جرمن محققین ایک ایسا تھری ڈی
پرنٹرز تیار کر رہے ہیں جو ممکنہ طور پر ایسی ہڈیاں تیار کر سکے گا جن میں
خون کی نالیاں بھی موجود ہوں گی۔ قبل ازیں ماہرین ٹشوز تیار کرنے کے لیے
بھی یہ ٹیکنیک استعمال کر رہے ہیں۔
آج کل تھری ڈی پرنٹرز قریب ہر چیز ہی تیار کرنے کے لیے استعمال کیے جا رہے
ہیں۔ یہاں تک کہ طبی ماہرین اس کی مدد سے جسم کے ٹشوز وغیرہ بھی تیار کرنے
کی کوشش میں ہیں۔ جرمنی کی فرائی برگ یونیورسٹی کے ماہرین نے تاہم ایک قدم
اور اس سمت میں آگے بڑھانے کا فیصلہ کیا ہے اور وہ ہے تھری ڈی پرنٹر کی مدد
سے ایسی ہڈیاں تیار کرنا جس کے اندر خون کی نالیوں کا اپنا نظام بھی موجود
ہو۔ اس طرح اس بات کے امکانات بڑھ جائیں گے کہ جسم میں ایسی کوئی ہڈی لگانے
کے بعد وہ اپنے ارد گرد کے ٹشوز کے ساتھ جلد جْڑ جائے گی۔
فرائی برگ یونیورسٹی کے پلاسٹک اینڈ ہینڈ سرجری سنٹر کے ٹشو انجینیئرنگ
ڈیپارٹمنٹ کے سربراہ گْنٹر فِنکینزلر کے مطابق، ’’اس نئی ٹیکنیک کی بدولت
وقت کے حوالے سے بہت اہم فرق پڑے گا۔‘‘ ڈی ڈبلیو سے بات کرتے ہوئے ان کا
کہنا تھا، ’’پرنٹ شدہ خون کی نالیوں کو صرف اس چیز کی ضرورت ہو گی کہ وہ
نصب شدہ ہڈی کے ارد گرد موجود قدرتی ٹشوز اور جسم کی دیگر نالیوں کے ساتھ
براہ راست جْڑ جائیں۔‘‘ طبی میدان میں موجود دیگر طریقوں میں ضرورت اس بات
کی ہوتی ہے کہ امپلانٹ شدہ ہڈی کے ارد گرد موجود ٹشوز کی خون کی نالیاں اس
ہڈی میں بھی بڑھیں جس کے لیے دو ہفتوں تک کا وقت درکار ہوتا ہے تاہم اس
دوران مصنوعی ہڈی کام کرنے کے قابل نہیں رہتی۔
محققین اس مقصد کے لیے ہائیڈرو جیلز اور ہمارے جسم کے مناسب خلیوں کو
استعمال کریں گے
اس بات میں ابھی کچھ وقت لگے کہ فِنکینزلر، پراجیکٹ کے شریک سربراہ پیٹر
کولٹے اور ان کے ساتھیوں کو اس طرح کی ہڈیاں اور خون کی نالیاں تیار کرنے
میں کامیاب ہوں۔ اس پراجیکٹ پر تحقیق کے لیے فنڈز جرمن ریسرچ فاؤنڈیشن DFG
نے فراہم کیے ہیں۔ یہ فاؤنڈیشن تین برس کے دوران ریسرچ کے لیے چار لاکھ 60
ہزار یورو کے فنڈز دے گی۔ اس حوالے سے سب سے پہلے اس مقصد کے لیے درکار ایک
پرنٹر تیار کیا جائے گا۔
تاہم اب تک اس حوالے سے درپیش سب سے اہم مسئلہ یہ ہے کہ اس طرح کے پرنٹرز
مصنوعی میٹریل استعمال کرتے ہیں جنہیں ہمارا جسم قبول نہیں کرتا۔ تاہم جرمن
محققین اس مقصد کے لیے ہائیڈرو جیلز اور ہمارے جسم کے مناسب خلیوں کو
استعمال کریں گے۔ اس طرح سے جو ہڈیاں اور ان میں موجود خون کی نالیاں ہوں
گی وہ ممکنہ طور پر جسم مسترد نہیں کرے گا اور وہ جسم کا حصہ ہی بن جائیں
گی۔ |