چمڑی اور دمڑی بچاؤ اتحاد

احتساب انسان کی تخلیق کے ساتھ ہی شروع ہوگیا تھا۔انسان کوزندگی میں قدم قدم پرامتحان اوراحتساب کاسامناکرناپڑتا ہے۔روزمحشر کوایک طرح سے یوم احتساب بھی کہا جاسکتا ہے۔جوانسان اپنے معبود اور اسلام کے ضابطہ حیات سے انحراف کرے گاتواس کوسزاکے طورپر جہنم ملے گی جبکہ اس کی پاسداری کرنیوالے انعام کے طورپربہشت میں جائیں گے۔حضرت آدم ؑ کو سجدہ نہ کرنے کی پاداش میں فرشتوں کاسردار عزازیل ابلیس بن گیا ۔اﷲ تعالیٰ نے ابلیس کواس کے منصب سے سبکدوش کر کے اپنی بارگاہ سے نکال دیا ۔بعدازاں اﷲ تعالیٰ نے اپنے حکم کی عدم بجاآوری پرحضرت آدم ؑ اوراماں حوا ؑ کوجنت سے نکال کر زمین پرچھوڑدیاجوالگ الگ مسلسل کئی برسوں تک گریہ زاری اوراﷲ تعالیٰ سے مغفرت طلب کرتے رہے جبکہ وہ دوبارہ جبل رحمت پر ملے ۔بلاشبہ اﷲ تعالیٰ اپنے بندوں کوسترماؤں سے زیادہ محبت کرتا ہے مگرقہاربھی اس کی ذات کاایک پہلوہے ۔قانون کی گرفت اورسزاکاڈر حقیقت میں انسان کوگناہ اورغلطی کی تاریک راہوں پرجانے سے روکتا ہے۔دنیا میں جہاں جہاں افرادکی بجائے آئین وقانون کی حکمرانی ہے وہاں مجرمانہ سرگرمیاں نہ ہونے کے برابر ہیں اورپاکستان کی طرح جس ملک میں ''Might is Right ''کانظام اور طبقاتی قانون رائج ہے وہاں انسان حیوانوں سے بدترزندگی گزاررہے ہیں ۔

سزا کاڈرہوگاتولوگ خودبخودراہ راست پرآجائیں گے۔جہاں سیاسی دباؤ،رشوت،رشتہ داری یاکسی مصلحت کے نتیجہ میں فیصلے تبدیل ہوجائیں وہاں تبدیلی کبھی نہیں آتی۔انسان کوجرم کرنے سے روکناانصاف اور احتساب سے بھی زیادہ اہم ہے ۔اس قسم کاضابطہ اخلاق بنایاجائے جس کے تحت لوگ چاہیں بھی تومن مانی ،بدعنوانی اوربدانتظامی کاارتکاب نہ کریں۔پاکستان میں کوئی آفت یامصیبت آنے اورسانحہ رونماہونے کے بعد ایکشن لیا جاتا ہے۔جس طرح حال ہی میں لاہور پولیس میں ناجائزبھرتیاں منظرعام پرآنے کے بعد آئی جی پنجاب مشتاق احمدسکھیرانے سالہاسال سے تعینات کلرکس کوتبدیل کردیا ہے جبکہ ان کے اپنے آفس میں ان کی ڈی پی آر نبیلہ غضنفر پچھلے کئی برسوں سے تعینات ہے۔کئی آئی جی پنجاب آئے اورچلے گئے مگر نبیلہ غضنفر تبدیل نہیں ہوئی،یقینا اس سیٹ میں خاصی ''چمک''ہوگی جوخاتون چھوڑنے کیلئے تیار نہیں ۔ آئی جی آفس سے ملحقہ اس خاتون ڈی پی آر کے دفتر کی آرائش پرکئی لاکھ روپے صرف کئے گئے جوایک سوالیہ نشان ہیں جبکہ اس کی کارکردگی زیروہے۔ہراس انسان کااحتساب کیاجائے جواپنی سرکاری حیثیت کاناجائزفائدہ اٹھارہا ہے۔جولوگ کئی کئی برسوں سے ایک سیٹ پرچمٹ کربیٹھے ہیں انہیں فوری تبدیل کیاجائے ۔پولیس میں جعلی بھرتیاں کرنیوالے کلرکس کے تبادلے کافی نہیں بلکہ ان کیخلاف مقدمات درج کئے جائیں جبکہ آئندہ کیلئے کسی کو دوبرس سے زیادہ اورتیسری بار ایک سیٹ پرتعینات نہ کیا جائے ۔پاکستان میں تبادلے کرانااوررکوانامعمولی بات ہے ،ہرکسی کے بااثر شخصیات سے مراسم ہوتے ہیں اگرسفارش نہ ہوتوپھر رشوت دے کرہرجائزناجائزکام ہوجاتا ہے۔پاکستان میں جس کے پاس نوٹ اورووٹ ہیں وہ کچھ بھی کرسکتا ہے ۔بدانتظامی اوربدعنوانی روکنے کیلئے اداروں کوسیاسی مداخلت سے پاک کرناہوگا ۔جس طرح سی پی اوفیصل آبادافضال احمدکوثرسیاسی دباؤمیں نہیں آتے اوربااثرسیاستدانوں کی سفارش پرکوئی ناجائز کام نہیں کرتے اگرسب ان کی طرح میرٹ کی رٹ قائم کردیں تو اس ملک میں تبدیلی اوربہتری ضرورآئے گی ۔کسی بھی برائی کیخلاف مزاحمت کرنے میں دبلے یاطاقتوروجودکاکوئی کردارنہیں ہوتا کیونکہ اس کیلئے تو صرف ضمیرکازندہ ہوناضروری ہے۔اگرافضال احمدکوثر کی طرح دوسرے سرکاری آفیسرزبھی سیاسی دباؤکے مقابل ڈٹ جائیں توعوام کااداروں پراعتمادبحال جبکہ اہلکاروں کامورال بلندہوسکتاہے۔پاکستان میں حکمرانوں کی من مانی ،بدعنوانی اورریاستی اداروں کے ساتھ چھیڑخانی قومی بحرانوں کی روٹ کاز ہے،بدعنوانی کاسیلاب روکنے کیلئے قانون کا بندباندھناہوگا۔ایساکوئی مرض نہیں جس کی دوا نہ ہو صرف تلاش کرنے کی ضرورت ہے ۔ سیاسی حکمرانوں کے ادوار میں زیادہ کرپشن ہوئی ،اعدادوشمار سے چشم پوشی نہیں کی جاسکتی ۔اقرباء پروری بھی بدعنوانی کی بدترین صورت ہے۔سیاستدان عوام کوتوشریک اقتدار نہیں کرتے مگران کے عزیزواقارب اورحواری خوب مزے میں ہوتے ہیں۔

کرپشن کے سدباب کیلئے کسی راکٹ سائنس کی ضرورت نہیں ،بدعنوانی اوربدانتظامی سے نجات کیلئے قانون کی طاقت کابروقت اوردرست استعمال کرناہوگا ۔احتساب کاایک خودکار،خودمختاراوربااختیارنظام بنایا جائے ،بڑے مگرمچھ ہوں یاچھوٹی مچھلیاں سب کابے رحم احتساب ہوناچاہئے۔ایک چوردوسرے چورکااحتساب نہیں کرسکتا ،سیاستدانوں کااحتساب شروع ہونے پران کے درمیان'' دمڑی اورچمڑی بچاؤاتحاد''بن جاتا ہے۔صر ف کفن پوش اورسرفروش قسم کے لوگ قومی لٹیروں کابے رحم احتساب کرسکتے ہیں ،جوکسی دھونس دباؤ میں آئیں اورنہ کسی سرمایہ دار سے مرعوب ہوں۔احتساب کیلئے ہاتھوں میں ڈنڈایعنی محتسب کاآئینی طورپر طاقتور اور نڈر ہونا از بس ضروری ہے ۔ڈر کے بغیرزورآوری اور زرپرستی بندنہیں ہوگی۔مہذب اورمتمدن ملکوں میں افرادنہیں اداروں کوطاقتوربنایاجاتا ہے۔لوگ اپنے حق اورانصاف کیلئے حکمرانوں سے نہیں اداروں سے رجوع کرتے ہیں ۔اسلام کی روسے صدرمملکت اوروزیراعظم سمیت کوئی احتساب سے مستثنیٰ نہ ہواگرآئین میں کوئی رکاوٹ ہے تووہ دورکی جائے۔ جس طرح کوئی نارمل انسان کسی بیماریازخمی انسان کوبچانے کیلئے اپنے وجودسے بیک وقت تین بوتل خون نہیں دے سکتاٹھیک اس طرح پاکستان کی رگوں سے خطیرسرمایہ بیرون ملک منتقل کرنے سے ہمارامقروض ملک بھی ا پنی کمزورمعیشت کے سہارے پرکھڑا نہیں رہ سکتا۔حکمران اشرافیہ نے پاکستان سے لوٹ کرسرمایہ بیرون ملک منتقل کرلیا ،اس کی واپسی یقینی بنائی جائے اورجوایسانہ کرے اسے کسی بھی عوامی اورسرکاری منصب کیلئے تاحیات نااہل قراردے دیاجائے۔

لوٹ کھسوٹ میں ملوث عناصر کے بے رحم احتساب کیلئے قرآن وسنت اورحضرت عمرفاروق ؓ کے دورخلافت سے رہنمائی لی جائے۔حضرت عمرفاروق ؓ نے اپنے دورخلافت میں کئی اہم عہدیداروں کومعزول کرکے ان کا سخت احتساب کیاتھا ۔عدل وانصاف اورگڈگورننس کے علمبردارحضرت عمرفاروق ؓ نے اپنے عہدخلافت میں ہرشعبہ میں ضابطہ اخلاق بنایا ،ان کے دورمیں کوئی گورنریاکوئی دوسراانتظامی عہدیدارتجارت نہیں کرسکتا تھاجبکہ عہدحاضرمیں حکمرانوں اورسیاستدانوں نے اثاثوں کی دوڑمیں قارون کوپیچھے چھوڑدیا ہے۔اگر امیرالمومین حضرت عمرفاروق ؓ سے بھرے دربارمیں ایک عام شہری سوال کرسکتا ہے توپھر عہدحاضر کے حکمران کس کھیت کی مولی ہیں۔

جس طرح امریکہ میں کوئی تیسری بار صدرمنتخب نہیں ہوسکتااس طرح پاکستان میں بھی صدر سے وزیراعظم ،چیئرمین سینیٹ ، سپیکر اور گورنر سے وزیراعلیٰ تک ان میں کسی منصب کیلئے کوئی تیسر ی بار منتخب یانامزد نہ کیا جائے جبکہ ایک خاندان کے دوافرادبیک وقت اعلیٰ آئینی عہدوں پربراجمان نہ ہوں۔میڈیا کیلئے ضابطہ اخلاق بنانیوالے سیاستدانوں کیلئے بھی کوڈآف کنڈکٹ کون بنائے گا۔دوبارمنتخب ہونیوالے ارکان اسمبلی کو بھی تیسری بار اجازت نہ دی جائے ۔حکومت کی آئینی مدت پانچ کی بجائے تین سال کرنے سے بدعنوانی کاسیلاب کافی حدتک رک جائے گا ۔جس طرح کرکٹ کی دنیا میں ٹوئنٹی ٹوئنٹی مقابلوں کوبھرپورپذیرائی ملی ہے اس طرح تین برس آئینی مدت طے کرنے سے سیاسی استحکام آئے گا اورحکمرانوں کوبھی اس بات کاا حساس رہے گا کہ انہیں تین سال بعدپھرعوام کاسامنا کرناہے ۔پانچ برس کے مینڈیٹ میں حکمران بے حس اور بے پرواہ ہوجاتے ہیں۔ پارلیمانی نظام عوام کااعتمادبحال کرنے میں ناکام رہا لہٰذاء ملک میں تجرباتی طورپر صدارتی نظام حکومت بھی آزمایاجاسکتا ہے ۔اگرصدارتی نظام پسندنہیں تووزیراعظم پر''چیک ''رکھنے کیلئے آٹھویں ترمیم کی بحالی ناگزیر ہے۔فرعون بھی اپنے دوربادشاہت میں اس قدراختیارات نہیں رکھتاتھا جس قدرآج حکمرانوں کے پاس ہیں ۔کمزورصدر جمہوریت کی مضبوطی کیلئے کوئی کردارادانہیں کرسکتا۔منصب صدارت کیلئے اس شخص کومنتخب کیا جائے جس میں وزیراعظم کوانکاراوراس سے بازپرس کرنے کی جرأت ہو۔ممنون حسین انکارتودرکنار وزیراعظم کومشورہ تک نہیں دے سکتے ۔حکمرانوں اوروفاقی وصوبائی وزارتوں کاصوابدیدی فنڈختم کیاجائے جبکہ ترقیاتی فنڈز منتخب نمائندوں کی بجائے شہری اداروں کی مددسے صرف کئے جائیں کیونکہ جس وقت ان کااحتساب ہونے لگتا ہے تو اس وقت یہ سیاسی انتقام کاشورمچانے لگتے ہیں۔ اگرسیاستدانوں کے نزدیک سیاست کادوسرانام خدمت ہے توپھریہ مراعات کیوں انجوائے کرتے ہیں۔جوعوامی نمائندے اپنی انتخابی مہم پرکروڑوں روپے صرف کرتے ہیں ان کامنتخب ہونے کے بعدتنخواہ اوردوسری مراعات کے بغیر بھی گزاراہوسکتا ہے۔

اصولی سیاست سے'' وصولی'' یعنی کرپشن اورکمشن کاراستہ روکناہوگا۔صرف نقدرشوت بدعنوانی نہیں بلکہ تحفہ کلچر،سفارش ،اقرباء پروری ،کام چوری ،اختیارات سمیت قومی وسائل کاناجائز استعمال بھی کرپشن ہے۔تحائف کی مدمیں بیش قیمتی گھڑیاں ،گاڑیاں،جدیدموبائل فون سیٹ اورزیوارت جبکہ پارٹی فنڈ کے نام پروصول کی جانیوالی موٹی رقوم کاکوئی ریکارڈ اورآڈٹ نہیں ہوتا۔یہاں تک کہ پارٹی ٹکٹ فروخت ہوتے ہیں اوریہ پیسہ ہنڈی سے بیرون ملک منتقل ہوجاتا ہے ۔جج ،جرنیل ،سیاستدان ،سرمایہ کار ،صنعتکار ،سرکاری آفیسر،اہلکاراورمنتخب نمائندے ہرسال اپنے اثاثے ڈکلیئر کریں جبکہ معلومات چھپانے یاگمراہ کرنیوالے کوسخت سزادی جائے ۔بنک میں اکاؤنٹ کھلوانے کاطریقہ کارمزیدپیچیدہ اور سخت کرنے کی ضرورت ہے ۔نیب فوری طورپرنندی پور پاورپراجیکٹ ،میٹرو بس ،باب پاکستان سمیت چاروں صوبوں میں بیک وقت تعمیراتی منصوبوں کی تحقیقات شروع کرے۔باب پاکستان کیلئے مختص فنڈزکہاں گئے ،و ہاں عمارت کی آڑمیں کھنڈرکس نے تعمیرکیا ۔ ریاست جعلی ڈگریوں میں نااہل ہونیوالے سیاستدانوں سے نہ صرف تنخواہوں کی رقوم بلکہ ا نہیں دی جانیوالی ہرقسم کی مراعا ت پراٹھنے والے اخراجات بھی واپس لے اورانہیں جعلسازی اورووٹرزسمیت اداروں کوگمراہ کرنے پرسخت سزائیں دے ۔ جس طرح کسی ایس ایچ اواورپٹواری کیخلاف رشوت کی شکایت آنے پر انہیں فوری طورپرمعطل کرکے انکوائری کی جاتی ہے ٹھیک اس طرح وفاقی وصوبائی وزیرو ں کے مالی سکینڈل ایکسپوزہونے کی صورت میں انہیں بھی معطل کرکے ان کیخلاف شفاف تحقیقات کی جائیں ۔ ہمارے معاشرے کی طبقاتی تقسیم طبقاتی قوانین کاشاخسانہ ہے۔ کوئی گنہگاراورخطاء کار طاقتورہویاکمزور اسے کسی امتیاز کے بغیر سزادی جائے۔
Muhammad Nasir Iqbal Khan
About the Author: Muhammad Nasir Iqbal Khan Read More Articles by Muhammad Nasir Iqbal Khan: 173 Articles with 139821 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.