بیسوی صدی کے دوران دنیا میں
مختلف نوعیت کے بڑے بڑے واقعات رونما ہوچکے ہیں۔ ان میں سے چند ایک واقعات
ایسے ہیں جو تاریخ میں نہیں بھلائے جاسکتے۔ ان واقعات میں پہلی جنگ عظیم
اور دوسری جنگ عظیم کو بھی ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔ دوسرے جنگ عظیم نے دنیا
میں بڑے پیمانے پر تباہی مچادی تھی۔اس جنگ میں 61 ملکوں نے حصہ لیا۔ ان کی
مجموعی آبادی دنیا کی آبادی کا 80 فیصد تھی۔ اور فوجوں کی تعداد ایک ارب سے
زائد۔ تقریباً 40 ملکوں کی سرزمین جنگ سے متاثر ہوئی۔ اور 5کروڑ کے لگ بھگ
لوگ ہلاک ہوئے۔ سب سے زیادہ نقصان روس کا ہوا۔ تقریباً 2کروڑ روسی مارے گئے۔
اور اس سے زیادہ زخمی ہوئے۔ روس کے 1710 شہر اور قصبے۔ 70000 گاؤں اور
32000 کارخانے تباہ ہوئے۔ پولینڈ کے600000، یوگوسلاویہ کے 1700000 فرانس کے
600000 برطانیہ کے 375000 ، اور امریکا کے 405000 افراد جن سے گئے۔ تقریباً
6500000 جرمن موت کے گھات اترے اور 1600000 کے قریب اٹلی اور جرمنی کے
دوسرے حلیف ملکوں کے افراد مرے۔ جاپان کے 1900000 آدمی مارے گئے۔ جنگ کا سب
سے ظالمانہ پہلو ہیروشیما اور ناگاساکی پر امریکا کا ایٹمی حملہ تھا۔ جاپان
تقریباً جنگ ہار چکا تھا لیکن دنیا میں انسانی حقوق کے نام نہاد ٹھیکے دار
امریکہ نے اپنی طاقت کا مظاہرہ کرنے کے لیے لاکھوں لوگوں کو موت کے گھاٹ
اتار دیا۔
25 اپریل 1945 ء سے 26 جون 1945ء تک سان فرانسسکو، امریکہ میں پچاس ملکوں
کے نمائندوں کی ایک کانفرس منعقد ہوئی۔ اس کانفرس میں ایک بین الاقوامی
ادارے کے قیام پر غور کیا گیا۔ چنانچہ اقوام متحدہ ( United Nations) کا
منشور یا چارٹر مرتب کیا گیا۔ لیکن اقوام متحدہ 24 اکتوبر 1945ء میں معرض
وجود میں آئی۔ اقوام متحدہ (United Nations Organizations) کا نام امریکہ
کے سابق صدر مسٹر روز ویلٹ نے تجویز کیا تھا۔
٭اقوام متحدہ کے بنیادی اور ابتدائیہ مقاصد یہ تھے۔ ٭ مشترکہ مساعی سے بین
الاقوامی امن اور تحفظ قائم کرنا۔ ٭ قوموں کے درمیان دوستانہ تعلقات کو
بڑھانا۔ ٭بین الاقوامی اقتصادی، سماجی، ثقافتی اور انسانوں کو بہتری سے
متعلق گتھیوں کو سلجھانے کی خاطر بین الاقوامی تعاون پیدا کرنا انسانی حقوق
اور بنیادی آزادیوں کے لیے لوگوں کے دلوں میں عزت پیدا کرنا۔ ٭ ایک ایسا
مرکز پیدا کرنا جس کے ذریعے قومیں رابطہ عمل پیدا کر کے ان مشترکہ مقاصد کو
حاصل کر سکیں۔ ٭ آرٹیکل نمبر 2 کے تحت تمام رکن ممالک کو مرتبہ برابری کی
بنیاد پر ہے۔
ہر امن پسند ملک جو اقوام متحدہ کے چارٹر کی شرائط تسلیم کرے اور ادارہ کی
نظر میں وہ ملک ان شرائط کو پورا کر سکے اور اقوام متحدہ کی ذمہ داریوں کو
ادا کرنے کے لیے تیار ہو برابری کی بنیاد پر اقوام متحدہ کا رکن بن سکتا
ہے۔ شروع شروع میں اس کے صرف 51 ممبر تھے۔ بعد میں بڑھتے گئے۔ سیکورٹی
کونسل یا سلامتی کونسل کی سفارش پر جنرل اسمبلی اراکین کو معطل یا خارج کر
سکتی ہے۔ اور اگر کوئی رکن چارٹر کی مسلسل خلاف ورزی کرے اسے خارج کیا جا
سکتا ہے۔ سلامتی کونسل معطل شدہ اراکین کے حقوق رکنیت کو بحال کر سکتی
ہے۔اس وقت اس کے ارکان ممالک کی تعداد 193 ہے۔
اگر دیکھا جائے تو اقوام متحدہ کو ظلم کے خلاف پر امن معاشرے کی ترویج کے
لیے وجود میں لایا گیا تھا۔ مگر جس ظلم کے خلاف یہ تنظیم بنی تھی آج اسی
ظلم کی سرپرستی میں ہے۔ 1945ء میں ہیروشیما کے ایٹمی حملے سے لے کر اکیسویں
صدی میں عراق اور افغانستان پر حملے تک امریکی جارحیت میں کمی نہ ہوئی۔
اقوام متحدہ اگر کوئی قانون بناتا ہے تو وہ اس وقت تک اس پر عمل نہیں ہو
سکتا جب تک امریکا اس کی منظوری نہ دے۔ دنیا میں اقوام متحدہ نے عملا کوئی
کام کیا ہے تو وہ مسلمانوں کو دہشت گرد قرار دینا ہے، مسلمانوں ملکوں کے
خلاف جارحیت کی اجازت دینا ہے، غیر مسلموں کو مظلوم اور مسلمانوں کو ظالم
ثابت کرنا ہے، اسلام کے حامی حکومتوں کا تختہ الٹنا ہے اور پوری دنیا پر
امریکی دہشت بٹھانا ہے۔
اقوام متحدہ کو فسلطینیوں پر اسرائیلی مظالم نظر نہیں آتے، کشمیریوں پر
بھارتی مظالم ان کے نظر میں نہیں، بوسنیا، چیچنیا اور برما میں بربریت کے
شکار باشندے نظر نہیں آتے، کیونکہ وہ مسلمان ہیں۔ ان کو اگر کچھ نظر آتا ہے
تو وہ پاکستان کے ایٹمی اثاثے ہیں، افغانستان کی طالبان حکومت ہے، عراق کی
صدام حکومت ہے، مصر کی مرسی حکومت ہے، ترکی کی اردووان حکومت ہے، لیبیا کی
قذافی حکومت ہے اور سعودی عرب میں موجود شعائر اﷲ ہیں۔
آخر کب تک یہ سلسلہ چلتا رہے گا؟ کب تک مسلمان ظلم کی چکی میں پستا رہے گا؟
کب تک یہودی تسلط قائم رہے گی؟ کب تک اقوام متحدہ امریکا کی لونڈی رہے گی؟
ستر سال بیت گئے اقوام متحدہ کو وجود میں آئے ہوئے۔ کیا اقوام متحدہ مظلوم
کو اس کا حق دلانے والا ادارہ ہے یا ظلم کے خلاف اس کے آواز بلند کرنے کا
حق سلب کرنے کا؟
|