ بْنِ ضَمْرَةَ عَنْ عَلِىٍّ عَلَيْهِ السَّلاَمُ أَنَّ
النَّبِىَّ -صلى الله عليه وسلم- كَانَ يُصَلِّى قَبْلَ الْعَصْرِ
رَكْعَتَيْنِ.
سنن أبي داود ج۲ ص ۳۸ المؤلف : أبو داود سليمان بن الأشعث السجستاني
اسی طرح عمدۃ القاری شرح صحیح البخاری جلد ہفتم (7) صفحہ 237 مطبوعہ
قسطنطنیہ میں ’’فاطمۃ علیہاالسلام ‘‘ہے.("ارشاد الباری شرح صحیح البخاری")
قاضی ثنا ء اللہ پانی پتی نے اپنی تفسیر مظہری جلد ہفتم صفحہ 412 پر لکھا
رواہ احمد عن الحسین بن علی علیھما السلام ۔۔ ۔ وروی الطبرابی بسند حسن عن
الحسین بن علی علیھما السلام -
اسی طرح امام شافعی علیہ رحمہ تو اہل بیت کے نام کے ساتھ لفظ علیہ السلام
ہی استعمال کرتے تھے۔
اسی طرح مسلم شریف میں بھی کئی جگہوں پر امام مسلم نے اہل بیت کے ساتھ لفظ
علیہ السلام استعمال کیا ہے۔
اکثر اسلامی کتب میں حضرت مریم علیہ السلام کے ساتھ لفظ سلام اللہ علیہا
اور علیہ السلام پڑھا ہے۔
احتیاط کے پیش نظر ایک یہ بھی فتویٰ ہے صاحبِ بہارشریعت کا
سُوال:غیر نبی کے ساتھ''علیہِ السّلام''لکھنا اور بولناکیساہے؟
جواب:مَنع ہے ۔ چُنانچِہ حضرتِ صدرُ الشَّریعہ، بدرُ الطَّریقہ علامہ
مولیٰنامفتی محمد امجد علی اعظمی علیہ رحمۃ اللہ القوی کی خدمت میں سُوال
ہوا:یاحُسین علیہ السلام کہنا جائز ہے یا نہیں اور ایسا لکھنا بھی کیسا ہے
اور پکارنا کیسا ہے؟الجواب:یہ سلام جو نام کے ساتھ ذِکر کیا جاتا ہے یہ
(یعنی یہ علیہ السلام کہنا لکھنا)سلامِ تَحِیَّت (یعنی ملاقات کا سلام)نہیں
جو باہم ملاقات کے وَقت کہا جاتا ہے یا کسی ذَرِیعہ سے کہلایا جاتا ہے بلکہ
اس (یعنی علیہ السلام )سے مقصود صاحِبِ اِسم(یعنی جس کانام ہے اُس)کی تعظیم
ہے ۔عُرفِ اَہلِ اسلام نے اس سلام(یعنی علیہ السلام لکھنے بولنے)کو انبِیاء
و ملائکہ کے ساتھ خاص کر دیا ہے۔ مَثَلاً حضرتِ ابراھیم علیہ السّلام حضرتِ
موسیٰ علیہ السّلام حضرتِ جبرئیل علیہ السّلام حضرتِ میکائیل علیہ السّلام
۔ لہٰذا (بہتر ہے کہ)غیرنبی و مَلَک (نبی اور فرشتے کے علاوہ)کے نام کے
ساتھ علیہ السّلام نہیں کہنا چاہئے ۔ وَاللہُ تَعالٰی اَعلَمُ۔ (اس لیئے کہ
اہل تشیعوں سے ادنا مشابہت بھی نا ہو)
تو مختصر یہ کہ غیر نبی کے لئے بھی لفظ علیہ السلام استعمال کرنے میں حرج
نہیں۔اس پر زیادہ سخت موقف اختیار نہیں کرنا چاہیئے۔ ۔ ایک بات ذہن میں رہے
کہ انبیاء اور اہل بیت کو ہمارے سلام کی حاجت نہیں ۔ ان پر تو پہلے ہی اللہ
نے سلامتی نازل کررکھی ہے۔ ہاں ہم اپنی بخشش کے لئے ہی ان ہستیوں پر سلام
بھیجتے ہیں۔جیسے ہم نبی اکرم ﷺ پر درود بھیجتے ہیں۔تاکہ ہم ان کی شفاعت اور
اللہ کی رضا کے حقدار ٹھہر سکیں۔ وگرنہ اللہ کو ہمارے درود سلام کی کیا
حاجت اللہ تو خود نبی اکرم ﷺ پر درود اور سلام بھیجتا ہے۔ |