سب کے لیے سبق
(Haq Nawaz Jilani, Islamabad)
2008کے جنرل الیکشن میں بننے
والی پیپلز پارٹی کی حکومت نے پانچ سال کی بدتر ین حکومت کی تھی ۔ کرپشن کو
قانونی حیثیت حاصل ہوچکی تھی ۔ لوٹ مارا کاسلسلہ ایسا جاری تھا جیسا کہ
انہوں نے حکومت کرنی بلکہ ڈاکہ ڈالنے آئیں ہے۔ اداروں کو تباہ کیا گیا جو
آج تک جاری ہے ۔عدالتوں میں چوہدری افتخار نے ان کے خلاف کئی کیسز میں
سوموٹو ایکشن لیا ۔ میڈیا کو جس طرح نون لیگ کی حکومت ہینڈل کر رہی ہے اس
طرح ہینڈل نہیں کیاگیا جس کے نتیجے میں میڈیا کا زیادہ حصہ ان کی کرپشن کو
بے نقاب کرتا رہا لیکن اس کے باوجود 99فی صد ضمنی الیکشن میں پیپلز پارٹی
امیدوار کامیاب ہوتے رہیں۔ وجہ صاف ظاہر ہے کہ جب سب کچھ یعنی انتظامیہ اور
وسائل آپ کے کنٹرول میں ہو تو الیکشن جیتنا پاکستان میں مشکل کام نہیں۔
لاہور کے حلقے 122میں گزشتہ روز کے ضمنی انتخابات نے حکومت کے لیے وہ ماحول
پیدا کیا جو جنرل الیکشن میں ہوا کر تا ہے۔جس کا کریڈٹ عمران خان کو جاتا
ہے کہ وہ جہاں جاتے ہیں ماحول کو گرما دیتے ہیں۔لاہور کا یہ حلقہ ان چار
حلقوں میں سے ایک تھا جس میں دھاندلی ہوئی تھی ۔ 2013کے جنرل الیکشن میں
عمران خان کو آیاز صادق نے ساڑھے اٹھ ہزار ووٹوں سے ہرایا تھا قطعی نظر اس
سے کہ عمران خان رات دس ،گیارہ بجے تک ایاز صادق سے تقریباًپندرہ ،بیس ہزار
ووٹوں سے آگے تھے۔ بعدازاں الیکشن رزٹ روکے گئے اور صبح نتیجہ تبدیل ہوا
اور ایاز صادق کامیاب ہوئے جس پر عمران خان نے دھاندلی کا الزام لگایا ۔ ہم
آتے ہیں حالیہ ضمنی انتخابات کی طرف جس میں قومی اسمبلی کا سیٹ آیاز صادق
جیت گئے جبکہ صوبائی اسمبلی کے سیٹ پر وزیراعظم میاں نواز شریف کی اہلیہ کا
بھانجا پی ٹی آئی امیدوار سے ہار گیا۔ پہلے تو یہ لگ رہا تھا کہ اس حلقے
میں دونوں سیٹ آرام سے حکمران جماعت جیت جائے گی ۔ پنجاب میں بھی ان کی
حکومت ہے اور وفاق میں بھی، تو لہٰذا ان سیٹوں کو جیتنا مشکل نہیں ہوگا ۔
حکمران جماعت کے وزیر اور مشیر کہہ کرتے تھے کہ ہم چالیس ، پچاس ہزار ووٹوں
سے پی ٹی آئی کو شکست دینگے۔ حکمران جماعت نے ایک آور کام یہ بھی کیا کہ
الیکشن کمیشن سے عمران خان پر پابندی لگا دی کہ وہ حلقے میں الیکشن مہم
نہیں چلا سکتا جس پر عمران خان کورٹ گئے اور عدالت نے ان کو اجازت دی ۔
اس کے بعد عمران خان نے اعلان کیا کہ میں حلقے میں بھر پور مہم چلا ؤں گا۔
جب انہوں نے لاہور میں پہلا جلسہ کیا تو ماحول گرما ہوا اور حکومت کو ہوش
آیا کہ ہم سے تحریک انصاف یہ سیٹ جیت بھی سکتی ہے۔ پھر حکومت کے وفاقی اور
صوبائی حکومت کے وزرا نے لاہور کے حلقے میں ڈھیر ڈالے ۔ جلسے جلسوں کے
علاوہ روایاتی طریقے اختیار کیے گئے ووٹر لسٹوں میں تبدیلی کی ۔ وزرا نے
بہت سے خاندانوں کو نوکریاں دینے اور کام کے وعدے کیے ۔ بیت لمال اور بے
نظیر انکم سپورٹ پر وگرام کے منہ کھلے گئے۔ وزیر ریلوے نے بھی خوب کام کیا
اسی طرح وزیر بجلی شیر علی نے بھی تمام تر اختیارات استعمال کیے جس میں
اطلاعات کے مطابق کسی کو راضی کیا گیا تو کسی کو دھمکیاں دی۔ وزیر اعلیٰ
اور اور وزیر اعظم حلقے میں پر یس کانفرنسوں اور عوام سے ملاقاتوں پر مجبور
ہوئے نئے منصوبوں کے ا علانات ہوئے۔حکومت نے تمام مشینری استعمال کی ۔
تحریک انصاف کے امیدوار حلیم خان ایک امیر آدمی ہے لیکن حکومت سے زیادہ
امیر نہیں ۔ وہ نہ کسی کو ریلوے میں بھرتی کر سکتا ہے اور نہ ہی کسی کی
بجلی کاٹ سکتا ہے ۔ لاہور کے صحافی کہتے ہیں کہ اگرحلیم خان نے اس الیکشن
میں پچاس کروڑ لگا ئے تو حکومت نے ایک سو پچاس کروڑ لگائیں ۔ جہازسے پمفلٹ
بھی پھینگے گئے۔ اطلاعات تو یہ بھی ہے کہ لاہور کے دوسرے حلقوں سے لوگوں کو
لایا گیا تھا۔ ہر حربہ حکومت نے استعمال کیا لیکن اس کے باوجودحلقے میں
صوبائی سیٹ ہار گئے جو شریف فیملی کا سیٹ تھا اور قومی اسمبلی کے سیٹ پر
2450ووٹوں سے جیت گئے۔یہ سیٹ بھی تحر یک انصاف جیت جاتی اگر ان کے کارکن
اور پارٹی روایتی سیاست کو جانتی جن پارٹی ممبران کو حلیم خان پر اعتراض
تھا ان کے تحفظات دور کرتے ۔ حلیم خان کوبدنام کرنے کی حکومتی مہم کو بھی
پارٹی نے اس طرح ناکام نہیں بنایا جس طرح بنانا چاہیے تھا۔ میرے خیال میں
حلیم خان سے بہتر آپشن اس حلقے میں دوسرے نہیں ہو سکتی تھی۔ حکومت کی نظر
میں تو وہ آج اسلئے مجرم بناکہ انہوں نے حکومت کے اہم حلقے اور اسپیکر کو
چیلنج کیا تھا۔ اگر وہ مجرم تھا توآج تک حکومت نے ان کے خلاف کارروائی کیوں
نہیں کی۔ بحرکیف الیکشن ہوگیا باوجود تمام وسائل کے حکومت سے صوبائی سیٹ پی
ٹی آئی نے جیت لی ۔مجموعی طور پر بھی پی ٹی آئی نے زیادہ ووٹ لیے جس کا
مطلب یہ ہوا کہ عوام حکومت کی پالیسیوں سے تنگ ہیں ۔ پہلے بھی اس حلقے میں
دھاندلی ہوئی تھی کہ اس دفعہ باوجود تمام باتوں کے پی ٹی آئی کارکن کو
25سوووٹوں سے شکست ہوئی ۔ لاہوریوں نے حکومت کے خلاف فیصلہ دے دیا۔میٹرو بس
اور میٹرو ٹرین سے پیٹ نہیں بھرتا ۔پنجاب کی دس کروڑ آبادی ہے اور باقی ملک
کی بھی دس کروڑ آبادی ہے۔ ڈیڑ ھ سو ارب روپے لگا کر دو شہروں میں چند لاکھ
لوگوں کو سہولت دینے سے ملک کی تقدیر نہیں بدلتی ۔ با وجود تمام وسائل کے
حکمران جماعت کو اوکاڑہ شہر میں شکست ہوئی اور پی ٹی آئی نے غلط امیدوار کو
ٹکٹ دے کر چوتھی پوزیشن حاصل کی ۔ اتنی کم ووٹ لیے کہ ان کی زمانت ہی منسوخ
ہوگئی ۔ کیا نون لیگ کی کارکردگی پیپلز پارٹی سے بھی بری ہے کہ ان کو عوام
نے مسترد کیا ۔
بظا ہر تو حکمران جماعت نے ایک سیٹ حاصل کر لی اور پی ٹی آئی نے بھی لیکن
حقیقت میں یہ دونوں جماعتوں کی شکست ہے ۔ دونوں جماعتوں کو اس معرکے سے سبق
حاصل کرنا چاہیے۔ پی ٹی آئی نے اگر ملک میں تبدیلی لانی ہے تو روایتی سیاست
کی طرف جانے سے گریز کرنا ہوگا ۔ پارٹی کو منظم کر نے کی اشدضرورت ہے ۔
چوہدری سرور ایک اچھی امید ہے ان کو نیچ کرنے کی بجائے پی ٹی آئی کے
نظریاتی لوگوں کوان کا ساتھ دینا چاہیے تاکہ آنے والے الیکشن میں پارٹی
منظم ہو اور کامیابی حاصل کریں۔ |
|