ادب کا نو بل انعام 2015بیلا روس کی مصنفہ سویتلانا الیکسیاوچ کے نام
(Dr Rais Ahmed Samdani, Karachi)
نوبل پرائز دنیا کا سب سے اہم ، بڑا اور معروف اعزاز ہے۔ یہ ہر سال چھ شعبہ جات میں دیا جاتا ہے۔ ان میں سے ایک ادب کا شعبہ بھی ہے۔ 2015ء کا نوبل انعام بیلا روس کی مصنفہ کے نام ہوا۔ یہ مضمون اسی حوالے سے تحریر کیا گیا ہے ۔ اس میں نوبل انعام کب، کس نے اور کس طرح شروع کیا س کی تفصیل بھی تحقیق کے بعد تحریر کی گئی ہے۔ادب میں جن خواتین کو اب تک نوبل بپرائز دیا جاچکا ہے ان کی تفصیل بھی درج ہے ۔پاکستان کے ڈاکٹر عبد السلام کو 1979میں فزکس کے شعبہ میں نوبل انعام سے نوازا گیا، 2014میں بچوں کے حقوق
اور تعلیم کے فروغ کے حوالے سے پاکستان کی ملالہ یوسفزئی کو نوبل انعام سے نوازا۔ملالہ دنیا کی سب کم عمر نوبل انعام یافتہ ہیں۔
|
|
|
نوبل پرائز ٢٠١٥ یافتہ بیلا روس کی مصنفہ سویتلانا الیکسیاوچ |
|
نوبل پرائز دنیا کا سب سے معروف
انعام ہے جو عالمی سطح پر ہر سال چھ شعبہ جات میں بلا تفریق رنگ ، نسل،
قوم، زبان دیا جاتا ہے۔ اس کی تاریخ کچھ اس طرح سے ہے کہ ایک سوئیزرلینڈ سے
تعلق رکھنے والے کیمسٹ اور انجینئر ڈاکٹر الفرڈ برنارڈ نوبل (1833-1890) جس
نے بارود dynamite ایجاد کیا تھا نے اپنی زندگی کے اختتام پر 9ملین ڈالر کی
رقم چھوڑی ساتھ ہی ڈاکٹر نوبل نے وصیت (will)کی کہ اس رقم سے ہر سال’’نوبل
پرائزز ‘‘ (Nobel Prizes) دیے جائیں ۔اس نے اپنی وصیت میں یہ بھی لکھا کہ
یہ نوبل انعام ہر سال بلا تفریق قومیت کے دیا جائے ساتھ ہی اس نے چھ شعبہ
جات کا تعین بھی کیا،ان میں شعبہ جات میں ’امن، ادب، فزکس، کیمسٹری،
فزیالوجی یا میڈیسن اور معاشیات شامل ہیں۔ ڈاکٹر نوبل کی وصیت کے مطابق
نوبل انعام بلاتفریقِ قوم 1900ء سے دیا جارہا ہے۔ پاکستان کی دو شخصیات کو
دنیا کا یہ عالمی ایوارڈ ’نوبل پرائز‘ حاصل کرنے کا اعزاز حاصل ہے۔ پاکستان
کے ڈاکٹر عبد السلام کو 1979میں رائل سوئیڈش اکیڈم آف سائنسز نے فزکس میں
اعلیٰ کارکردگی پر نوبل انعام سے نوازا، 2014میں نارویجین نوبل کمیٹی نے
بچوں کے حقوق اور تعلیم کے فروغ کے حوالے سے پاکستان کی ملالہ یوسفزئی کو
نوبل انعام سے نوازا۔ملالہ دنیا کی سب کم عمر نوبل انعام یافتہ ہیں۔ نوبل
انعام ہر شعبے میں الگ الگ دیا جاتا ہے۔
اس سال (2015)کاادب کا نوبل انعام بیلا روس کی مصنفہ سویتلانا
الیکسیاوچ(Svetlana Alexievich) کے نام رہا۔67 سالہ الیسیاوچ1948میں یوکرین
میں پیدا ہوئیں، ان کے والد کا تعلق بیلا روس سے تھا، نوبیل کمیٹی کا کہنا
ہے کہ سویتلانا الیکسیاوچ کو یہ انعالم ان کی کثیر آوازوں والی
تحریروںPolyphonic Writings پر دیا گیا ہے۔ جن میں عصر حاضر کا کرب اور
جرات کو موضوع بنا گیا ہے۔ ان کا پہلا ناول ’’جنگ کا غیر نسوانی چہرہ‘‘
War's Unwomanly Faceجو پہلی مرتبہ 1985ء میں شائع ہوا تھا جس میں دوسری
جنگ عظیم کی خواتین پر پڑنے والے اثرات کا مطالعہ کیا گیا ہے ۔اس کتاب میں
سو سے زیادہ ان خواتین کے انٹر ویوز کیے گئے ہیں جنہوں نے نازی جرمنیوں کے
خلاف جنگ میں حصہ لیا تھا۔ اس ناول کی دو ملین سے زیادہ کا پیاں فروخت ہویں
، یہ ناول دنیا کے 19 ممالک میں شائع ہوا۔ ایک اور کتاب میں انہوں نے اس
بات کا جائزہ لیا کہ جنگ کی تباہ کاریوں کے بچوں پر کیا اثرات مرتب ہوتے
ہیں۔ الیکسیاوچ نے 21دستاویزی فلموں کی کہانیاں بھی لکھیں۔ بیلاروس کی یہ
خانوں مصنفہ بیلا روس میں مشکلات کاشکار رہی جس کے باعث اس نے2000کے بعد
پہلے سوئیزرلینڈ میں بعدمیں جرمنی کے شہر گوٹینبرگ اور برلن میں رہائش
اختیار کرلی۔
سوئیزر لینڈ کے چینل SVT سے گفتگو میں نو بل انعام حاصل کرنے والی سویتلانا
الیکسیاوچ کا کہنا تھا کہ نوبل انعام جیتنے کے بعد ان کے جذبات ’پیچیدہ‘
complicatedسے ہیں، مجھے بہت خوشی ہے ، تاہم یہ دوسری طرف ایک لحاظ سے
پریشان کن بھی ہے۔ انہوں نے کہا کہ جب انہیں نوبیل انعام جیتنے کی خبر دی
گئی تو وہ گھر یوں کاموں میں مصروف تھیں اوراپنے کپڑے استری کررہی تھیں۔ جب
ان سے پوچھا گیا کہ وہ جیتی جانے والے9 لاکھ60 ہزار ڈالر رقم کا کیا کریں
گی تو انہوں نے کہا’’میں صرف ایک کام کروں گی ، اور وہ یہ کہ اپنے لیے
آزادی خریدوں گی۔ مجھے کتابیں لکھتے ہوئے بہت وقت لگتا ہے ، پانچ سے لے کر
دس سال۔ انہوں نے کہا میرے پاس نئی کتابوں کے دو نئے آئیڈیاز ہیں اور اب
مجھے ان پر کام کرنے کی آزادی مل جائے گی‘۔سوئیزر لینڈ اکیڈمی کی سیکریٹری
سارا دانیسSara Daniusکا کہنا ہے کہ اس سال کا انعام حاصل کرنے والی
سویتلانا الیکسیاوچ نے 40سال سابق روس کے عوام کے بارے میں مطالعہ کیا، یہ
ناول محض تاریخی ہی نہیں ہے بلکہ اس خطہ کے لوگوں کے بارے میں تفصیلی
معلومات بھی فراہم کرتا ہے۔ سا رانے سویتلانا الیکسیاوچ کے اس ناول کو ایک
بہترین کتاب قرار دیا اور مطالعہ کرنے والوں کو مشورہ دیا کہ وہ سویتلانا
الیکسیاوچ کے اس ناول ’جنگ کا غیر نسوانی چہرہ‘ کا مطالعہ ضرور کریں۔
نوبل انعام کا اجراء 1900ء میں شروع ہوا تھا اس وقت سے ہر سال دیگر متعین
شعبہ جات میں نوبل انعام بھی دیا جارہا ہے۔ سوئیزرلینڈ اکیڈمی کی جانب سے
انعام دینے والے لیے کچھ اصول و ضوابط طے شدہ ہیں ۔ جو ادیب ان شرائط پر
پورا اتر تھا اسے یہ انعام دیا جاتا ہے۔ 115سالوں سے نوبل انعام کا سلسلہ
جاری ہے۔اس دوران ادب کے دشعبہ میں108ادیبوں کو نوبل انعام سے نوازا گیا۔
ان میں سے اب تک14 خواتین ادب کا نوبل انعام حاصل کرنے میں کامیاب ہوسکیں۔
سویتلانا الیکسیاوچ13ویں خاتون ادیبہ ہیں جنہوں نے یہ انعام حاصل کیا ہے۔
ان سے قبل 12خواتین ادب کا نوبل انعام حاصل کرچکی ہیں۔ ان میں گرازیہ
ڈیلیڈا((1926، سگریڈ انڈسیٹ1928، پرل بک(1938)، گیبریال میسٹرال(1945)،
نیلی سچز(1966)، ناڈینی غورڈیمر(1991)، ٹونی موریسن (1993)، وسلاوا
سیمبوروسکا(1996)، ایلفرڈی جیلی نیک(2004)، ڈورس لیسنگ(2007)، ہرٹا
مولر(2009) ، ایلیسی مونرو (2013) اور سویتلانا الیکسیاوچ (2015)شامل
ہیں۔اس طرح ادب کی دنیا میں 14خواتین لکھاری ایسی ہیں کہ جنہوں نے نوبل
انعام حاصل کرکے تاریخ میں اپنا نام سنہرے حروف میں لکھو لیا ہے۔جنگل بک کے
مصنف رڈیارڈ کپلنگ کم عمر مصنف تھے جنہیں نوبل انعام ملا۔ان کی عمر اس وقت
42برس تھی۔ 2007ء میں نوبل انعام حاصل کرنے والی مصنفہ ڈورس لیسنگ عمر
رسیدہ مصنفہ تھیں نہیں نوبل انعام ملا تھا ۔
اس کی عمر اس وقت 88سال تھی۔پاکستان میں گزشتہ دنوں ایک تحریک شروع ہوئی
تھی کہ امن کے نوبل انعام کے لیے عبد الستار ایدھی کو نام شامل کیا جائے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ ایدھی اس بات کے مستحق ہیں کہ انہیں نوبل انعام سے
نوازا جائے۔ منتطمینِ نوبل انعام تک یہ آواز پہنچی یا نہیں ، کچھ کہنا مشکل
ہے۔ نوبل انعام کمیٹی کو اس پر غور کرنا چاہیے۔(14اکتوبر2015، E-mail:
[email protected]) |
|