امریکی فوج دنیا کا سب سے مہنگا طیارہ تیار کرنے میں مصروف
(Syed Yousuf Ali, Karachi)
98ملین ڈالر مالیت کاطیارہ
ایک منٹ میں 3000راﺅنڈ فائر کرنے کی صلاحیت کا حامل ہوگا
اسٹیلتھ ٹیکنالوجی اور جدید ترین آلات کے باوجود گراﺅنڈ ٹیسٹ میں40سال
پرانےF16سے مات کھا گیا
جدید جنگوں میں اصل اہمیت فضائی حملوں کی ہوتی ہے جوکہ چند لمحوں میں ہی
میدان جنگ کا پانسہ پلٹ سکتے ہیں۔امریکی فوج اسی حقیقت کو پیش نظر رکھتے
ہوئے ابتداءسے ہی فضائی حملوں کی استعداد میں اضافہ کے لئے کام کرتی رہتی
ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہر ماہ کوئی نہ کوئی جدید ترین لڑاکا جنگی طیارہ منظر
عام پر آجاتا ہے۔گزشتہ دنوں پینٹاگون نے F-35A اسٹیلتھ جیٹ کی وڈیو جاری کی
جسے صرف چند سیکنڈوں میںسیکڑوں راﺅنڈ فائر کرتے ہوئے دکھایا گیا ہے۔طیارہ
آج کل زمینی ٹیسٹ کے مراحل طے کر رہا ہے۔ یہ جنگی تاریخ کا انتہائی مہنگا
ترین ہتھیار ہے جس پر ریاست کیلی فورنیا کے ایڈورڈز ایئرفورس بیس پر
انتہائی سخت تجربات کئے جارہے ہیں۔فوٹیج میں چار بیرل اور 25ملی میٹر
گیٹلنگ گن طیارے کے بائیں جانب نصب دکھائی دے رہی ہے۔ برطانوی روزنامہ میل
آن لائن کی رپورٹ کے مطابق طیار ہ میں اسٹیلتھ ٹیکنالوجی فراہم کی گئی ہے
جبکہ گیٹلنگ گن جو کہ ایک منٹ میں 3000راﺅنڈز فائر کر سکتی ہے صرف اس وقت
تک پوشیدہ رہتی ہے جب تک کہ ایسا کرنے کی ضرورت ہو۔ٹریگر آن کرتے ہی یہ گن
سامنے آکر قیامت ڈھانے کے لئے حرکت میںآ جاتی ہے ۔طیارے کو ٹیسٹ کرنے والی
ٹیم جس میں ایئرفورس، نیوی اور میرین کور کے ارکان شامل ہیں، انہیں توقع ہے
کہ آخری مراحل کے زمینی ٹیسٹ مکمل کر کے موسم خزاں میں ایئربورن گن کی
ٹیسٹنگ شروع کی جا سکے گی۔
جیٹF-35Aکو مشہور زمانہ طیارہ ساز کمپنی لاک ہیڈ مارٹن نے ڈیزائن کیا
ہے۔طیارے میں ایک آپریشنل گن 2017میں پروگرام کے سسٹم کی تیاری اور کامیاب
مظاہرہ کے مراحل طے ہونے کے بعد نصب کر دیجائے گی۔گن ٹیسٹنگ کے پہلے مرحلے
کا آغاز9جون کو ہواجس کے بعد اس کی فائرنگ گنجائش کوبتدریج بڑھا کر17اگست
کو 181راﺅنڈ تک پہنچایا گیا۔گراﺅنڈ ٹیسٹ ایک ایسا سافٹ ویئر استعمال کرتے
ہوئے کئے گئے جو کہ پرواز کے دوران کام کرتا ہے۔طیارے پرمزید ٹیسٹ اگلے سال
کئے جائیں گے جس کے دوران GAU-22/Aسسٹم کو جیٹ کے مکمل ایویانکس اور مشن
سسٹم کی صلاحیتوں سے ہم آہنگ کر دیا جائے گا۔ اس کے بعد کے مرحلے میں معیار
کے اثرات بشمول شعلوں کے منہ بند کرنے، آتشیں اسلحہ کے دھماکے سے نکلنے
والی روشنی ،انسانی عناصر اور فلائنگ کے معیار کا مشاہدہ کیا جائے
گا۔موجودہ اسٹیلتھ جیٹ کی حالیہ نسل کی ڈیزائننگ فوج کی تاریخ میں ایک
انتہائی جدید ترین ہتھیار کی تیاری ہے جوکہ نت نئے فوائد کے ساتھ ساتھ بے
شمار نئے مسائل کاسبب بھی ہے۔حقیقت یہ ہے کہ350بلین ڈالر سے زائد کے
اخراجات کے باوجودامریکی ملٹری پالیسی سازوں کی توقعات پوری کرنے میں ناکام
رہی ہے۔جدید ترین اسٹیلتھ ٹیکنالوجی کے حامل طیارے کی تیاری کامطلب یہ ہے
کہ اس میں اب تک پینٹاگون کی جانب سے تیار کئے جانے والے کسی بھی لڑاکا
طیارے سے زیادہ مالی وسائل اور ٹیکنالوجی استعمال کی جا رہی ہے۔تاہم امریکی
تاریخ کے جدید ترین طیارے کو گزشتہ جولائی میں 40سال پرانے طیارے نے گراﺅنڈ
ٹیسٹس میں مات دے دی ہے۔ اس کے نتیجے میں عسکری حلقوں میں یہ سوال اٹھایا
جا رہا ہے کہ کیا ہتھیاروں کی تیاری کے لئے امریکی صنعت زوال کاشکار ہو گئی
ہے۔
ٹیسٹ پائلٹ نے F35-Aکی کارکردگی کی مذمت کرتے ہوئے دعویٰ کیاہے کہ نئے
طیارے کی خراب کارکردگی سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ دوسرے ہم عصرطیاروں کی
کارکردگی سے موازنہ کرنے کے لئے کسی طور موزوں نہیں ہے۔ دوسری جانب
پینٹاگون نے اپنے نئے کھلونے کے دفاع میں اچھل کود کرتے ہوئے یہ موقف
اختیار کیا ہے کہ ٹیسٹ میں استعمال ہونے والا F35-Aاپنے فرنٹ لائن طیارے کے
معیارکے مطابق کمپونینٹس سے لیس نہیں تھا اور اس کی اسٹیلتھ کوٹنگ بھی نہیں
کی گئی تھی۔تاہم اس موقف کے باوجود 1970میں ڈیزائن ہونے والےF16کے خلاف _©
ڈاگ فائٹ _© کے مایوسی پر مبنی نتائج نےF35-Aپر اعتماد بحال کرنے میں کوئی
مدد نہیں کی ۔حتیٰ کہ انہوں نے500,000ڈالر کی لاگت سے اپنی مرضی کے مطابق
ہیلمٹ کی ڈیزائننگ کو بھی ہدف تنقید بنایا ہے جس کا مقصد پائلٹ کو طیارے کے
باہر360ڈگری تک کا جائزہ لینے کی سہولت فراہم کرنا تھا۔انہوں نے دعویٰ کیا
کہ اس ہیلمٹ کے نتیجے میں پائلٹ کوکاک پٹ میں اپنا سر ہلانے جلانے میں بھی
مشکل پیش آئے گی۔ ٹیسٹ پائلٹ نے اپنی پانچ صفحے پر مشتمل رپورٹ میں لکھا ہے
کہ طیارے کے عقب میں دیکھنے کے لئے کنوپی کے اندرونی حصے میں ہیلمٹ کا سائز
ضرورت سے بہت بڑا ہے۔یہ امر قابل ذکر ہے کہ اپنے دور کے جدید ترین طیارے کی
تیاری میںمتعدد رکاوٹوں کے باعث 8سال کی تاخیر ہوئی ہے جبکہ اخراجات بڑھ کر
اب تک 263ارب ڈالر سے تجاوز کر گئے ہیں۔
F35-Aکی تیاری کے لئے اخراجات میں اضافہ کی بہت سی وجوہات ہیںجس میں
انجنیئرنگ کے مسائل بھی شامل ہیں۔ابتدائی ٹیسٹ کے سلسلے میں پانچویں نسل کا
یہ طیارہ گزشتہ مئی میں ٹیک آف کے دوران شعلے بھڑک اٹھنے کے باعث پھٹ گیا
تھا۔ایئرفورس کے لیفٹنٹ جنرل کرس بوگڈان جو کہ F35پروگرام کے انچارج بھی
ہیںکہا کہ طیارہ کی تیاری میں معمولی نوعیت کی غلطیاں ہوئی ہیں۔ان میں ہر
طرح کی مگر چھوٹی غلطیاں شامل ہیں۔ونگ ٹپ لائٹس جوکہ فیڈرل ایوی ایشن
ایڈمنسٹریشن کے معیار کے مطابق نہیں ہیں۔ان سے لے کر ٹائروں کے معیار تک جو
کہ لینڈنگ کی مطلوبہ صلاحیت نہیں رکھتے ایسی غلطیاں ہیں جن کا بآسانی مداوا
کیا جا سکتا ہے۔ملٹری کے اعلیٰ افسران اسٹیلتھ ملٹی رول فائٹر کی مدح سرائی
کرتے نہیں تھکتے، انہوں نے پیش گوئی کی ہے کہ F35-Aاپنی چوتھی جنریشن کے
پیشرﺅوں سے انتہائی اعلی ٰہوں گے۔میرین لیفٹنٹ جنرلرابرٹ شمیڈل کاکہنا ہے
کہ یہ طیارے اڑنے والے کمپیوٹرز کی مانند ہیں اور یہ دشمن کی جانب سے اپنا
سراغ لگائے جانے سے5 سے10گنا تیزی سے دشمن کے طیارے کا سراغ لگانے کی اہلیت
رکھتے ہیں۔ پینٹاگون نے ان طیاروں کے بارے میں تکینکی معلومات بھی فراہم کی
ہیں جبکہ اس کا کہنا ہے کہ جدید ٹیکنالوجی کے حامل اسٹیلتھ طیارے نہ صرف
امریکی دفاع میں اہم کردار ادا کریں گے بلکہ اتحادی فورسز کو بھی دشمن پر
برتری دلانے میں مرکزی کرداد ادا کریں گے۔
F35 اسٹیلتھ ملٹی رول فائٹر ہے جس نے پہلی پرواز15دسمبر2006میں کی۔ اس کی
تیاری تین کٹیگریز میں کی جارہی ہے جس کے لئے اخراجات بھی ظاہر کئے گئے
ہیں۔ F35-A کی قیمت98ملین ڈالر بتائی گئی ہے جس کے بعدF35-Bکی تیاری مکمل
ہوگی جس کی قیمت 110ملین ڈالر ہوگی۔ تیسرے مرحلے میںF35-Cمارکیٹ میں لائے
جائیں گے جن کی تخمینی لاگت116ملین ڈالر ہوگی۔نومبر2014تک 115طیارے بنائے
گئے تھے۔طیارے کی لمبائی15.67میٹر رکھی گئی ہے جبکہ ونگز کی لمبائی10.70
میٹرہے طیارے کی اونچائی4.33میٹر ہے۔F35 سیریز کے اسٹیلتھ طیاروں کی ایک
اہم خصوصیت اس میں کم قطر والے بم(SBD11) کی تنصیب ہے۔یہ بم اپنے ہدف کا
تعاقب لیژر ، انفراریڈ اور ریڈار ہومنگ استعمال کرتے ہوئے کرتا ہے۔یہ کسی
بھی موسم میں خواہ تاریک رات کیوں نہ ہو اپنے ٹھکانے کو بے مثال درست طریقے
سے نشانہ بنالیتا ہے اس سپر ویپن کے بارے میں پیش گوئی کی گئی ہے کہ یہ
پینٹاگون کے فضائی حملوں کے ذخیرے میں انتہائی ورسٹائل فضاءسے زمین پر حملہ
کرنے والے میزائل سے لیس ہوگا۔ اس طیارے کو جن بموں ایس بی ڈی ۱۱ سے لیس
کیا گیا ہے اس کی قیمت 250,000ڈالر ہے جبکہ امریکی فوج17,000سے زائد ایسے
بم خریدنے میں دلچسپی رکھتی ہے۔
قبل ازیں امریکی ائیر فورس چار ہزار میل فی گھنٹہ کی رفتار سے اڑنے والے
ایک جدید ترین جنگی جہاز سپر ہائی ٹیک ایس آر 72کا کامیاب تجربہ کر چکی ہے۔
یہ طیارہ اپنے ٹارگٹ کو ٹھیک ٹھیک نشانہ بنانے کے علاوہ جاسوسی کے لیے بھی
کام کرے گااور 2018ءمیں مکمل طور پر تیار ہو کر 2020ء میں آپریشن کیلئے
امریکن ائیر فورس کے حوالے کر دیا جائیگا۔ایس آر 72کو دنیا کا سب سے خطرناک
‘ جدید ترین اور برق رفتار جنگی طیارہ قرار دیا جا رہا ہے۔پینٹاگون میں
جدید ترین ہھتیاروںکی تیاری کا ایک ا ہم پہلو یہ بھی ہے کہ ابھی ہھتیار صرف
ڈیزائننگ کے مرحلے میں ہوتا ہے کہ امریکی و اسرائیلی وزارت دفاع کے درمیان
جدید ہھتیار کی فروخت کے معاہدہ پر دستخط ہونے کی خبریں میڈیا کی زینت بن
جاتی ہیں۔F35سیریز کے طیاروں کے تاحال حتمی ٹیسٹ بھی مکمل نہیں ہوئے ہیں کہ
اسرائیل نے F-35 لڑاکا طیارے خریدنے کے معاہدے پر دستخط کر دیئے ہیں۔
معاہدے کی مالیت پونے تین ارب ڈالر ہے جسکے تحت امریکا سال 2015کے آخر اور
2017 کے درمیان اسرائیل کو 20 ایف35 لڑاکا طیارے فراہم کریگا۔ امریکی محکمہ
دفاع پنٹاگون کے ذرائع نے معاہدے پر دستخط کی تصدیق کی ہے۔ریڈار پر نظر نہ
آنے والے F-35 طیارے کو دنیا کا جدید ترین لڑاکا طیارہ سمجھا جاتا ہے۔
دلچسپ امر یہ ہے کہ امریکی محکمہ دفاع جس زور شور سےF35سیریز کے جدید ترین
اسٹیلتھ طیاروں کی تیاری پر کام کر رہا ہے اسی تیزی سے دیگر ترقی یافتہ
ممالک نئے امریکی طیارے کے بارے میں سن گن لینے کی کوششوں میں مصروف ہیں۔
گوکہ روسی انٹیلی جنس ان طیاروں سے متعلق تکینکی معلومات کے حصول کے لئے
کافی سرگرم ہے مگر چین اس سے بھی بازی لے گیا ہے جس کے بارے میں ملٹری
رپورٹس میں بتایا گیا ہے کہ وہ پہلے ہی اس طرز کے جدید طیاروں کی تیاری پر
کام شروع کر چکا ہے جوکہ تکمیل کے قریب ہیں۔ جرمن رسالے "ڈیر سپیگل" نے
ایڈوارڈ سنوڈن کے حوالے سے لکھا ہے کہ چین نے امریکہ کے پانچویں نسل کے
جنگی طیارے ایف 35 کے بیشتر کوائف ہتھیا لیے ہیں اور انہیں اپنے طیارے جے
31 بنانے میں استعمال کر رہا ہے۔ چینی ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ بات غلط ہے
کہ جے 31 طیارہ ایف 35 کی کسی قسم کی نقل ہے۔ یہ بالکل ہی دوسرا طیارہ ہے
جو ایف 35 سے شکل اور ڈیزائن کی حد تک مماثلت رکھتاہے۔ اس طیارے میں ایف 35
کے برعکس دو انجن ہیں۔جے 31 کو اس لئے کامیاب تصور کیا جارہا ہے کہ یہ ایسا
پہلا جنگی طیارہ ہوگا جو کم معروف ٹیکنالوجی کے تحت بنایا گیا ہے اور سستا
بھی ہے۔ اس کے انجن کی کارکردگی کسی حد ئک ایم آئی جی 29 کے انجن جیسی
ہوگی۔ جے 31 میں وہ تمام خوبیاں ہونگی جو چین کے جنگی طیاروں جیسے کہ جے 10
بی میں ہیں۔ ان خوبیوں میں یہ خوبی بھی شامل کی جائے گی کہ یہ راڈار پہ کم
سے کم نظر آ سکے۔ بہر طور یہ طیارہ پہلے سے موجود چوتھی نسل کے جنگی طیاروں
کے ساتھ مسابقت ضرور کرے گا۔ (یہ آرٹیکل روزنامہ جنگ میں شائع ہو چکا ہے)
|
|