دیسی رواج

دیسی بندے اور پردیسی پکوان

مبشر بسام سے دوستی گڑی تو اپنی چادر سے باھر کی دوستی بھی مولنی پڑی، ایک دن ’’انٖ‘‘ کا پیزا کھانے کا پروگرام بن گیا، لیجیے مبشر ان کے اور ھم مبشرکے ھم راہ پیزا ھٹ میں ایک مبینہ میز کے گرد گھیرا تنگ کی متعدد کرسیوں میں ایک پر مبشر کے رو بہ رو بیٹھ گیا،باقی ماندہ تمام کرسیاں ان کی تحویل چلی گئیں۔

تھوڑی ھی دیر میں پیزا ھمارے سامنے تھا اپنے الات حرب کے ساتھ اور ھم اس کے مدمقابل تھے حالات کرب کے ساتھ۔

خدا کی پناہ۔۔۔۔ یہ خوراک کیسے کھائی جائی گی؟ بخدا اس کرہ ارض پر ھمارا پہلی بار مشاھدہونا تھا‘ یا تماشا ہونا تھا۔ ’’ان کی‘‘ گفتگو میں ھم بھی شریک ہوئے اور ایک رائی کو پہاڑ بنانے میں جُتے رہے، بظاھر تو ھم علمی موشگافیوں سے گتھم گھتا تھے مگر درحقیقت ان کے جنگی طور طریقوں کا بنظر عمیق مشاھدہ کرنے میں لگے تھے،

ھم نے دیکھا کہ جوں ہی طبل جنگ بجا انہوں نے اپنے دائیں ھاتھ میں خنجر نما چھری اور بائیں ھاتھ میں پھالہ نما ’’کانٹا‘‘ پکڑا، ھوا میں لہرایا، سونت کر فریق مخالف پر جھپٹے اور پلٹ کر ایسا کانٹا کھونپا کہ ارتعاش سے قبل ھی چھری چلادی اور اس کا ایک حصہ تن سے جدا کرکے موت کے منہ میں دھکیل دیا جہاں سے وہ پیٹ کی جہنم کو ھمیشہ ھمیشہ کے لیے واصل ہوا۔

یہ طریقہ واردات دیکھ کر ھماری سٹی گم، اور تمام مشاھدہ دھرا کا دھرا رہ گیا۔ ھم زمانے کا تماشہ بن جاتے اگر مبشر بھائی پیزا ھاتھ سے کھانے کا ’’دیسی رواج‘‘ وہاں متعارف نہ کرواتے۔

habib salih
About the Author: habib salih Read More Articles by habib salih: 2 Articles with 3354 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.