آسام میں مسلم دہشت گردی کا جھوٹ : شمال مشرق خطرے میں ہے

گذشتہ ہفتے آسام میں مسلمانوں کے خلاف مرکزی اور ریاستی کی اعانت سے مختلف گروہوں کی جانب سے ہونے والی سازشوں پر قلم زنی کی جسارت کی تھی لیکن بات مکمل نہیں ہوئی تھی۔ حالیہ ایام میں مسلمانوں پر بنگلہ دیشی ہونے کے علاوہ ایک نیا اور بھی خطرناک الزام امزید عائد کیا جا رہا ہے اور وہ یہ ہے کہ انتقامی جذبات سے لبریز مسلمانوں نے اپنے دہشت گردانہ گروہ قائم کر لئے ہیں۔ پچھلے دنوں قومی میڈیا میں ایک خبر بہت تفصیل کے ساتھ شائع ہوئی تھی کہ کوکراجھار جسے بوڈو لینڈ بھی کہا جاتا ہے اس علاقے میں پولیس نے دہشت گردی کے ایک تربیتی کیمپ کا قلعہ قمعہ کیا ہیاور وہاں سے دس لوگوں کو تربیت لیتے ہوے گرفتار کیا ہے نیز نقلی اے کے ۴۷ بھی برآمد کیے ہیں۔ اس خبر کے ساتھ آسم کے ڈائریکٹر جنرل پولس کھاجن شرما کا یہ بیان بھی شائع ہوا تھا کی آسام کے مسلمانوں میں دہشت گردی کے رجحانات میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے اور اس کے تار عالمی دہشت گرد تنظیموں کے ساتھ جڑے ہیں اور یہ مسلم دہشت گرد شمال مشرق کی دیگر مسلح تنظیموں سے زیادہ خطرناک ہیں۔ زیر نظر مضمون میں اسی مبینہ مسلم دہشت گردی اور آسام و نزدیکی ریاستوں میں جاری مسلح تنظیموں کے تعلق سے کچھ حقائق حاضر خدمت ہیں کہ ملک بھر کے عوام کے علم میں ہے کہ انتہائی پسماندہ، معاشی طور پر بد حال تعلیمی طور پر پچھڑے مفلوک الحال مسلمانوں کے حقوق و اختیارات سلب کرنے کیلئے کس قسم کی سازشیں رچی جا رہی ہیں۔

ٓاسام کے حالیہ ڈائریکٹر جنرل پولس اگلے دو ماہ کے اندر ریٹائر ہونے والے ہیں ۔ ان کے بارے میں مشہور ہے و ہ ریٹائرمنٹ کے بعدبی جے پی میں شمولیت اختیار کر لیں گے اور اگلی سرکار اگر بی جے پی کی بنی تو اس کے وزیر بھی بنیں گے۔ گذشتہ چند ماہ میں ان کی جانب سے جو میڈیا بیانات سامنے آئے ہیں ان میں آسام کے مسلامانوں کو دہشت گردی سے جوڑنے کا بار بار ذکر کیا گیا ہے۔ اس سلسلے میں ایک مسلم ٹائیگر فورس کا نام بھی لیا جاتا رہا ہیکہ بوڈو لینڈ ایریا میں اس قسم کی کوئی دہشت گرس تنظیم موجود ہے جو بنگالی مسلمانوں کو بھرتی کر کے انہیں ہتھیار چلانے کی تربیت دے رہا ہے۔ جبکہ عینی شاہدین اور کچھ متاثرین کا کہنا ہے کہ ڈھبرے، گوالپارہ اور کوکرا جھار کے غریب مسلمانوں کو اچانک گرفتار کر کے ان کے ہاتھوں میں زبردستی پولس کے فراہم کردہ ہتھیار دے کر میڈیا کے سامنے پیش کیا جاتا ہے اور بتایا جاتا ہے کی یہ مسلم ٹائیگر فورس کے وہ دہشت گرد ہیں جو ہتھیار ڈال رہے ہیں ۔ در حقیقت وہاں ایسی کسی تنظیم کا کوئی وجود ہی نہیں ہے مگر آئے دن مقامی میڈیا میں اس طرح کے فرضی ہتھیار ڈالنے والوں کو دکھا دکھا کے اس فورس کا وجود ثابت کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔اسی طرح مذکرہ تربیتی کیمپ کے بارے میں بھی خبر یہی موصول ہوئی کہ وہ عادی مجرموں کا کوئی اڈہ تھا جس پر چھاپہ مار کے پولس نے کچھ مقامی غنڈوں کو گرفتار کییا تھا اور ان سے دیسی ہتھیار برآمد کئے تھے مگر خبر کو دہشت گردانہ سرگرمیوں سے جوڑ کر پیش کیا گیا ۔اور یہاں تک کہہ ڈالا گیا کہ ان کے تار عالمی جہادی دہشت گردی سے جڑے ہیں۔ جبکہ کوئی بھی با آسانی سمجھ سکتا ہے کہ یہ عالمی دہشت گرسی کا واقعہ ہوتا تو ہتھیار بھی نقلی نہ ہوتے بلکہ اصلی اور عالمی معیار کے ہی برآمد ہو تے۔یہ مفروضہ ریاست کے انہیں ڈی جی پی صاحب کا پیدا کردہ ہے جو اپنے ریٹائرمنٹ سے پہلے آسام میں مسلم دہشت گردی کا چربہ از خود تیار کر کے جانا چاہتے ہیں تاکہ مستقبل میں اگر کبھی ان کو ریاست کا وزیر داخلہ بننے کا موقع ملے تو با آسانی اس ہیولے میں جان ڈال کے بے قصور مسلمانوں کو بڑے پیمانے پر ان الزامات میں ماخوذ کر کے مسلمانوں پر عرصۂ حیات تنگ کر سکیں۔ریاست کے عام مسلمانوں اور ان کی لیڈرشپ نے ابھی تک اس مسئلے کو سنجیدگی سے نہیں لیا ہیوہاں کے معروف سیاسی اور سماجی کارکن بھی اس موضوع پر بات کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ یہ کوئی بڑا معاملہ نہیں ہے اور کھاجن شرما بس اپنی سیاست چمکانے کیلئے یہ سب کچھ کر رہے ہیں۔ حیرت کی بات ہے کہ وہ ابھی تک یہ نہیں سمجھ پا رہے ہیں کہ آج کا یہ فرضی واڑہ کل کیا گل کھلا سکتا ہے۔

مسلمانوں پر لگ رہے اس الزام کے پس منظر میں یہ دیکھنا ضروری ہے کہ آسام میں اور نزدیکی ریاستوں میں کون کون سی ہتھیار بند تحریکیں ہیں اور کب سے جاری ہین اوران میں مسلمانوں کی شمولیت کتنی ہے۔ تمام شمال مشرقی ریاستیں بقیہ ملک سے محخ ۲۲ کلومیٹر کے ایک چھوٹے سے روڈ سے جڑی ہیں۔ ویسے تو یہ ریاستیں آزادی کے بعد سے اب تک کبھی بھی پرسکون نہیں رہیں لیکن خصوصاْ ۱۹۸۰ ء کے بعد ان تمام ریاستوں میں درجنوں شدت پسند تنظیموں نے سر اٹھایا ہے اور پوری طرح ہتھیار بند ہو کر تحریک چلا رہے ہیں۔ ذیل میں ان میں سے چند تنظیموں کا جائزہ پیش کیا جا رہا ہے۔

شمال مشرق کی سات ریاستوں میں تا حال کم و بیش بیس مسلح گروپ سرگرم ہیں۔ ان میں سب سے زیادہ آسام میں کم از کم آٹھ گروپ موجود ہیں۔ ان میں سب سے معروف الفا یعنی یونائٹڈ لبریشن فرنٹ آف آسام جو سب سے سے زیادہ خونخوارگروپ ہے۔ یہ ۱۹۷۹ ء میں قائم ہوا اور آسام کو ایک مکمل خود مختار ریاست کے درجے کا مطالبہ کرتا رہا ہے۔ اس کے بعد این ڈی ایف بی یعنی نیشنل ڈیموکراٹک فرنٹ آف بوڈو لینڈ جو ۱۹۸۹ ء مین قائم ہا اور علیحدہ بوڈو ریاست کا مطالبہ کرتا ہے۔ اس گروپ کو ۲۰۰۳ ء اس کو ایک خودمختار کونسل بانا کے دی جا چکی ہے مگر ان کا مطالبہ بدستور قائم ہے آسام کے وزیر اعلٰی ترں گوگوئی خود اعتراف کرتے ہیں کہ اس گروپ کے پاس کم از کم ۵۰۰۰ اصلی اے کے ۴۷ رایفل موجود ہیں۔ مگر وہ ا ن سے ہتھیار رکھوانے سے عاجز ہیں۔ اس کے علاوہ کے ایل این ایل ایف یعنی کربی انالانگ قبیلے کی اپنی مسلح تنظیم ہے جو ۲۰۰۴ ء مین قائم ہوئی تھی اور کاربی قبیلے کی خودمختاری کے لیے مسلح جد و جہد کرتی ہے۔ اس تنظیم کو الفا کی حمایت بھی حاصل ہے۔علاوہ ازیں یو پی ڈی ایف ۱۹۹۹ ء سے سرگرم ہے اور کاربی قبیلے کی ہی باغی تنظیموں کا وفاق ہے۔ڈی ایچ ڈی دیما ہلام داؤگا دیما قبیلے کی خودمختاری کیلئے ہتھیاربند ہے مگر ۲۰۰۹ ء سے اس کی سرگرمیاں بیت کم ہیں۔ کے ایل او یعنی کامتاپور لبریشن آرگنائزیشن ایل لمبے عرصے سے آسام کو کاٹ ایک کامتا پور ریاست کے قیام کا مطالبہ کر رہا ہے جس میں اس علاقے کے اعلٰی ذات کوچ راجونشی قبیلے کی اکثریت والے مغربی بنگال کے چھ ضلع اور زیریں آسام کے چار ضلع شامل ہیں ان ضلعوں میں بوڈو لینڈ کے کچھ علاقے بھی شامل ہیں۔جس کی وجہ سے یہ قبائل آپس میں بھی لڑتے ہیں۔ ان تنظیموں کے علاوہ پڑوسی ریاستوں منی پور، میگھالیہ، ناگالینڈ، اور تریپورہ میں بھی ہر ریاست میں دو دو تین تین مسلح گروہ اپنے اپنے قبائیلی اور علاقائی مطالبات کو لے کر مسلح جدوجہد کر رہے ہیں۔ اور اس جدوجہد میں جب کبھی حملے ہوتے ہیں اس کا شکار مسلمان ہوتے رہتے ہیں جان بھی جاتی رہتی ہے اور مالی نقصان بھی ہوتا رہتا ہے۔ آسام میں ۳۴ فیصد مسلمان آباد ہیں ،منی پور میں آٹھ فیصد مسلمان ہیں اور تریپورہ میں دس فیصد مسلمان ہیں۔ اور یہ سب بھی سرکاری اور سرکاری تشدد کا شکار ہیں مگر آج تک کبھی مسلمانوں کی کوئی دہشت گرس تنظیم وجود میں نہیں آئی ۔ اور اس لئے پولس خود اب کوشش کر کے مسلمانوں کو اس دلدل میں دھکیلنے کی کوشش کر رہی ہے۔ یہاں سوال یہ بھی پیدا ہوتا ہے کہ دو درجن سے زیادہ ان قبائیلی دہشت گرد تنظیموں کے پاس اتنے مہنگے مہنگے ہتھیار کہاں سے آتے ہیں اور ان تنظیموں کو چلانے کا بے تحاشہ سرمایہ کون فراہم کرتا ہے، نیز یہ تنظیمیں ۱۹۷۸ کے بعد ہی کیوں وجود میں جبکہ یہ قبائیل اس علاقے کئی صدیوں سے آباد ہیں۔اس کا سیدھا جواب یہ ہے کہ ۱۹۶۰ ء کے بعد جب سے آر ایس ایس نے شمال مشرق میں کام کرنا شروع کیا ہے وہاں ہندو توا کی ترویج کا کام شر وع کیا ہے تب سے ہی یہ مقامی قبائل عدم تحفظ کا شکار ہو گئے ہیں اور اپنی شناخت اور بقا کیلئے ہتھیار بند ہو کر جدوجہد کر رہے ہیں ۔ یہ تنظیمین اور تحریکیں اس قدر منظم اور مستحکم ہیں کہ اب تک ہزاروں لوگوں کو قتل کر چکی ہیں اور ہزاروں کروڑ کی جائدادیں جلائی جا چکی ہیں ان کی تاریخ اور ان کے طریقء کار پر الگ الگ مستقل مضامین لکھے جا سکتے ہیں مگر سب کچھ جانتے ہوئے بھی میڈیا بھی خاموش ہے اور سرکار نے بھی آنکھیں بند کر رکھی ہیں اس جدو جہد کو مالی وسائل وہیں کے پڑوسی ممالک بہم پہونچا رہے ہیں۔ یہ سب ہتھیار برما کے راستے اس خطے میں پہونچتے ہیں اور اس کے سارے وسائل چین سے آ رہے ہیں واضح رہے کہ برما کی فوجی سرکار لمبے عرصے سع چین کی حلیف ہے اور خطے میں چین کو مفادات کے نگہباں کع طور پر کام کرتی ہے۔ نیز بھوٹان کے بھی بڑے خطے پرقبضے کیلئے چینی فوجی کار روائیاں جری رہتی ہی ہیں۔ بات اگر صرف قبائلیوں کی داخلی خودمختاری اور نئے ریاستی نقشے کے ترتیب دینے کی ہوتء تو بڑی حد تک اس پر قابو پایا جا سکتا تھا مگر معاملہ اب اس کے بہت آگے نکل چکا ہے۔ حال ہی مین مذکورہ تنظیموں نے ایک وسیع تر وفاق قائم کیا ہے جس میں الفا اور بوڈو دہشت گرد بھی شامل ہیں اس وفاق کا نام یونائٹڈ نیشنل لبریشن فرنٹ آف ڈبلیو ای ایس ای اے ہے ہے یعنی ویسٹ ساؤتھ ایسٹ ایشیا۔ اس وفاق کا مقصد پورے شمال مشرق خطے، بھوٹان و برما کے کچھ حصوں کو ملا کر ایک نئے قبائلی ملک کا قیام ہے جو بھارت سے آزاد اور خود مختار ہوگا۔ ان تفصیلات پر غور کریں تو اندازہ ہوتا ہے کہ ملک کو اصل خطرہ مسلمانوں سے نہیں بلکہ چین سے ہے جو قبائلی عصبیت کو ابھار کر وہاں مسلح جدو جہد کو ابھار رہا ہے اور اس خطے کو ملک سے توڑنے کی کوشش کر رہا ہے۔ مگر بد قسمتی یہ ہے کی ملک کا ایک طبقہ ملک کی سالمیت کو بھی مذہب کی عینک لگا کر دیکھتا ہے اسی لئے ہندو مذہب کی تروج کی خاطر قبائلی نظام کو توڑنے کی کوشش کی گئی اور الزام مسلمانوں کے سر منڈھا جا رہا ہے۔ سچ یہ ہے کہ ملک کا شمال مشرقی خطہ چین کی مدد سے ٹوٹنے کی دیلیز پر کھڑا ہے مگر حکومت اس خطرے کو نظر انداز کرکے مسلمانوں کے پیچھے پڑی ہے۔ ملک کے دانشور طبقات کی ذمے داری ہے کی بھارت کی سالمیت اور بقا کو مذیب کے اوپر ترجیح دینے کیلئے حکومت ہند کعو مجبور کریں۔

﴿مضمون نگار مسلم پولیٹیکل کونسل آف انڈیا کے صدراور اردو ہفت روزہ مشن نءی دلی کے مدیر اعلیٰ ہیں۔﴾

 
tasneem kausar
About the Author: tasneem kausar Read More Articles by tasneem kausar: 7 Articles with 5688 views associated with electronic and print media .. View More