مقناطیسی لہر مذہبی نظریات بھی تبدیل کر سکتی ہے

سائنسدانوں نے مقناطیسی لہروں کو کھوپڑی کے پار پہنچا کرلوگوں کے دماغ کے کئی حصے کامیابی کے ساتھ معطل کر دیئے

سائنسدانوں نے دعویٰ کیا ہے کہ مقناطیس کے ذریعے دماغ کو متاثر کر کے کسی بھی شخص کے مذہبی عقائد کو قابل ذکر حد تک تبدیل کرنا ممکن ہے۔سائنسدان دماغ کو مقناطیسی ہیجان سے گزارنے کے عمل کے ذریعے اس حصے کو عارضی طور پر بند کرنے میں کامیاب ہو گئے جو انسانی مسائل کو حل کرنے اور کسی مطلوبہ چیز کا سراغ لگانے کاذمہ دار ہوتا ہے۔دماغ کو مقناطیسی ہیجان سے گزارنے کا یہ عمل(Transcranial magnetic stimulation) ٹی ایم ایس کے نام سے معروف ہے۔ اس عمل میں ذہنی دباﺅ کے شکار مریض کی کھوپڑی کے نزدیک پیشانی پر ایک مقناطیسی فیلڈ پیدا کرنے والا جنریٹر یا کوائل رکھا جاتا ہے۔اس طرح دماغ میں مقناطیسی لہر یںعصبی خلیوں کو قوت پہنچا کر ذہنی دباﺅ کی علامات میں کمی کا سبب بنتی ہےں۔برطانوی روزنامہ میل کے مطابق ذہنی دباﺅ سے نجات کے لئے ٹی ایم ایس کے عمل سے گزرنے والے افراد کا کہنا ہے کہ اس طریقہ علاج سے افاقہ ہونے کے ساتھ ساتھ ان کے خدا پر یقین میں ایک تہائی کمی جبکہ امیگرنٹس کے بارے میں ان کی مثبت سوچ میں اضافہ ہو گیا ہے۔

یہ حیران کن دعویٰ یونیورسٹی آف یارک کے ڈاکٹر کیلس ازیوما اور یونیورسٹی آف کیلی فورنیا، لاس اینجلس کے کولن ہالبروک نے ایک اسٹڈی کے بعد کیا ۔ اسٹڈی میں او سطاً 21 سال عمر کے 38 افراد کو ان تجربات سے گزارا گیا تھا۔تجربے سے قبل ہر شخص کا کہنا تھا کہ وہ پختہ مذہبی نظریات رکھتا ہے جبکہ ان کی اکثریت انتہائی قدامت پسند سیاسی نظریات کی حامل تھی۔اس اسٹڈی میںسیاسی نظریات نہایت اہم تھے کیونکہ اس سے ظاہر ہوتا تھا کہ امیگریشن پر ان کے مضبوط خیالات ہیں۔نصف شرکاءکا ایک کنٹرول گروپ بنایا گیاجنہیں ٹی ایم ایس کے نسبتاً ہلکے عمل سے گزارا گیا جس نے ان کے دماغوں پر کوئی اثر نہیں کیا۔دیگر نصف شرکاءکو ٹی ایم ایس کے مکمل عمل سے گزارا گیا جس کا مقصدکسی چیز کی کھوج لگانے اور دوسرے لوگوں سے تعلقات کی بہتری پر مامور دماغ کے ایک مخصوص حصے پی ایم ایف سی کی کارکردگی میں کمی لانا تھا۔ دماغ کا یہ حصہ اس کی سطح کے نزدیک اور پیشانی سے چند انچ کے فاصلے پر ہوتا ہے۔

تمام شرکاءکو اس عمل سے گزارنے کے بعد ان کے مذہبی عقائد اور امیگرنٹس کے بارے میں سوالات سے قبل موت کے بارے میں سوچنے کے لئے کہا گیا۔موت کے بارے میں سوچ کے ہدف میں ان کو اپنی موت کے بارے میں مختصر تحریر بھی شامل کرنے کی ہدایت کی گئی تھی۔ ان کے تعصب کی سطح کو جانچنے کے لئے شرکاءکو دو مضامین پڑھنے کی ہدایت بھی کی گئی۔ ان مضامین میں سے ایک تنقیدی اور دوسرا مثبت تھا جو کہ لاطینی امریکہ کے ایک امیگرنٹ نے تحریر کیا تھا۔ہر مضمون کو پڑھنے کے بعد شرکاءسے سوال کیا گیا کہ انہوں نے مضمون نگار کی شخصیت کو کس حد تک پسند کیا اور وہ مضمون کے مندرجات سے کس حد تک اتفاق کرتے ہیں۔مذہبی عقاید کو جانچنے کے لئے ” سپر نیچرل بلیف اسکیل“ کے ایک ورژن کو استعمال کیا گیا۔ان سے سوالات کو بے ترتیب پیش کیا گیا تھا اور ان کی درجہ بندی بالکل امیگرنٹ ریٹنگ کی طرز پر کی گئی تھی۔ان سے جو سوالات کئے گئے تھے ان میں ” کیا ایک انتہائی طاقت ور ، سب کچھ جاننے والا اور محبت کرنے والا خدا موجود ہے ؟ “ ، ”کیا انسان میں اچھی ذاتی روحانیت موجود ہے؟ “ ، ” ہم فرشتہ کسے کہہ سکتے ہیں ؟ “ اور ” کیا انسان میں شیطانی خصلت موجود ہے ؟ “ ، ” ہم شیطان کسے کہہ سکتے ہیں ؟ “ شامل تھے۔

اسٹڈی کے نتائج جرنل سوشل کاگنیٹیو اینڈ ایفکٹیونیوروسائنس میں شائع ہوئے جس میں بتایا گیا ہے کہ ایسے لوگ جنہیں ٹی ایم ایس کے عمل سے گزارا گیا ان کاخدا، فرشتوں یاجنت پر یقین 32.8فیصدکم ہو گیا۔ ان میں امیگرنٹس کے بارے میںجو کہ ان کے ملک پر تنقید کرتے ہیں، مثبت سوچ بھی28.5فیصد بڑھ گئی۔ تحقیقی ماہرین اس نتیجے پر بھی پہنچے کہ مقناطیسی ہیجان کی لہروںنے مضمون کے ٹیسٹ میں تنقیدی مصنف کے ردعمل پر بھی زبردست اثرات مرتب کئے۔ ڈاکٹر کیلس ازیوماکا کہنا ہے کہ ہم سمجھتے ہیں کہ اپنی ملکی اقدار پر تنقید سن کر بالخصوص ایک ایسے شخص کے منہ سے تنقیدی الفاظ سن کرجس کا تعلق ملک کے باہر سے ہو غصے کا ردعمل فطری بات ہوتی ہے۔تاہم اس کے برعکس ٹی ایم ایس کے عمل سے گزرنے والوں میںاس کااثر الٹا ہوا۔تحقیقی سائنسدانوں نے کہا کہ مذہبی عقائد اور تعصب دونوں میں کمی اس امر پر روشنی ڈالتی ہے کہ ٹی ایم ایس کے عمل سے دماغ کا وہ حصہ کس حد تک متاثر ہوتا ہے جو خطرات کا سراغ لگانے میں مددگار ہوتا ہے۔

ڈاکٹر کیلس ازیوما کا کہنا تھا کہ لوگ عام طور پر اس وقت مذہب کی طرف رجوع کرتے ہیں جب وہ کسی مشکل صورت حال سے دوچار ہوتے ہیں۔” ہم یہ جاننا چاہتے ہیں کہ کیا دماغ کا وہ حصہ جس کا تعلق بڑے مسائل کو حل کرنے سے ہے، مثلاً یہ فیصلہ کرنا کہ کسی رکاوٹ کو عبور کرنے کے لئے جسم کو کس طرح حرکت دینی ہے، کیا وہ بھی مذہبی نظریات سے پیدا ہونے والے مسائل کو حل کرنے میں کوئی کردار ادا کرتا ہے؟ ۔انہوں نے کہا کہ ہم نے اسٹڈی کے شرکاءکو موت کی یاد دہانی اس لئے کروائی کہ سابقہ تحقیق میں یہ بتایا گیا تھا کہ لوگ موت کا سامنا کرتے ہوئے آرام کی خواہش میں مذہب کی طرف رجوع کرتے ہیں۔امریکی سائنسدان کولن ہالبروک کے مطابق ریسرچ کا سب سے زیادہ حیران کن نتیجہ یہ ہے کہ مذہب کے بارے میں نظریات کی تبدیلی جذبات میں تبدیلی سے ظاہر نہیں ہوتی کیونکہ شرکاءنے اپنی جذباتی کیفیت میں کسی تبدیلی کا اظہار نہیں کیا چاہے ان کے ذہن کی کیفیت تبدیل ہوئی ہو یا نہیں۔انہوں نے کہا کہ یہ سمجھنے کے لئے اب مزید ریسرچ کی ضرورت ہے کہ اس تجربہ میں مذہبی عقائد کیوں اور کس طرح کمزور ہوئے ۔

امریکہ میں اوہائیو اسٹیٹ یونیورسٹی پر ایک ماہر نفسیات نے حال ہی میںخدا پر یقین کی نفسیات کے بارے میں ایک تھیوری پیش کرتے ہوئے یہ دعویٰ کیا ہے کہ یہ انسان کی 16 بنیادی خواہشات پوری کرنے کی ایک کوشش ہے۔ان میں تجسس، قبولیت ، فیملی ، عزت ،آزادی،تصور پسندی ،حکم ، جسمانی سرگرمی ، طاقت ، رومانس، بچت ، سماجی رابطہ، حیثیت ، سکون، کھانا اور انتقام شامل ہیں۔پروفیسر اسٹیون ریز کا اصرار ہے کہ یہ ناممکن ہے کہ کسی ایک محرک کی وجہ سے مذہب کو کم تر قرار دیا جائے اور یہ کہ ایک مذہب کی کامیابی کے لئے ضروری ہے کہ وہ گوناگوں انسانی فطرت کے لئے قابل قبول ہو۔ان کی دلیل تھی کہ قبل ازیں نفسیات کی روشنی میں مذہب کو واضح کرنے کی جو کوشش کی گئی وہ ایک اخلاقی فریم ورک فراہم کرنے یا موت سے نمٹنے کا ایک راستہ بیان کرنے کی اہلیت کی حامل نہیں تھی۔دوسری جانب نارتھ کیرولینا اسٹیٹ یونیورسٹی پر تحقیقی ماہرین اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ پہلے پہل سیلاب، قحط اور طاعون کی وبا پھیلنے سے خدا پر یقین کے آغاز میںمدد ملی۔ان کی تحقیق کے مطابق تمام طاقت ور اور اخلاقی جواز رکھنے والے خداﺅںپر یقین انسانی تاریخ میں مشکلات کے دوران ظاہر ہوا۔انہوں نے دعویٰ کیا کہ ایک سپریم دیوتا پر یقین نے اس امر کو یقینی بنانے میں مدد کی کہ لوگ برے حالات میں بھی اخلاقی قدروں کا احترام کرتے ہوئے ایک معاشرہ میں رہیں۔ان تحقیقی ماہرین نے دنیا بھر میں 583مذہبی معاشروں کی ابتدا والے علاقوں کا تجزیہ کیا تھا۔ یہ نتائج ممکنہ طور پر اس امر پر روشنی ڈالنے میں مددگار ہوں گے کہ مسیحیت، یہودیت اور اسلام جیسے مذاہب پہلے کس طرح پھیلے۔ (یہ آرٹیکل روزنامہ جنگ میں شائع ہو چکا ہے)
syed yousuf ali
About the Author: syed yousuf ali Read More Articles by syed yousuf ali: 94 Articles with 77863 views I am a journalist having over three decades experience in the field.have been translated and written over 3000 articles, also translated more then 300.. View More