پاکستان بھارت آبی تنازعہ
(Sardar Ashiq Hussain, Islamabad)
پاکستان میں توانائی بحران ہر نئی
حکومت کی مشکلات میں اضافہ کرتا چلا آرہا ہے ۔وزیراعظم نوازشریف کی موجودہ
حکومت کے دور میں توانائی کے کئی نئے منصوبے شروع کیے گئے ہیں ۔ نوازشریف
حکومت نے بہاولپورمیں قائداعظم سولرپارک میں شمسی توانائی پیدا کرنے،
ساہیوال میں کوئلے سے1 ہزار320 میگاواٹ بجلی، سکھی کنارے پانی سے 870
میگاواٹ اور جھمپیرمیں ہوا سے100 میگاواٹ بجلی پیدا کرنے کے معاہدے کیے ہیں
ان منصوبوں پر کام جاری ہے ۔ حکومت کا دعوی ہے کہ 2018 تک بجلی کی کمی پوری
ہوجائے گی ۔نواز شریف نے دعوی کیا ہے کہ ان منصوبوں سے پاکستان تاریکی سے
نکل کر روشنی میں آ جائے گا۔لاکھوں افراد کو روزگار ملے گا اور پاکستان کی
قسمت بدل جائے گی۔آنے والا وقت ہی بتائے گا کہ توانائی کے ان منصوبوں کے
ذریعے پاکستان کتنا روشن اور کتنا خود کفیل ہو گا تاہم پاکستان کے نامور
ایٹمی سائنسدان ثمر مند مبارک نے وزیراعظم نواز شریف کے منصوبوں کو بے کار
دے دیا ہے۔ان کا موقف یہ ہے کہ پاکستان میں بجلی گھروں کی کمی نہیں مسئلہ
ایندھن کا ہے اگر ایندھن نہیں ہو گا تو لگائے جانے والے نئے منصوبوں کیسے
چلائے جائیں گے۔پاکستان میں بجلی کی زیادہ پیداوار پانی کی بجائے تیل کے
ذریعے کی جا رہی ہے چنانچہ جب حکومت وقت پر لوڈ شیڈنگ کے خلاف دبائو بڑھتا
ہے تو حکومت پاور کمپنیوں کو فوری طور پر رقم واگزار کرتی ہے چنانچہ پاور
کمپنیاں پاکستان سٹیٹ آئل کو ادائیگی کر کے زیادہ مقدار میں ایندھن حاصل کر
کے زیادہ بجلی پیدا کرتی ہیں۔بعض اوقات بجلی کی پیداوار کھپت کے برابر کر
دی جاتی ہے اور چند دنوں کے لیے لوڈ شیڈنگ ختم ہو جاتی ہے اگر نئے پاور
ہائوسز بنائے گئے تو وہ بھی ایندھن سے چلائیں گے۔ایندھن نہیں ہو گا تو بجلی
کی کمی برقرار رہے گی۔اس صورتحال میں اصل کام پانی کے ذریعے بجلی پیدا کرنا
ہے اور پانی کے ذریعے بجلی پیدا کرنے کے لیے نئے ڈیموں کی ضرورت ہے تاکہ
پاکستان میں ضائع ہونا والا اضافی پانی بھی محفوظ کیا جا سکے۔پاکستان کا
مسئلہ نئے ہائیڈرل پاور منصوبے نہیں بلکہ نئے ڈیموں کی تعمیر کا ہے۔ان
ڈیموں کے ذریعے بجلی پیدا بھی کی جا سکتی ہے اور لوگوں کو پینے کا صاف پانی
بھی مہیا کیا جا سکتا ہے۔مسئلہ صرف پانی کا ہے اور جھگڑا بھی صرف پانی کا
ہی ہے۔پاکستان کے صوبوں کے درمیان بھی پانی کے مسائل ہیں جبکہ دنیا بھر میں
پانی کے ذخائر کم ہو رہے ہیں اسی طرح جنوبی ایشیا کے اس خطے میں پانی کے
مسائل سر اٹھا رہے ہیں۔ ہمسائیہ ملک بھارت کے ساتھ بھی اصل مسئلہ پانی کا
ہی ہے۔پڑوسی ملک بھارت کی چین کے ساتھ ناراضگی کی بنیاد پانی ہی ہے۔بھارت
کی طرف سے پاکستان کی طرف بہنے والے پانی کے زیادہ تر ذخائر جموں کشمیر
میںواقع ہیں۔بھارت پانی کے ان ذخائر کے اوپر والے حصوں پر قابض ہے جس کی
وجہ سے ایک طرح سے ان ذخائر پر بھارت کا مکمل کنٹرول ہے۔پاکستان کی شکایت
رہی ہے کہ بھارت پاکستان کی طرف بہنے والے پانی کی مقدار کبھی زیادہ اور
کبھی کم کر دیتا ہے چنانچہ خشک سالی میں پانی کی کمی سے پاکستان کے کھیت
بنجر بن سکتے ہیں اور مون سون کے موسم میں پانی کی زیادتی سے پاکستان
بلخصوص پنجاب کے بیشتر علاقے پانی میں ڈوب جاتے ہیں۔پاکستان کی طرف آنے
والے ان پانی کے ذخائر پر بگلیہار ڈیم ،کشن گنگا ڈیم کے علاوہ بھارت 60 نئے
منصوبے شروع کر رہا ہے۔بگلیہار ڈیم کے علاوہ کشن گنگا ڈیم کی تعمیر پر بھی
پاکستان کے تحفظات اس لیے تھے کہ ان منصوبوں کے ذریعے پاکستان کی طرف بہنے
والے پانی کے بہائو میں کمی ہو گی چنانچہ پاکستان ان مسائل کو عالمی عدالت
انصاف میںلے گیا۔بگلیہارڈیم 450 میگاواٹ بجلی پیدا کررہا ہے۔2018 میں تعمیل
کے بعد اس کی پیداوار دو گنا یعنی 900 میگا واٹ ہو جائے گی۔مقبوضہ کشمیر
میں 600 نئے پاور منصوبوں کے ذریعے بھی 3000 میگا واٹ سے زیادہ بجلی پیدا
ہونے کاتخمینہ ہے۔پانی کے ان ذخائر میں کشن گنگا ڈیم کی اہمیت پاکستان کے
لیے غیر معمولی ہے۔اس لیے کشن گنگا ڈیم سے گزر کر پانی آزاد کشمیر میں
دریائے نیلم کا حصہ بھی بنتا ہے اگر اس ماخذ سے پانی کی کمی واقع ہو جائے
تو دریائے نیلم پر 960 میگا واٹ بجلی پیدا کرنے کا منصوبہ متاثر ہو سکتا
ہے۔پاکستان اور بھارت کے درمیان 1960 میں سندھ طاس معاہدہ ہوا اس معاہدے کے
ذریعے دریائے سندھ کے پانی کی تقسیم کے علاوہ جموں و کشمیر کے آبی ذخائر کا
معاملہ بھی حل کیا گیا تھا۔پاکستان کے بگلیہار ڈیم اور کشن گنگا ڈیم پر
تحفظات موجود ہیں پاکستان کی5 کروڑ 40 لاکھ ایکڑ اراضی کو دریائے سندھ
سیراب کرتا ہے چنانچہ پاکستان اور بھارت کے درمیان پاکستان کا تنازعہ حل نہ
ہوا تو مستقبل میں پاکستان کی مشکلات میں اضافہ ہو گا۔ماہرین بہت پہلے کہہ
گئے تھے کہ اب جنگیں پانی پر ہوں گی۔اس تناظر میں اب یہ کہا جائے کہ
پاکستان اور بھارت کے درمیان پانی کے تنازعہ پر تین جنگیں ہو چکی ہیں تو
مناسب ہو گا کیونکہ اصل مسئلہ پانی کے ذخائر کے کنٹرول کا ہے۔پاکستان اور
بھارت کے درمیان کشمیر کے تنازعہ کو اگر نیا نام دے دیا جائے تو اسے پانی
کا تنازعہ کہا جا سکتا ہے۔پاکستان اور بھارت کے درمیان یہ تنازعہ پوری شدت
سے جاری ہے دوسری طرف چین اور بھارت کے درمیان بھی پانی کا تنازعہ کئی
دہائیوں سے شدت اختیار کر چکا ہے۔ جس طرح پاکستان کی طرف بہنے والے پانی پر
بھارت کا کنٹرول ہے اسی طرح بھارت کی طرف بہنے والے پانی کے کچھ ذخائر پر
چین کا کنٹرول ہے۔دریائے برہم پترا کا ماخذ تبت ہے ۔چین چاہتاہے کہ اس دریا
کا پانی وسطی اور مغربی چین میں استعمال کیا جائے چنانچہ اروناچل پردیش میں
ڈیم کی تعمیر کے خلاف چین نے احتجاج کیا تھا ۔حال ہی میں چین کی طرف سے
ایشیائی ترقیاتی بینک کو ڈیم کی تعمیر کے لیے فنڈ فراہم کرنے سے روکنے کی
کوشش کی گئی تھی۔ان حقائق کی روشنی میں اس نتیجہ پر پہنچا ہوں کہ پاکستان
اور بھارت کے درمیان تنازعے کا نام کشمیر ہے مگر وجہ پانی ہے۔ |
|