’ہر اِک لمحہ نیا اِک امتحاں ہے ‘
(Nazish Huma Qasmi, Mumbai)
دادری سانحے کی گونج ابھی تھمی نہیں تھی کہ نعمان کو افواہ کی بھینٹ چڑھا دیا گیا…وہیں اودھم پور کشمیر کا زاہد تقریباً دس دنوں تک اسپتال میں رہنے کے باوجود زندگی کی جنگ ہار گیا، انجینئر رشید کو جہاں سے قانون بنا کر عوام کی فلاح کے لئے بھیجا گیا تھا قانون کے پاسبانوں نے قانون کو بالائے طاق رکھ کر معزز ممبر اسمبلی کو ظلم و تشدد کا نشانہ بنایا …اسی پر بس نہیں کیا بلکہ دہلی میں ان کے چہرے پر سیاہی انڈیل کر مسلمان ہونے کی سزا دی …یہ تو نہیں پتا کہ انجینئر رشید کا چہرہ کتنا سیاہ ہوا لیکن فرقہ پرستوں کے سیاہ چہرے پوری دنیا میں نظر آگئے ۔ ان سب فرقہ وارانہ تشدد کی یاد تازہ ہی تھی کہ دہلی سے چند کلومیٹر کی دوری پر ہریانہ میں ایک دلت کنبہ کو رات کی تاریکی میں زندہ جلا دیا گیا اور پولیس خاموش تماشائی بنی رہی بلکہ ان شرپسندوں کی شرپرستی بھی فرماتی رہی۔ ملک عزیز میں ہر آن ہر لمحہ مسلم اور دلت کے ایک صبر آزما امتحاں ثابت ہورہا ہے ۔ہر دن ہورہے دنگا فساد، ظلم و زیادتی کا نشانہ صرف مسلمان اور دلت بن رہے ہیں۔ |
|
دادری سانحے کی گونج ابھی تھمی
نہیں تھی کہ نعمان کو افواہ کی بھینٹ چڑھا دیا گیا…وہیں اودھم پور کشمیر کا
زاہد تقریباً دس دنوں تک اسپتال میں رہنے کے باوجود زندگی کی جنگ ہار گیا،
انجینئر رشید کو جہاں سے قانون بنا کر عوام کی فلاح کے لئے بھیجا گیا تھا
قانون کے پاسبانوں نے قانون کو بالائے طاق رکھ کر معزز ممبر اسمبلی کو ظلم
و تشدد کا نشانہ بنایا …اسی پر بس نہیں کیا بلکہ دہلی میں ان کے چہرے پر
سیاہی انڈیل کر مسلمان ہونے کی سزا دی …یہ تو نہیں پتا کہ انجینئر رشید کا
چہرہ کتنا سیاہ ہوا لیکن فرقہ پرستوں کے سیاہ چہرے پوری دنیا میں نظر آگئے
۔ ان سب فرقہ وارانہ تشدد کی یاد تازہ ہی تھی کہ دہلی سے چند کلومیٹر کی
دوری پر ہریانہ میں ایک دلت کنبہ کو رات کی تاریکی میں زندہ جلا دیا گیا
اور پولیس خاموش تماشائی بنی رہی بلکہ ان شرپسندوں کی شرپرستی بھی فرماتی
رہی۔ ملک عزیز میں ہر آن ہر لمحہ مسلم اور دلت کے ایک صبر آزما امتحاں
ثابت ہورہا ہے ۔ہر دن ہورہے دنگا فساد، ظلم و زیادتی کا نشانہ صرف مسلمان
اور دلت بن رہے ہیں۔ ہریانہ کا واقعہ کوئی پہلا واقعہ نہیں ہے جہاں مذہب کے
ٹھیکیداروں نے کسی کی جان لی ہو بلکہ یہ عام وبا اب پورے ہندوستان میں زور
پکڑ چکی ہے، فسادی کھلے عام انسانی جانوں سے کھیل رہے ہیں اور حکومت خواب
خرگوش کے مزے لوٹ رہی ہے یا پھر یہ کہا جائے کہ ارباب حکومت کے ہی اشاروں
پر یہ سارے کارنامے انجام دئیے جارہے ہیں تو کوئی مضائقہ نہیں ہوگا اگر
ایسا نہیں تو کیا مجال کہ ہندوستان جیسے جمہوری ملک میں جہاں کے قوانین
تمام لوگوں کیلئے یکساں ہوںبلوائیوں پر قانونی گرفت نہیں ہورہی ہے۔ ایک
مہاپرش کو خاموشی کی تلقین کی جاتی ہے تو دوسرا جھٹ سے اپنا منھ کھول دیتا
ہے اور جب کوئی منھ کھولتا ہے تو اس قدر بدبو آتی ہے کہ سارے ذی ہوش اور
عقلمند اپنی اپنی ناک سکوڑنے پر مجبور ہوجاتے ہیں ہیں لیکن کچھ اس گندگی کے
عادی افراد پورے ملک کو اس بدبو سے بھر دینا چاہتے ہیں۔ ہمارے موجودہ وزیر
اعظم نے کہا کہ سب کا ساتھ سب کا وکاس ہوگا۔ اور پورے ملک کو گجرات جیسا
ماڈل بنا دیاجائے گا۔ ایک سال کے اندر اندر ہی سب کا ساتھ اور سب کا وکاس
نظر آرہا ہے دلت مسلم کو فساد میں ساتھ ساتھ کردیا گیا اور پورے ملک کو
گجرات ماڈل بنانے میں دادری، ہماچل پردیش، کشمیر ، ہریانہ کو فساد کی بھینٹ
چڑھادیاگیا۔ اتنا ہی نہیں گرو جی (موہن بھاگوت) نے دلت ریزرویشن کی ہی
مخالفت کردی۔ اب تک تو بیچارے مسلمان ریزرویشن کے لئے لائن میں کھڑے ہوئے
تھے یہاں تو اب کنفرم ٹکٹ کو ہی کینسل کیا جارہا ہے، مسلمانوں کو چھوڑ دیا
جائے تو تقریباً 16 فیصد دلت ملک عزیز میں بستے ہیں اب اگر ان 16 فیصد کا
بھی ریزرویشن ختم کردیا جائے تو تو جملہ حقوق بحق برہمن محفوظ ہوجائیں گے
اور یہی تو اصل ایجنڈا ہے کہ کس طرح برہمنیت کو پورے ہندوستان میں ماضی کی
طرح دوبارہ سرخروئی حاصل ہوجائے اور چھوت چھات کے ذریعہ پھر سے دلت اور
دوسرے پسماندہ طبقات کو غلامی کی زنجیر وںمیں جکڑ دیا جائے۔ موجودہ حالات
میں ہندوستان کی گرتی ہوئی ساکھ سے سب سے زیادہ نقصان غریب عوام کا ہورہا
ہے، سر چڑھتی مہنگائی غریبوں کیلئے وبال جان بن چکی ہے، روز مرہ کے استعمال
کی اشیاء عوام کی دسترس سے باہر ہوچکے ہیں، ایسے میں وکاس کا نعرہ کسی
نوٹنکی کے ڈھونگ سے زیادہ معنی نہیں رکھتا … حکومت کی پالیسیاں ایک خاص
طبقہ کے حق میں نظر آرہی ہے، ملک میں عجیب و غریب صورتحال پیدا کرکے دہشت
کا ماحول پیدا کیا جارہا ہے، غریبوں کے ذریعہ معاش کو بڑے بڑے تجارتی مراکز
اور ساہوکار کی بھینٹ چڑھایا جارہا ہے، یہ لوگ اپنے مفاد کی خاطر ہر کام
کرنے کو بخوشی راضی ہیں، انگریز کے قائم کردہ عوام میں پھوٹ ڈالو اور حکومت
کرو کے فارمولے پر گامزن ہیں۔ دہلی میں اپنی شکست سے پریشان یہ طبقہ جب
بہار میں وکاس کی نیّا کھینے گیا تو انہیں مانجھی بھی دہلی سے ہی لانا پڑا
کیونکہ ان کے پاس بہار میں کوئی ایسا ناخدا موجود ہی نہیں تھا جو بہار میں
ان کی سیاسی نیا کو پار لگا سکے۔ افسوس کہ دہلی کے کھیون ہار بھی بہار کے
سیلاب میں پھنس گئے ہیں اب نکلنے کیلئے کچھ تو کرنا تھا سو ایسے میں گئو
ماتا یاد آگئی اور بہار کے بھنور سے بچنے کیلئے پورے ملک میں ماتاجی کی
خوشحالی کیلئے ماتا کے بھکتوں نے ایک تحریک شروع کردی ۔ اب اس تحریک کا اصل
مقصد تو اس کے محرکین ہی بتا سکتے ہیں کہ وہ ماتاجی کے تئیں کتنے مخلص ہیں۔
مہاراشٹر، کشمیر سمیت پورے ہندوستان میں بیف پر پابندی لگ چکی ہے خلاف ورزی
کی صورت میں سخت سزائیں تجویز بھی مقرر ہے بلکہ یہ اعلان ہورہا ہے کہ ہمارے
قانون کی خلاف ورزی کرنا جرم ہے اور جرم کی پاداش میں ہمارا فیصلہ موت ہے۔
عقیدت کا تقاضا ہے کہ آپ جس سے عقیدت رکھتے ہیں اس کے تئیں مخلص بھی ہوں،
لیکن کیا کیا جائے ’جب سیاں بھئیل کوتوال تو ڈر کاہے کا‘۔ گئو کشی تو عوام
کیلئے بند کردی گئی لیکن خواص کے لیے لاسنس جاری کردئیے گئے ہیں ۔ بیف پر
پابندی سے مسلمانوں کا ایک نقصان یہ ہے کہ وہ بطور غذا اس کا استعمال کرتے
ہیں لیکن دلت اور دوسرے پسماندہ طبقات جو اس کی تجارت سے وابستہ ہے ان کا
کیا ہوگا…؟جن کا ذریعہ معاش ہی جانوروں کی سپلائی تھی وہ تو بے روزگار
ہوگئے اور حکومت نے ان کی ز,بوں حالی کے لیے کوئی متبادل امر بھی مرحمت
نہیں فرمایا جس سے یہ غریب اپنے گھر کا چولھا جلا سکیں۔ ہندوستان کی سیاست
دنیا کی سب سے انوکھی سیاست ہے یہاں کس پارٹی کا ایجنڈا کیا ہوگا یہ اس
کارکنان سے بھی پوشیدہ ہوتا ہے بالفاظ دیگر انہیں معلوم ہی نہیں ہوتا کہ اس
مرتبہ کس بھٹی میں روٹی تیار کرنی ہے، انہیں اپنے کام کا معقول معاوضہ مل
جاتا ہے جو ان کا اصل مقصود ہے، اب بہار کے موجودہ الیکشن میں ہر دن ایک
نیا ایجنڈا شامل کیا جارہا ہے، ابتداء میں نعرے کی نوعیت کچھ اور تھی اور
اب کچھ اور ہوچکی ہے، ہر دن کوئی لیڈر ایک متنازعہ بیان دیکر میڈیا کی
آنکھوں کا تارا بن رہا ہے، وہ لوگ جن کے علمی جغرافیہ کا اگر اندازہ لگایا
جائے تو اس سے زیادہ اور کچھ نہیں نکلے گا کہ انگریزی زبان کے چند جملے
کندھے اچکا کر بول سکیں …پورے بہار ہی کو جاہل کہہ رہے ہیں، کچھ بیمار بتلا
گئے تو کچھ جنگل راج کا راگ الاپ رہے ہیں، کچھ تو بہار ہی چھوڑنے کا مشورہ
دے رہے ہیں، اور جو بڑے بڑے گرو جی کے نام سے جانے جاتے ہیں وہ ہندوستان کی
سرحد سے باہر جانے کا مفید مشورہ دے رہے ہیں۔ قابل غور بات یہ ہے کہ یہ
مٹھی بھر لوگ اپنے ناپاک عزائم کو تکمیل تک پہونچا نے کیلئے کمر بستہ ہوچکے
ہیں۔ اگر آج ہم متحد ہوکر ان کے خلاف صف آراء نہیں ہوئے تو وہ دن دور نہیں
جب مسلمانوں اور دلتوں کیلئے ہندوستان میں کوئی جائے پناہ نہیں ہوگی۔ ان کے
مکر و فریب کو سمجھنا ہوگا…ان کے کالے کارنامے انجام سے بے خبر عوام تک
پہونچانے ہوں گے۔ آنے والی آفت سے بچاؤ کی تدبیر ضروری ہے، لیکن آئی ہوئی
آفت سے بچاؤ کی تدبیر نہیں اس کا مضبوط طریقے سے سد باب ضروری ہے اور یہ
اسی صورت میں ممکن ہے کہ ملک میں دلت مسلم اتحاد ہو جائے… اگر یہ متحد ہوکر
صف آراء ہوگئے تو برہمنوں کے عزائم کو خاک میں ملانے میں دیر نہیں لگے
ورنہ بصورت دیگر ہم خود بھی اپنے آپ کو اس ملک کی تاریخ میں تلاش نہیں کر
سکیں گے۔ |
|