ہمارے ایک بہت محترم استاد انعام
باری صاحب نے چند روز قبل سوشل میڈیا پر ایک ویڈیوشیئرکی۔ یقینا وہ ایک
دلچسپ ویڈیو تھی۔اُس ویڈیومیں ایک خاص نسل کی چڑیا بڑی محنت سے اپنا
گھونسلہ بنارہی تھی ا س چڑیا کا گھونسلہ کوئی عام چڑیا کے گھونسلہ کی طرح
نہیں تھا چونکہ وہ جنگل میں رہنے والی چڑیا تھی تو وہ اپنی اور اپنے خاندان
کی حفاظت کے اصولوں کے تحت اپنا گھونسلہ ایک غلاف کی طرح بنارہی تھی
گھونسلہ کی بٔنت کے لیے سب سے مشکل کام اِسے شروع کرنا تھا۔اور اس کے لیے
چڑیا کو گرہ لگانا ضروری تھا لحاظاوہ بہت دور سے ہرئی گھانس لائی تو سب سے
پہلے چڑیا کو گھاس کے ساتھ درخت کی ٹہنی کی گرہ لگانی تھی۔ اب معصوم چڑیا
کے ہاتھ تو ہوتے نہیں کہ وہ گرہ لگا سکتی، سو وہ بہت محنت سے اپنی چونچ اور
پنجوں سے گرہ لگا رہی تھی۔ اِسی تگ و دُو میں وہ کتنی ہی بار ٹہنی سے زمین
پر آ گری اور کتنی ہی بار گرنے کے خوف سے أس کی چوُ چوُ کی صدائیں تیز ہو
گئی ۔لیکن اس چھوٹی سی چڑیا نے اپنی ہمت اور امید کو ٹوٹنے نہ دیا اور آخر
کار اپنے گھونسلے کی بنیار رکھ ہی دی نہ صرف بنیاد رکھی بلکہ آخر تک اسے
بناتی رہی ۔جب گھونسلہ اپنی تکمیل کے آخری مراحل میں داخل ہوا تو ایک عجیب
منظر سامنے آیا چونکہ گرہ ایک کمزور ٹہنی سے لگی ہوئی تھی تو وہ ٹہنی بوجھ
برداشت نہ کر سکی اور دیکھتے ہی دیکھتے وہ گھونسلہ زمین پرآگرا۔ـچڑیا نے
ہمت کا سفر دوبارہ شروع کیااور کامیابی سے کمال مہارت کے ساتھ اپنا کام
کرتی رہی۔کامیابی ملنا یقنی تھی سو وہ کامیاب ہوئی۔
اس چھوٹے سے ویڈیو کلب نے کتنے ہی سوال میرے سامنے لا کر کھڑے کر دیئے ۔کتنے
ہی اپنے اطراف میں گردش کرتے مناظرروح تک پیوست ہوکر انسانی رویوں کی
تصویریں بن گئے ۔ایک آواز میرے دل و دماغ میں گونجنے لگی کہ اے تمام
مخلوقات سے اشرف مخلوق انسان !تو سچ میں بہت بے صبرا ہے۔ ایک چھوٹی سی چڑیا
کتنی محنت کرتی ہے او ر اپنے مقصد میں کامیابی کا کامل یقین رکھتی ہے،جبکہ
انسان کتنی جلدی ہار مان جاتا ہے۔
ہمیں خود پر تو اعتماد ہے ہی نہیں،ہم خدا کو بھی بھول جاتے ہیں۔کہ کوئی ہے
جو ہمارے سب سے زیادہ قریب ہے۔ ہماری شَہ رگ سے بھی زیادہ قریب، جو ہماری
کوششو ں مسائل ہمارے دکھوں اور ہماری خوشیوں سے اس حد تک واقف ہے جتنا ہم
خود اپنے آپ کو نہیں جانتے اپنے راستوں کو نہیں پہچانتے ۔ہمیں خود علم نہیں
ہوتا کہ کیا چیز ہمیں خوش کرتی ہے اور کیا ہمیں دکھ دیتی ہے ۔لیکن ہا ں خدا
سب جانتا ہے۔وہ خدا ہی ہماری مدد فرماتاہے۔بس تھوڑا ساصبر،تھوڑی سی لگن ،محنت
اور اپنے آپ سے مخلص ہو نے کی ضرورت ہے۔
اکثر تو ہمارے اندر کا خوف ہمیں نئے راستے پر جانے نہیں دیتا اور اگر ہم
کسی راستے پر چلتے ہوئے ناکام ہو جائے تو دوبارہ اپنے اندر ہمت پیداکرنا
نہایت مشکل لگتا ہے ٹوٹ پھوٹ کایہ عمل نجانے انسان سے کیا کچھ کروا جاتا
ہے۔ایسے میں انسان ہر وہ راستہ تلاش کرتا ہے جہاں سے اسے زرا سی بھی امید
نظر آئے ا ور ایسی امیدیں دلانے والوں کے اشتہارات ہمیں ہماری سڑکوں،
چورنگیوں اور شاہراہوں پر ہر جا بجا نظر آتے ہیں۔
اچھی نوکری ،اچھا رشتہ ،محبوب آپ کے قدموں میں ،ہر مسئلے کا حل فقط ہمارے
پاس ۔اور نجانے کیا کچھ جو تقریباروز ہی ہم پڑھتے ہیں۔اور اگرہم دیوارو ں
پر سے نظریں چُرا کر آگے نکل بھی جائیں تو اخبارات میں ہمیں ایسے بابا وں
کے اشتہارات آسانی سے مل جاتے ہیں جو ہمارے مسائل کا حل ہمیں بتانے کے لیے
بے چین بیٹھے ہیں۔چلیں اخبارات سے نظریں ہٹالیں تو اب تو ٹی وی چینلز ہمیں
ان باباوں تک راسائی کا راستہ دیکھاتے ہیں۔پاکستان جیسے ملک میں جہاں غربت
اور ناخواندگی کی شرح خطرناک حد تک زیادہ ہے وہاں عام فرد کے لیے کسی بھی
قسم کی ایک امید کی کرن اسے ہر حال میں ایسے دروازوں تک لے جاتی ہے جسے و ہ
چاہے خوددل میں برا ہی کیوں نا سمجھ رہا ہولیکن اگر اسے کوئی اس کے مسائل
کے حل کا یقین دلاتا ہے تو وہ ضرور اُس راستے کی طرف جائے گا۔
ایک اندازے کے مطابق ملک بھر میں جالی عاملوں کی تعداد ایک لاکھ کے قریب
ہے۔یہ ایک ایسا بزنس ہے جس پر کوئی ٹیکس نہیں لگتا۔حکومت ایسے کسی کاروبار
و کو کاروبار میں شمار ہی نہیں کرتی جس کاتعلق کسی بھی عقیدے سے ہو ۔اب
مذہب کے نام پر کاروبار بھی بہت چمک رہے ہیں اور عقائد کے نام پر پیسہ بھی
بہت کمایا جاتا ہے ۔
اپنے کاموں کے لئے عاملوں سے آس لگانے والوں میں ہمت ،حوصلہ اور خود پر
یقین نہیں ہوتا ۔ ایسے افرادتُوکل اﷲ نہ ہونے کے باعث ایسے دائرہ میں پھنس
کے رہ جاتے ہیں جس میں گھومتے رہنا ہی پھر مقدر بن جاتا ہے۔ایسا نہیں ہے کہ
ان عاملوں کے پیروکاروں میں فقط نا خواندہ افراد موجود ہیں۔پڑھے لکھے افراد
بھی اپنی خواہیشات کی تکمیل کے لیے ان جالی عالموں سے رابطہ کرتے ہیں ۔عجب
بات یہ ہے کہ جب یہ جالی عامل اپنی زندگی نہیں بدل سکے تو یہ کیوں کر ممکن
ہے کہ وہ دوسروں کی زندگی بدلنے کا اختیار رکھتے ہوں گے۔
ایسا امیر اور خواندہ طبقہ موجود ہے جو ان جالی عاملوں کے کاروبار کو
بڑھاوا دینے میں ان کی مدد کررہا ہے ۔اور ان کی جائز ناجائز خواہیشات کو
پورا بھی کرتا ہے۔ان لوگوں میں بہت دے سیاسددان اورکھلاڑی بھی شامل ہیں ۔اب
ظاہر ہے ملک کا وہ طبقہ جو عام ف آمی کی سوچ پر اثر انداز ہوتا ہے وہ ہی
ایسے عاملوں کے پیروکار ہوں گے تو پھرعام افرد ان عاملوں کے چُنگل میں کیوں
نہیں پھنسے گے ۔
دراصل یہ ہمت ،حوصلہ اور خود پر یقین سے محرومی ہے جو لوگوں کوکبھی جالی
عاملوں کے َدر پر لے جاتی ہے اور کبھی کسی شارٹ کٹ کے ذریعہ خواہشات پوری
کرنے پر مجبور کردیتی ہے۔مسائل کا مقابلہ، ہمت اور استقامت سے کرنا ہمارے
دین کی تعلیم ہے اور یہی اﷲ پر توکل ہے۔اگر یہ بات ہمارے سمجھ میں آگئی تو
جالی عاملوں کا دھندا خود بخود چوپٹ ہو جائے گا۔
|