پاکستان نے ہمیشہ بھارت کے ساتھ مذاکرات کے ذریعے معاملات
حل کر کے اچھے ہمسائے کی طرح تعلقات کو بڑھانے کی بات کی، مگر بھارت نے بغل
میں چھری اور منہ میں رام رام کی پالیسی اپنائی ہے۔ ماضی شاہد ہے کہ
پاکستان کی خطے میں قیام امن کی کوششوں کے جواب میں بھارت نے نہ صرف
پاکستان، بلکہ عالمی برادری کی کوششوں کو بھی یکسر نظر انداز کر کے ہمیشہ
مذاکرات سے فرار اختیار کیا ہے۔ پاک بھارت کرکٹ بحالی کے سلسلے میں جاری
طرفین کے درمیان جاری مذاکرات کے دوران بھارتی کرکٹ بورڈ کے ہیڈ کوارٹر پر
انتہا پسند ہندو تنظیم شیوسینا کے غنڈوں کے حملے سے لے کر مسئلہ کشمیر پر
بھارت کے روایتی ہٹ دھرمی کا مظاہرہ کرنے تک متعدد واقعات نے یہ ثابت کیا
ہے کہ مودی حکومت اور بہت سے انتہاپسند بھارتی پاکستان کے ساتھ متنازعہ
معاملات کو مذاکرات کے ذریعے حل نہیں کرنا چاہتے۔ بھارت کی جانب سے مذاکرات
کی پیش کش اور کوشش کا ہر بار مثبت کی بجائے منفی جواب ہی سامنے آیا ہے۔
پاکستان نے متعدد بار بھارت کے ساتھ مذاکرات کا سلسلہ شروع کیا اور بھارت
کو مذاکرات کی دعوت دی۔ گزشتہ روز امریکی صدر اوباما کے ساتھ ملاقات میں
وزیراعظم میاں نوازشریف نے کشمیر کے تنازع کو مذاکرات کے ذریعے حل کرنے پر
زور دیا، لیکن بھارت کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگ رہی ہے۔
یہ حقیقت ہے کہ نریندر مودی کے اقتدار سنبھالنے کے بعد سے بھارت میں انتہا
پسندی اور پاکستان کے خلاف نفرت بڑھی ہے اور اب بھارتی معاشرہ تعصب و
منافرت کے ہاتھوں بری طرح یرغمال ہو چکا ہے۔ بھارت کے وزیراعظم نریندر مودی
خود بھی پاکستان اور مسلمانوں کی دشمنی کی سیڑھی چڑھتے ہوئے وزارتِ عظمیٰ
کے منصب تک پہنچے ہیں، اس لیے مودی سرکار نے ہندو انتہا پسندوں کو کھلی
چھوٹ دے رکھی ہے۔ مودی سرکار کی انتہا پسند پالیسیوں سے خود بھارت کے
سنجیدہ حلقے نالاں ہیں۔ بہت سے ادیب، شاعر اور دانشور مودی سرکار کے زیر
سایہ انتہا پسندوں کی پر تشدد کارروائیوں کے خلاف سرکاری ایوارڈ واپس کرچکے
ہیں۔
بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کے اقتدار میں آنے کے بعد نریندمودی نے
سیکولر بھارت کی تشریح کو یکسر تبدیل کردیا ہے اور اب بھارت میں انتہا
پسندی کا راج ہے، جس کے باعث بھارت میں آئے دن پاکستان مخالف انتہا پسندانہ
واقعات رونما ہورہے ہیں، جس پر بھارتی حکومت مسلسل خاموش تماشائی کا کردار
ادا کررہی ہے، جس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ شیوسینا کے غنڈوں کی طرح بھارتی
حکومت بھی پاکستان کے ساتھ مذاکرات کے حق میں نہیں ہے۔ بھارت ہمیشہ پاکستان
کی جانب سے پیش کی گئی قیام امن کی تجاویز کو پس پشت ڈال کر کشیدگی کو ہوا
دیتا آیا ہے۔
مسئلہ کشمیر پاکستان اور بھارت کے درمیان تنازعات کی بنیاد ہے۔ جب تک یہ
مسئلہ حل نہیں ہوجاتا دونوں ملکوں کے تعلقات کبھی بہتر نہیں ہوسکتے۔ بھارت
خود کشمیر کے معاملے کو سب سے پہلے 1948ءمیں اقوام متحدہ میں لے کر گیا
تھا۔ پاکستان نے مسئلہ کشمیر کے پرامن حل کے لیے اقوام متحدہ کی تمام
تجاویز کو قبول کیا، اس کے برعکس بھارت ان قراردادوں کوتسلیم کرنے اور ان
پر عمل درآمد کرنے کی یقین دہانیوں کے باوجود ان قراردادوں سے منحرف ہوتا
چلا گیا، یہاں تک کہ اس نے یہ غیر حقیقت پسندانہ دعویٰ کیا کہ کشمیر بھارت
کااٹوٹ انگ ہے۔ بھارت کا یہ دعویٰ تاریخی حقائق کے منافی،قانونی اصولوں کے
خلاف اورجھوٹ پر مبنی ہے۔مسلم اکثریتی ریاست جموں وکشمیر نظریاتی اور
علاقائی دونوں لحاظ سے پاکستان کا حصہ ہے۔ پاکستان کے نام میں حرف ”ک “ اس
حقیقت کا مظہر ہے کہ کشمیر کے بغیر پاکستان نامکمل ہے۔ کشمیر معاشی اور
دفاعی لحاظ سے پاکستان کی شہ رگ ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ بھارت کی نیت قیام پاکستان کے وقت سے ہی پاکستان کوکشمیر سے
محروم کرنے کی تھی، اسی لیے بھارت نے اپنی افواج کے ذریعے اس پر اپنا تسلط
جما لیا اور پھر اس تسلط کو جائز تسلیم کرانے کے لیے مقبوضہ کشمیر کو اپنے
ماتحت ایک ریاست کا درجہ دے دیا اور الحاق پاکستان کا نعرہ بلند کرنے اور
آزادی مانگنے والے کشمیری عوام پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑنا شروع کردیے اور
ہزار ہا حریت پسند کشمیریوں کا شہید کردیا۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ بھارت کی
جانب سے دنیا کو دکھانے کے لیے تو پاکستان کے ساتھ مذاکرات کی میز پر ہر
تنازع کے حل کی بات کی جاتی ہے، مگر جیسے ہی مذاکرات کے عمل میں پیش رفت
ہوتی دکھائی دیتی ہے تو بھارت کی ہٹ دھرمی کی رگ پھڑکنے لگتی ہے اور مختلف
طریقوں سے مذاکرات کو سبوتاژ کردیا جاتا ہے۔ بھارت جب تک اپنا یہ رویہ ترک
کرکے زمینی حقائق کی بنیاد پر مسئلہ کشمیر کے حل کی طرف نہیں آئے گا، خطے
کا امن و استحکام معرض خطر میں رہے گا۔ |