مودی کے کہنے پر ان کا جوتا بھی اٹھا سکتا ہوں ،واپس کردہ
ایوارڈ لے لینا تو معمولی بات ہے
اقتدار رائے بریلی کی نالیوں سے بہ کر گذرتی ہے ۔اقتدار اور ایوارڈ میرے
لئے بے معنی ہے ۔ میں وعدہ کرتا ہوں کہ آئندہ کبھی بھی کوئی سرکاری ایوارڈ
نہیں لوں گا اور اپنی اولاد کو بھی یہ وصیت کروں گا کوئی سرکاری ایوارڈ نہ
لے ۔میرا مطالبہ ہے کہ ہندوستان سے پولس کو ختم کردیا جائے اور بی جے پی
اور آر ایس ایس والے انتظام و انصرام کو خود سنبھال لیں۔
یہ جملے مشہور شاعر منور رانا کے ہیں جو اے بی پی نیوز کے لائیوشو کے دروان
انہوں نے کہاتھا اور اپنا ساہتیہ اکیڈمی ایوارڈ انتہائی جذباتی انداز میں
واپس کردیا تھا۔منور رانا کے اس اقدام کی چوطرفہ ستائش کی گئی ۔ مسلمانوں
کے تو وہ سب سے بڑے ہیرو بن گئے ۔ تمام ادیبوں نے بیک زبان ہوکر ان کی
تعریف وستائش کی اور پرزور انداز میں ان پر لگائے گئے اس الزام کا بھی دفاع
کیا کہ منوررانا یہ سب سرخیاں بٹورنے کے لئے کررہے ہیں کیوں کہ کل تک وہ
ایوارڈ واپسی تحریک کی مخالفت کررہے تھے اور آج اچانک کیا ہوگیا کہ وہ
ایوارڈ واپس کرنے آگئے وہ بھی ایک شو کے دوران۔ خود مجھے اس وقت بہت تکلیف
ہوئی جب میں نہ دیکھا کہ آج تک کے پروگرام’’ ہلا بول‘‘ میں ان پر یکطرفہ
الزام لگایا جارہا ہے ۔ ہوسٹ انجنا اوم کشیپ اور سنگھ ترجمان راکیش سنہا
دونوں مل کر منورانا سے یہ کہ رہے تھے کہ آپ نے یہ سب شہرت و ناموری کے لئے
کیا ہے ۔ سرخیابں بٹورنے کے علاہ آپ کا مقصد کچھ اور نہیں ہے ۔آپ سونیا
گاندھی کی شان میں بھی قصیدے لکھ چکے ہیں۔یہ سب دیکھ کر میر ے دل میں ان کے
لئے انتہائی نیک جذبہ پید ا ہوگیا ۔ میں نے ان پر کچھ لکھنا بھی چاہا لیکن
نہ جانے کیا ہوا کہ اب تک میں کچھ لکھ نہیں سکا آج جب یہ خبر میری نظروں سے
گذری تو مجھے بے انتہاخوشی ہوئی کہ میر ا قلم ایک خود غرض شاعر کی تعریف
کرنے سے محفوظ رہا۔
منورانا کے پاس پی ایم او سے فون کیا آیا ان کا سارارنگ ہی بدل گیا کل تک
جو مظلوموں کی حمایت کررہے تھے ۔ مودی حکومت کے دوران ہوئے مظالم کو شرمناک
بتارہے تھے ، اخلاق ، کلبرگی اور دیگر واقعات پر اظہا رافسوس کرتے ہوئے
مودی کو ان سب کے لئے ذمہ دار ٹھہرارہے تھے وہ آج یہ کہنے لگے کہ ’’ مودی
ہمارے بڑے بھائی کی طرح ہیں ، میں ہمیشہ سے ان کی عزت کرتا ہوا آرہاہوں ،
وہ اگر اپنا جوتا اٹھانے کو کہیں تو وہ بھی کرسکتا ہوں ان کے کہنے پر
ایوارڈ وواپس کیا ہوا ایوارڈ لے لینا تو بہت معمولی بات ہے ‘‘۔
نو بھارت ٹائمس کے مطابق آئندہ ہفتہ منوارانا کی وزیر اعظم نریندرمودی سے
ملاقات ہوگی جس کے بعد مودی کے کہنے پر وہ واپس کردہ ایوارڈ لے لیں گے۔
منوررانا نے وزیر اعظم سے ملاقات کی خوہش پی ایم او سے فون آنے کے بعد ظاہر
کی ہے۔اور اخباری نمائندوں سے انہوں نے اپنا یہ شعر بھی کہاہے کہ
دل ایسا کہ سیدھے کئے جوتے بھی بڑوں کے
ضد ایسی کہ خود تاج اٹھاکر نہیں پہنا
میں نے سنا ہے کہ عبید اﷲ خاں اعظمی بھی حکومت کے خلاف بہت بولاکرتے تھے ،چناں
چہ بی جے پی حکومت نے انہیں راجیہ سبھا کا ممبر بنادیا جس کے بعد انہیں
حکومت کی تعریف کے علاوہ کبھی کچھ اور کہتے اور لکھتے ہوئے نہیں سناگیا ۔آج
مجھے اس شخص کے تبصرہ پر یقین ہوگیا جس نے یہ کہاتھاکہ منورانا سماج وادی
سے راجیہ سبھاکی سیٹ کا مطالبہ کررہے تھے لیکن نہ دیئے جانے سے ناراض ہوکر
انہوں نے پہلے یو پی اردو اکیڈمی سے استعفی دیا اور اب یہ ایوارڈ واپس کیا
۔
ایسے ہی مواقع کی علامہ اقبال نے منظر کشی کی ہے کہ
یہ ناداں گر گئے سجدے میں جب وقت قیام آیا |