ڈاکٹر قدیر خان ادوار آمریت اور جمہوریت میں

تئیس مارچ ٢٠١٠ کو روزنامہ جنگ کے پہلے صفحے پر ایک خبر شائع ہوئی جس میں پاکستان کے زبردست عظیم سائنسدان ڈاکٹر قدیر کے حوالے سے ایک خبر شائع ہوئی جس پر امید تھی کہ اہل قلم کچھ سیر حاصل تحریر پیش کریں گے مگر چونکہ کوئی ایسی تحریر سامنے نا آسکی اسلیے یہ عاجز اپنی کم مائیگی اور کم علمی کے اعتراف کے ساتھ ایک تحریر پیش کرنے پر مجبور ہے۔

اخباری خبر کے مطابق
وفاقی حکومت نے ایٹمی سائنسدان ڈاکٹر عبدالقدیر خان سے تفتیش کیلئے درخوست لاہور ہائی کورٹ میں دائر کردی ہے۔ ایک نجی ٹی وی کے مطابق لاہور ہائی کورٹ میں وفاقی حکومت کی جانب سے دائر درخواست میں مؤقف اختیار کیا گیا ہے کہ ایٹمی سائنسدان ڈاکٹر عبدالقدیر خان نے ١٥ مارچ کو امریکی اخبار واشنگٹن پوسٹ کو ایک انٹرویو دیا جس میں پاکستان کے اہم راز افشاں کئے اور غیر ڈمہ داری کا ثبوت دیا۔ لہٰذا عدالت سے استدعا ہے کہ ڈاکٹر عبدالقدیر خان سے پوچھ کچھ کی اجازت دی جائے۔ اس سے قبل بھی عدالت میں ڈاکٹر عبدالقدیر پر انٹرویوز اور ملاقاتوں پر پابندی سے متعلق ایک درخواست زیر سماعت ہے اور اس کا فیصلہ سنایا جانا تھا تاہم اب وفاقی حکومت کی جانب سے ایک اور درخواست دائر کر دی گئی عدالت نے درخواست سماعت کیلئے منظور کر لی۔

مندرجہ بالا خبر پڑھ کر اندازہ ہونا چاہیے کہ پرویز مشرف کے دور حکومت میں بھی ڈاکٹر عبدالقدیر خان نظر بند تھے جس کے خلاف انسانی حقوق کی تنظیموں اور مختلف سیاسی جماعتوں خصوصاً جماعت اسلامی، تحریک انصاف، ن لیگ اور دوسری تنظیموں کی طرف سے اس امر کی مذمت کی تحریکیں جاری تھیں مگر آج عین جمہوریت کی چھپا چھپ میں بھی ڈاکٹر عبدالقدیر تقریباً حراست میں ہی ہیں یعنی ان پر وہی پابندیاں عائد ہیں جو مشرف کے دور میں تھیں اور ڈاکٹر صاحب کے خلاف زیادتی تھیں پھر کیا وجہ ہے کہ مشرف دور میں تو ڈاکٹر صاحب کی نظر بندی اور پابندیوں کی مذمت اور مثبت قسم کی تحریکیں اور عین شباب جمہوریت میں انہی پابندیوں کے خلاف کوئی سیاسی جماعت جو پہلے اس کو برا سمجھتی تھی آج اس کو برا کیوں نہیں سمجھ رہی۔

جو تنظیمیں پہلے مشرف دور میں اس معاملے میں غیر جانبدار رہیں ان سے تو یہ امید بعید ہے کہ پہلے کی طرح اب بھی ڈاکٹر عبدالقدیر صاحب کی تقریباً زیر حراست پوزیشن پر کچھ کہیں مگر امید ہے مشرف دور میں ڈاکٹر صاحب سے ہونے والے اس سلوک پر احتجاج کرنے والے جمہوریت میں بھی کچھ حرکت پیدا کریں گے۔
M. Furqan Hanif
About the Author: M. Furqan Hanif Read More Articles by M. Furqan Hanif: 448 Articles with 532593 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.