دو ٹوک مؤقف اور ترجیحات کا تعین

٣٠ستمبرکوہونے والے جنرل اسمبلی کے اجلاس کیلئے وزیر اعظم نوازشریف ٢٢ستمبرکوہی امریکاکیلئے روانہ ہوگئے تھے جس پران پر خاصی تنقیدبھی ہوئی تھی کہ پاکستان میں ٢٥ستمبر کو عید الاضٰحٰی تھی جبکہ چندروزقبل بڈھ بیرپشاورکاسانحہ پیش آیاتھا۔وزیراعظم اگرعید اپنے وطن پرجان نچھاور کرنے والے جوانوں اوربالخصوص بدھ بیرپشاورسانحے کے شہداء کے لواحقین کے ساتھ مناتے توقوم کے دلوں میں ان کے احترام میں اضافہ ہوتالیکن انہوں نے اس کے برعکس بظاہرغیر ضروری قیام اوراسراف کوضروری خیال کرتے ہوئے برطانیہ میں اپنے اہل خانہ اور الطاف حسین کے دست راست بدنام زمانہ سرفرازمرچنٹ کے ساتھ عیدمناکرشکوک و شبہات میں اضافہ کیاجبکہ اسی مناسبت سے پاک فوج کے سربراہ جنرل راحیل نے حسبِ معمول یہ عیدبھی فوجی جوانوں کے ساتھ منائی جس سے عوام کی دلوں میں ان کی مقبولیت میں بے پناہ اضافہ ہوا ہے۔

وزیراعظم نوازشریف نے اقوام متحدہ کے اجلاس میں پاک بھارت امن مذاکرات کیلئے چارنکات کاجوفارمولہ پیش کیا تھااس کااگلے دن ہی سشما سوراج نے بڑے بھونڈے اندازمیں جواب دیتے ہوئے بھارت کی غیرسنجیدگی اورعدم دلچسپی کا کھلے عام اظہارتوکردیالیکن اقوام عالم نے بڑی سنجیدگی کے ساتھ پاکستان کے مؤقف کوسراہا تو ضرورلیکن ابھی تک اس معاملے پرقطعاًکوئی پیش رفت نظر نہیں آئی۔انہوں نے امریکامیں مختلف ممالک کوپاکستان میں سرمایہ کاری کی دعوت دی ،یہ تواچھاہواکہ کسی نے پلٹ کروزیراعظم سے یہ نہیں پوچھاکہ آپ ،آپ کے سمدھی اورآپ کے خاندان کے دیگرافرادتوبیرونی ممالک میں سرمایہ کاری کررہے ہیں ،ہمیں کس منہ سے اپنے ملک میں سرمایہ کاری کیلئے کہہ رہے ہیں۔انہوں نے سینیگال کے صدرکوجے ایف تھنڈر طیارے فروخت کرنے کی آفربھی کی مگربظاہراس کا کوئی قابل لحاظ جواب سامنے نہیں آیا۔

جنرل اسمبلی میں وزیراعظم کے خطاب میں اس ضمن میں ایک کمی ضرور محسوس کی گئی کہ مشیرخارجہ نے دورے سے قبل گفتگوکرتے ہوئے بتایاتھا کہ پاکستان ، بھارت کی دراندازی کے خلاف ٹھوس شواہدکے ساتھ مکمل ثبوت جنرل اسمبلی میں پیش کرے گا لیکن وزیراعظم نے اپنے خطاب میں ان کا قطعاًذکرنہیں کیالیکن بعدازاں جب ان سے اس ضمن میں استفسارکیاگیاتوانہوں نے کہاکہ اگر ملاقات ہوتی تویہ ثبوت دیئے جاتے،اب یہ دستاویزات اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل کوبھجوادی جائیں گی،اس سے ظاہرہوتاہے کہ وزیراعظم کونریندرمودی سے ملاقات کی توقع تھی جوپوری نہیں ہوئی اوراگربھارت کی جانب سے پاکستان میں دراندازی کے ثبوت اس طرح اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل کودیناتھے تو اجلاس کے آغازسے پہلے دیئے جاتے کیونکہ یہ اہم موقع تھاجس میں دنیابھرکے سربراہان ِمملکت موجودتھے تاکہ ان کی کاپی ان تما م تک بھی پہنچ جاتی تاکہ بھارتی دہشتگردی کی پشت پناہی کاعلم تمام عالمی برادری کوبراہ راست ہوتاکہ بھارت کس طرح اس خطے میں دوغلی پالیسی پرکاربندہے۔

اب میاں نوازشریف ایک مرتبہ پھر١٧/اکتوبرکواپنے ایک بھاری بھرکم وفدکے ساتھ امریکاکے دورے پر روانہ ہو رہے ہیں اورشنیدہے کہ وزیراعظم کے اس دورہ پربھی قومی خزانے کے مزید٥٠کروڑروپے صرف ہوں گے۔٢٢/ اکتوبر کوصدرباراک اوباماسے تین اہم نکات پرمذاکرات ہوں گے جس میں میاں صاحب امریکی صدرکو''را'' کی پاکستان میں دہشتگردی کوفروغ دینے سے متعلق کاروائیوں کے اہم شواہددیں گے۔علاوہ ازیں پاکستان کونیوکلیرسپلائرز گروپ کا ممبربنانے کامطالبہ بھی کریں گے۔کولیشن فنڈزکے بقایاجات اورتوانائی گروپ کوفعال کرنے کے مطالبے کے علاوہ پاک امریکااسٹرٹیجک ڈائیلاگ کے فیصلوں پرعملدرآمدکیلئے بھی زوردیں گے لیکن صد افسوس کہ وزیراعظم کو یہاں کسی نے یہ یادلانے کی ضرورت ہی محسوس نہیں کی امریکی جیل کی سلاخوں کے پیچھے پاکستان کی ایک بیٹی عافیہ صدیقی ناکردہ جرم کی سزامیں ٨٦سال کیلئے بندہے جبکہ امریکی صدرکلنٹن ملائشیا میں منشیات میں سزائے موت کی حقدار ایک امریکی کوریائی نژادلڑکی کورہا کرواکے اپنے ساتھ واپس امریکالائے تھے۔

اب وزیراعظم امریکاکے ایک ہفتے پرمحیط دورے پرجانے والے ہیں، اس موقع پروزیراعظم کوپاکستان کامقدمہ پوری جرأت سے لڑناہوگااورصدراوبامااور دیگر امریکی حکام کے سامنے پاکستان اور مجبورومقہورکشمیری عوام کے جذبات و احساسات کی بہترین مدلل اندازمیں ترجمانی کرناہو گی کہ کس طرح بھارت نے بزرگ اورعلیل کشمیری رہنماء علی گیلانی کوسات سال سے گھرمیں نظر بند کر رکھا ہے اورپاکستان کی بیٹی سیدہ آسیہ اندرابی کے ساتھ ہونے والے مظالم کا تذکرہ بھی کرناہوگاچونکہ وزیراعظم کوگزشتہ تین عشروں سے امریکی حکام سے معاملات کاخاصاتجربہ بھی حاصل ہے اوروہ اس سے پہلے بھی متعددبار پاکستانی عام کے نمائندے کی حیثیت سے واشنگٹن جاچکے ہیں اوراب تو امریکی سفارتی وعسکری حلقوں میں ان کی کافی شناسائی بھی ہے اس لیے پاکستانی عوام پاکستانی خزانے پراس قدر مہنگے اوربھاری بھرکم بوجھ برداشت کرنے کے بعد ان سے یہ توقع لگانے میں حق بجانب ہے کہ پاکستان کے دیرینہ اور جائز مطالبات منوانے میں وزیراعظم کوپوری تندہی کے ساتھ کامیابی حاصل کرنا ہو گی کیونکہ امریکی صدراوبامااور پاکستانی وزیراعظم نواز شریف دونوں کے اقتدارکا آخری آئینی دورہے ۔

اپنی جگہ اگرچہ یہ بات درست ہے کہ کسی بھی چھوٹے اورترقی پذیرملک کیلئے امریکاجیسے ملک سے بات منوانااتناآسان نہیں ہے۔پاکستان اورامریکا کے درمیان معاشی،اقتصادی اورعسکری لحاظ سے کوئی نسبت ہی نہیں۔ جدید سفارتی انداز میں بات برابری کی سطح اوردوطرفہ تعلقات کی بنیاد پرکی جاتی ہے لیکن بڑے اورچھوٹے ممالک کے درمیان معاملات ''طاقت'' کے اصول کے تحت ہی طے کئے جاتے ہیں اوربالخصوص امریکاکاچھوٹے اورترقی پذیر ممالک کے ساتھ رویہ ہمیشہ آقاؤں والاہوتاہے ۔امریکانے توپاکستان کوکبھی بھی برابری سطح کے تزویراتی حلیف کادرجہ نہیں دیا۔وہ ہمیشہ چندڈالروں کی امداد یاقرضے کی پیشکش کرکے اس کے بدلے میں پاکستا ن سے خطے میں اپنے مفادات کی رکھوالی کے کام لینے کی کوشش کرتاہے۔ماضی میں جب بھی پاکستانی حکم رانوں نے امریکاسے ایڈکی بجائے ٹریڈکی بات کی اوران دونوں ممالک کے تعلقات کودوطرفہ قراردینے کی کوشش کی تو امریکا نے کبھی بھی دلچسپی کااظہارنہیں کیا،اس کے برعکس امریکی حکام کی ہمیشہ یہ کوشش رہی ہے کہ وہ کسی نہ کسی انداز میں نہ صرف پاکستان کودباؤ میں رکھیں بلکہ امدادکے حوالے سے بھی دست نگربنائیں رکھیں۔

نائن الیون کے بعدافغانستان میں جارحیت کیلئے امریکانے پاکستان کاکندھا استعمال کیااورپاکستان نے اس بے مقصد اورناکام جنگ میں ہراول دستہ کا کرداراداکرتے ہوئے پچاس ہزار سے زائدانسانی جانوں اورایک کھرب ڈالرسے زائدمعاشی خسارے کی صورت میں سب سے زیادہ قربانی دی لیکن اس کے باوجودپاکستان،امریکا کے تزویراتی حلیف کادرجہ حاصل نہیں کرسکابلکہ اس کے برعکس امریکانے پاکستان کے ازلی دشمن بھارت کو جس نے دہشتگردی کی امریکی جنگ میں ایک تنکابھی توڑکرنہیں دیا،صرف اپناحلیف ہی نہیں سمجھا بلکہ اسے پورے جنوبی ایشیا خطے کاچوہدری بنا دیا اوراب بھارت بھی پاکستان کوآنکھیں دکھارہاہے۔

سمجھوتہ ایکسپریس بم دہماکوں کے مجرموں کوسزانہ دینا،گجرات میں مسلمانوں کے قتل عام اورتین نسلوں سے کشمیریوں کی قربانیوں کے دکھ کی کہانی ایک تسلسل ہے۔پاکستان کی دہشتگردی کے خلاف جنگ میں کمٹمنٹ، قربانیوں اور دہشتگردی کے خلاف کاروائیوں میں مسلسل کامیابیوں کوتسلیم نہ کرنا،بھارت کی روایتی بے حسی اوردہشتگردی کے المناک کردارکی حمائت کے مترادف ہے۔ کشمیرکے معاملے کوپس پشت ڈال کر پاک بھارت مذاکرات کبھی نہیں ہو سکتے کیونکہ دونوں ممالک کے درمیان مسئلہ کشمیرہی کلیدی نکتہ ہے۔بھارت کے ساتھ جب بھی مذاکرات ہوں گے،کشمیر ایشو سرفہرست ہو گا۔تنازع کشمیرحل کئے بغیرخطے میں دیرپاامن ممکن ہی نہیں۔ وزیراعظم نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے اپنے خطاب میں پہلی مرتبہ فلسطین کے ساتھ بالخصوص مسئلہ کشمیرپر واضح اوردوٹوک اندازکوتمام قومی حلقے اور عالمی مبصرین نے سراہا ہے جبکہ بھارت اپناجوابی مؤقف پیش کرنے میں ناکام رہاہے ۔

یہ صورتحال اس بات کاتقاضہ کرتی ہے کہ اب پاکستان کوامریکاکے ساتھ اپنے تعلقات کے باب میں سودوزیاں کاکچھ حساب کرناچاہئے اور امریکا پریہ واضح کردیناچاہئے کہ پاکستان امریکاکیلئے محض کرائے کاسپاہی کاکرداراداکرنے کو ہرگزتیارنہیں ہے اوراگرامریکاکوپاکستان کے مفادات عزیزنہیں ہیں تو پاکستان کوبھی امریکی مفادات کی فکرنہیں ہے۔ پاکستان نے امریکاکے ساتھ دوستی کے نام پرہمیشہ دھوکہ ہی کھایاہے اورنقصان ہی ہوا ہے،اس لئے اب وقت آگیاہے کہ امریکاسے دوٹوک لہجے میں بات کی جائے اورپاک امریکا تعلقات کے حوالے سے ازسر نوترجیحات کاتعین کیا جائے ۔
Sami Ullah Malik
About the Author: Sami Ullah Malik Read More Articles by Sami Ullah Malik: 531 Articles with 390215 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.