حکمران جماعت تباہی کے دہانے پر۔۔۔۔۔؟؟
(Prof Riffat Mazhar, Lahore)
بھارت میں شیوسینا کی خباثتیں
جاری ۔شہریار خاں کی سربراہی میں پی سی بی کے بھارت جانے والے وفدکی بھارتی
کرکٹ بورڈسے طے شدہ ملاقات شیوسینا کے طوفانِ بدتمیزی کی بناپر ممبئی میں
ممکن نہ ہوسکی تودہلی میں ملاقات کاقصد ہوالیکن وہاں بھی بھارتی کرکٹ
بورڈنے ملاقات سے انکارکر دیا۔تب مایوس ونامراد شہریارخاں نے دہلی میں پریس
کانفرنس کرتے ہوئے کہا ’’دونوں ممالک کے درمیان کرکٹ سیریزکا کوئی امکان
نہیں تاہم بھارت میں ہونے والے T20 ورلڈکپ کابائیکاٹ نہیں کریں گے‘‘ ۔اوّل
توشہریار خاں کو بھارت میں پریس کانفرنس کرنی ہی نہیں چاہیے تھی لیکن اگرکر
ہی لی توتھوڑی سی غیرت کاثبوت دیتے ہوئے جاویدمیاں داد کی طرح کہہ دیتے کہ
بھارتی کرکٹ جائے بھاڑمیں ،ہم T20 ورلڈکپ کا بائیکاٹ کریں گے ۔زندگی میں
پہلی اورشاید آخری دفعہ لال حویلی والے شیخ رشیدکی اِس بیان سے مکمل اتفاق
کہ ’’شیوسینا کوچاہیے تھاکہ شہریار خاں کا مُنہ کالاکرتے اورجب شہریار
پاکستان آتے تو واہگہ بارڈرپر ہی غیرت مندپاکستانی اُس کامُنہ کالاکر
دیتے‘‘۔اِن حالات میں جب پاکستان میں’’را‘‘ کی دہشت گردی جاری ، بھارت
امریکہ گٹھ جوڑپاکستان کوایک ایسی طفیلی ریاست میں ڈھالنے کی تگ ودَو میں
جو کبھی اُن کے سامنے سَرنہ اٹھاسکے ،شہریارخاں کوکرکٹ سیریزکی بھیک مانگنے
بھارت جاناہی نہیں چاہیے تھالیکن اگرجانے کی غلطی کرہی بیٹھے توتھوڑی سی
غیرت کاتو ثبوت دیتے ۔
اُدھروزیرِاعظم مطالبات کی گٹھڑی سَر پہ اٹھائے امریکہ پہنچ چکے لیکن کسی
بھی مطالبے کی پذیرائی کاامکان صفرکے برابرکہ امریکہ ہماری سیاسی جماعتوں
کی اندرونی کشمکش سے بخوبی آگاہ ۔ہوناتو یہ چاہیے تھاکہ وزیرِاعظم اے پی سی
بلواکر متفقہ طورپر امریکی دَورے کاایجنڈا طے کرتے تاکہ پوری قوم یک جان
دوقالب نظرآتی لیکن میاں نواز شریف صاحب نے اِس کی ضرورت ہی محسوس نہیں کی
۔اِن حالات میں جب ارضِ وطن کوافہام وتفہیم کی اشدضرورت ہے کچھ ’’ ارسطو‘‘
افراتفری کے لیے کوشاں۔ بعداز خرابیٔ بسیارسہی لیکن عمران خاں نے کہہ ہی
دیاکہ اب الیکشن 2018ء میں ہوں گے ۔ خاں صاحب کے اِس بیان کی تمام سیاسی
جماعتوں نے تحسین کی اورقوم نے بھی سُکھ کاسانس لیاکہ اب جلسے جلوسوں اور
دھرنوں کا موسم انجام کوپہنچالیکن ایک ’’افلاطون‘‘ کوکپتان صاحب کایہ
مدبرانہ رُخ پسندنہیں آیا۔ اُس نے کہا ’’عمران خاں کو دھاندلی بھول کرآگے
دیکھنے کی بجائے اُسی جگہ ہتھوڑے مارنے چاہییں ،جب تک یہ شیطانی چکرٹوٹ نہ
جائے ۔جس دِن یہ شیطانی چکرٹوٹے گا جاہلوں کو بھی سمجھ آجائے گی کہ عمران
خاں جو کرتارہا وہ صحیح تھا‘‘۔ پتہ نہیں’’افلاطون‘‘ کے نزدیک جاہلیت
کامعیارکیا ہے کیونکہ پاکستان کی کسی بھی سیاسی جماعت نے خاں صاحب کے
دھرنوں کی تحسین کی نہ احتجاجی سیاست کوپسند کیا۔ اِس لیے مجہول تووہی جو
اِس قسم کے مشوروں سے اپنی دوکانداری چمکائے ۔موصوف کوملکی ترقی کی پرواہ
نہ قومی وقارکی اسی لیے اُس نے کہا ’’عمران خاں کو چاہیے دھاندلی کاورد
کرتارہے تاکہ نوازلیگ عمران خاں کا ورد کرتی رہے ‘‘۔۔۔۔ گویا دونوں کا
’’اِٹ کھڑکا‘‘ جاری رہے ،ملکی ترقی جائے بھاڑمیں۔
پلڈاٹ کے تازہ ترین سروے کے مطابق نوازشریف 75 فیصد ریٹنگ کے ساتھ مقبولیت
کے بلندترین درجے پراور نوازلیگ 70 فیصد کے ساتھ مقبول ترین سیاسی جماعت
لیکن ’’افلاطون‘‘ کہتاہے ’’نون لیگ کوپی ٹی آئی تقریباََ ’’ری پلیس‘‘ کرچکی
،پی ٹی آئی نے نون لیگ کے بخیے ادھیڑکر رکھ دیئے ،NA-122 میں نون لیگ
کومکمل شکست ہوئی‘‘۔ اب قارئین خودہی فیصلہ کرلیں کہ اِس قسم کا تجزیہ کرنے
والے کو مخبوط الحواس کے سوا اورکیا کہاجائے ؟۔سبھی جانتے ہیں کہ ایازصادق
کو2013ء کے مقابلے میں ایک فیصد کم ووٹ ملے اورعلیم خاں کو 2 فیصد زیادہ ۔
جس کی ایک وجہ تو نوازلیگ کے خلاف تقریباََ تمام چھوٹی بڑی سیاسی جماعتوں
کا ’’اکٹھ‘‘ ،دوسری وجہ کپتان صاحب کا اِس حلقے کو ’’فوکس‘‘ کرنا، تیسری
علیم خاں کا کوڑوں روپے پانی کی طرح بہانا اورچوتھی بنیادی وجہ نوازلیگ کی
یہ احمقانہ سوچ کہ وہ بغیرکسی تگ ودَو کے جیت جائے گی ۔اِس کے باوجود جیت
نوازلیگ ہی کے حصّے میں آئی جسے موصوف ’’ مکمل شکست‘‘ کہہ رہے ہیں۔
بَدزبانی اوربَدکلامی توموصوف کی نَس نَس میں سما چکی ہے ،اسی لیے کئی ٹاک
شوزمیں گالی گلوچ تک کی نوبت بھی آتی رہی۔ یہ الگ بات کہ وہ ’’گالیاں کھا
کے بھی بَدمزہ نہ ہوا‘‘۔ اب وہ خواتین کے خلاف بھی تلوارسونت کرنکل آئے
ہیں۔ فرماتے ہیں ’’مرد سیاستدانوں کو تو چھوڑیں ،سیاستدان عورتوں میں بھی
بے حسی اورڈھٹائی نظرآتی ہے ۔کل تک جوپرویز مشرف کے تلوے تھے یا چودھری
پرویزالٰہی کے دسترخوان پرمکھیوں کی طرح بھنبھناتے تھے اُنہوں نے بے شرمی
اورڈھٹائی سے آج اپنی وفاداریاں تبدیل کرلی ہیں‘‘۔ اُنہوں نے یہ بھی کہا
’’میراپہلا اورآخری رومانس پیپلزپارٹی رہی ہے ،میں نے پیپلزپارٹی کے لیے
میگزین نکالے اورجیلیں تک کاٹیں‘‘۔۔۔۔ موصوف اِس غلط فہمی میں مبتلاء کہ
قوم مرضِ نسیاں کا شکارجبکہ حقیقت یہی کہ موصوف کا’’رومانس‘‘ ہردَور میں
مختلف رہا۔ پیپلزپارٹی کے زوال کے بعد وہ قاف لیگ کے دسترخوان
پر’’بھنبھناتے‘‘ نظرآئے اور یہ موصوف ہی تھے جنہوں نے چودھری پرویزالٰہی کے
بیٹے مونس الٰہی کی’’فراڈکیس‘‘ میں رہائی کے بعد اُس کی مدح میں پوراکالم
لِکھ مارا اور اپنے ممدوح کی مدح میں اتنا آگے نکل گئے کہ اُسے مستقبل
کاعظیم رہنماء تک قراردے دیا۔ آجکل چودھری مونس الٰہی کہاں پائے جاتے ہیں
،کسی کو ’’کَکھ‘‘ پتہ نہیں۔آمرپرویز مشرف کودَس باروردی میں منتخب کروانے
کی خواہش رکھنے والے چودھری پرویز الٰہی کے یہ ’’کاسہ لیس‘‘ یقینا
پرویزمشرف کے ’’تَلوے‘‘ بھی رہے ہوں گے کیونکہ دَرِمشرف پہ زانوئے تلمذ تہ
کرکے ہی چودھری اقتدارکے ایوانوں تک پہنچے۔ اِس لیے کہاجا سکتاہے کہ
اگرپرویز مشرف چودھریوں کا ’’پِیر‘‘ تھاتو موصوف کا ’’دادا پِیر‘‘۔ موصوف
ایم کیوایم کی شان میں بھی ہمیشہ رطب اللِّسان ہی رہے اِس لیے کہاجا سکتا
ہے کہ موصوف کاایم کیوایم سے بھی ’’رومانس‘‘ بہت پراناہے ۔آجکل وہ کپتان
صاحب کے نہ صرف قصیدہ گو، بلکہ دھرنے کے دنوں میں کنٹینرپر کھڑے کپتان صاحب
کے پہلومیں بھی پائے جاتے رہے البتہ نوازلیگ کے ساتھ ہمیشہ’’اِٹ کھڑکا‘‘
۔اُنہوں نے کہا2018ء میں توانائی بحران کے خاتمے کادعویٰ بھی صرف ٹوپی
ڈرامہ ہے۔ اگر 2018ء سے پہلے اُن کی حکومت چلی گئی تودعوے کریں گے کہ ہم نے
توبحران بَس ختم ہی کردیا تھا‘‘۔ شیخ رشیدکی طرح تاریخ پہ تاریخ دینے والے
لکھاری موصوف کی خدمت میں عرض ہے کہ خاطرجمع رکھیں، نوازلیگ کی حکومت 2018ء
سے پہلے کہیں نہیں جانے والی اوراگراُس نے 2018ء سے پہلے توانائی بحران
پرقابو پالیا توپھر 2023ء میں بھی یہی حکومت کچھ لوگوں کے سینوں پر مونگ
دلنے کے لیے موجودہوگی۔
|
|