ابھی تو کل پرسوں کی بات ہے

گھنٹے دن اور ماہ و سال' محض گنتی سے تعلق رکھتے ہیں' ورنہ وقت کا پنچھی سوچ کی رفتار سے کہیں بڑھ کر' تیز رفتار ہے۔ ابھی ابھی سورج رات کی سیاہی کا سینہ چیرتا ہوا' بڑے جاہ وحشم سے' مشرق کی آغوش سے نمودار ہوا تھا۔ دفتر' کالج یا پھر مزوری پر جانے کی تیاری میں' پتا بھی نہ چلا کہ گھڑی کی چھوٹی سوئی آٹھ سے' تھوڑا سا سہی' آگے بڑھ گئی تھی۔

سارا دن' کام کاج میں گزر گیا اور سورج کی بینائی دھندلا گئی۔ جب کام پر آیا تھا' تو سورج کی آنکھوں میں' میں' کی تلخ مٹھاس تھی اور اب وہ' یرقانی بینائی سے' زندگی کی بھاگ دوڑ کو دیکھ رہا تھا۔ رستے میں ضروری چیزیں اور بچوں کے لیے کچھ خریدتا ہوا' گھر کی جانب بڑھا۔ گھر آتے آتے' سورج کی آنکھوں میں کالا موتیا اتر آیا تھا۔ ابھی ابھی دن چڑھا تھا اور رات بھی ہو گئی' کچھ پتا بھی نہ چلا اور وقت گزر گیا ۔

یہ کل پرسوں ہی کی تو بات ہے' پروفیسر الہ یار خاں' پروفیسر حاجی اسلم گورنمنٹ اسلامیہ کالج' قصور' پاکستان کے پرنسپل تھے۔ آج پروفیسر حاجی اسلم بڑی شان سے' پرنسپل کی کرسی پر مسلسل اور متواتر ناک میں انگلی مارتے ہوئے' برجمان تھے. اگلے ہی دن' پروفیسر فضل عظیم شاکر بیٹھے ہوئے تھے' جب کہ حاجی صاحب سائیڈ چیئر پر تشریف رکھتے تھے۔ یہ سائیڈ چیئر بھی' ان کے پاس زیادہ دیر تک نہ رہی' ڈاکٹر اختر علی صاحب تشریف لے آئے۔ ان کا دور' تقریبات اور گہماگہمی کا دور تھا۔ آنکھ کا موسم ابھی سمبھل نہ پایا تھا' بل کہ پلک جھپکتے سے پہلے ہی گزر گیا' تاہم اپنی یادوں کی کھنک اپنے پیچھے چھوڑ گیا۔

لوگ کہتے ہیں کہ اس بات کو' بیس سال ہونے کو ہیں' لیکن مجھے تو یہ کل پرسوں کی بات لگتی ہے۔ اس تعلیم و تربیت کی امین کرسی پر' ڈاکٹر ذوالفقار علی رانا نے بھی تشریف رکھی۔ انہوں نے اس کے تقدس' احترام اور وقار کی بھرپور انداز میں' پاسداری کی' تب ہی تو آج بھی' ان کی صلح کل کی روایت کی خوش بو' محسوس کی جا سکتی ہے۔ ان کا دور تعلیمی' تربیتی اور تقریبی اعتبار سے' بڑا ہی خوب صورت تھا۔ وہ اس معاملہ میں بڑے سخت اور پابند تھے اور پابند رکھتے تھے۔

اس ذیل میں پروفیسر محمد حنیف بھٹی' شعبہ معاشیات کالج ہذا کا کہنا ہے:
ڈاکٹر صاحب' تدریسی معاملات میں بڑے سخت اور اٹل تھے۔ رواں سیشن میں' امتحانی ڈیوٹیوں کے لیے فارغ نہیں کرتے تھے۔ ان کے نزدیک کلاس ورک پہلے' باقی سب کچھ اس کے بعد' اصول تدریس ہے۔

ڈاکٹر کنور عباس حسنی' اسی کالج سے بی ایس سی کرکے گیے ہیں اور اب ڈیکن یونیورسٹی اسٹریلیا کے شعبہ معاشیات سے وابستہ ہیں' کا کہنا ہے:
ڈاکٹر رانا صاحب طلبا کے لیے' ریشم سے کہیں بڑھ کر نرم وملائم گوشہ رکھتے تھے۔ کلاسز کا راؤنڈ لیتے تھے۔ اکثر راہ چلتے پوچھ لیتے
' کیوں میاں کیسی پڑھائی جا رہی ہے۔'

ڈاکٹر صاحب میں' قدرت نے درگزر کرنے کا مادہ' حد درجہ رکھ دیا تھا۔ باقول پروفیسر ریاض محبوب شعبہ ء اسلامیات کالج ہذا:
کار قضا کسی معاملے میں اختلاف یا تلخی ہو جاتی' تو اگلے ہی لمحے بھول جاتے اور یوں ملتے' جیسے کچھ ہوا ہی نہ ہو۔

حقیقت یہ ہے کہ اقتدار کی کرسی پر بیٹھے شخص میں' اس حوالہ سے برداشت کا مادہ ہوتا ہی نہیں۔ اختلاف اور گستاخی' اس کے دل ودماغ میں' منفی ردعمل بھر دیتی ہے اور پھر تاآخر گستاخی یا اختلاف کرنے والے کو' اس کا بھگتان کرنا پڑتا ہے۔ ماتحت کو دوران ملازمت' بیسیوں کام رہتے ہیں۔ اسے بار بار ذلت نشیں ہونا پڑتا ہے۔ ڈاکٹر صاحب کی یہ خوبی' ان کے لایعنی مخالف بھی تسلیم کریں گے' کہ وہ ہر کسی کا جائز کام فورا سے پہلے' کرنے کی عادت رکھتے ہیں۔

ڈاکٹر صاحب کا یہ طور اور چلن' اوروں سے قطعی ہٹ کر رہا ہے کہ انہوں نے ہر کسی سے مسلک اور نظریہ سے بالاتر ہوکر سلام دعا اور دوستی رکھی۔پروفیسر ریاض محبوب کا کہنا ہے:
ڈاکٹر صاحب فراخ دل و دماغ کے مالک ہیں۔

غالبا یہ ہی ان کا مسلک اور نظریہ ہے. اپنا بندہ یا اپنے نظریہ کا بندہ ہے' آج کا وتیرہ ٹھہر گیا ہے۔ اس سے' سچائی اور انصاف کو' شدید نقصان پہنچا ہے۔ جس کے باعث بدامنی اور بےچینی نے' راہ پائی ہے۔ ڈاکٹر صاحب اس طور سے دور ہی رہے ہیں۔

مہمان نواز' دل میں جلد جگہ بنا لیتے ہیں۔ یہ خوبی ان میں بدرجہ اتم موجود رہی ہے۔ اس ذیل میں' اپنے پرائے یا پھر' کم یا زیادہ حیثیت کو مدنظر نہیں رکھتے۔ پروفیسر زاہد احمد شیخ' شعبہ اسلامیات' کالج ہذا کا کہنا ہے:
ڈاکٹر صاحب فراخ دل' فراخ طبع اور فراخ دسترخوان کے مالک رہے ہیں.

ڈاکٹر ارشد شاہد شعبہ پنجابی' کالج ہذا ان کی گریب اور کم زور نواز پالیسی کی' تحسین کرتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے:
ڈاکٹر رانا صاحب ہمیشہ گریب اور کم زور نواز رہے ہیں۔ حق اور سچ کے ضمن میں' وہ ہولے اور پہارے پاسے کے قائل نہیں رہے۔ انہوں نے ہمیشہ' حق اور سچ ہی کو پہارا سمجھا ہے

ڈاکٹر رانا صاحب' بڑے مردم شناس ہیں۔ کالج کی ڈیوٹیاں' شخص کے ذوق اور فکری رجحان کے مطابق سونپتے۔ مجھ ناچیز فانی کو' لکھنے پڑھنے کا شوق رہا ہے' اس حساب سے الادب اور پریس امور میرے سپرد تھے۔ پروفیسر محمد حنیف بھٹی ایک بڑا دل چسپ واقعہ سناتے ہیں۔ ان ہی کی زبانی سنیے۔
'میری ٹائم ٹیبل بنانے کی ڈیوٹی تھی۔ میرے خلاف' ایک صاحب کی درخواست آ گئی۔ میں طلبی سے پہلے ہی'حاضر ہو گیا اورعرض کیا' یہ فریضہ کسی اور کو سونپ دیا جائے۔
انہوں نے بڑی سنجیدگی سے کہا: ہاں یہ ڈیوٹی آپ سے لے لی جائے گی۔
پاس ہی بیٹھے' ایک پروفیسر صاحب نے پوچھا: کس کو دی جائے گی۔
انہوں پھر سنجیدگی سے کہا: پروفیسر محمد حنیف بھٹی کو'
وہ معاملے کی تہہ تک پہچ چکے تھے۔ انہیں کوئی شخص' لائی لگ ہونے کا طعنہ نہیں دے سکتا۔ گویا جو کرتے ہیں' حقائق کی روشنی میں کرتے ہیں۔

ڈاکٹر رانا صاحب' شروع ہی سے' بڑے ذمہ دار اور فرض شناس واقع ہوئے ہیں۔ باقول پروفیسر ریاض محبوب' ان کی درخواست پر' انہیں 2013 کے الیکشن میں'الیکشن کمشن کا چیئرمین نامزد کیا گیا۔ انہوں نے یہ فریضہ' بڑی ذمہ داری' ایمان داری اور خوبی سے انجام دیا۔ اس ذیل میں کسی فریق کو شکایت کا موقع نہ ملا یا دیا گیا۔

پروفیسر سرفراز احمد معین' حالیہ پرنسپل' کالج ہذا ان کے کلاس فیلو اور بہترین دوستوں میں رہے ہیں۔ گویا شخصی اعتبار سے' وہ اوروں سے زیادہ قریب رہے ہیں۔ ان کا کہا بڑی عجیب اور حیرت انگیز معنویت کا حامل ہے۔
ڈاکٹر رانا صاحب میں' جہاں اور بہت ساری خوبیاں موجود ہیں' وہاں یہ خوبی کہ مخالفوں سے دوستی کا رشتہ استوار رکھنا' ان کی فطرت ثانیہ کا درجہ رکھتی ہے۔

کسی ادبی پرچے میں شامل تحریریں' تحقیقی حوالہ کی نہیں ہوتیں' تاہم ایک آدھ تحریر بھی موجود ہو' تو وہ پرچہ زندہ اور یادگار رہتا ہے۔ ڈاکٹر رانا صاحب کے عہد میں' شائع ہونے والا 'الادب' جہاں زیادہ تر کالج کے طلبا اور اساتذہ کی تحریروں پر استوار ہے' وہاں اپنے دامن میں کہکشانی رنگ و حسن بھی رکھتا ہے۔ شاید ہی ادب کا کوئی گوشہ ہو گا' جو اس کا حصہ نہ بن سکا ہو گا۔ یہاں تک کہ' لسانیات سے متعلق تحریریں اس میں شامل ہیں۔ یہ شمارہ' ان کے ادب دوست اور ادب نواز ہونے کا' منہ بولتا ثبوت ہے۔

سننے میں آ رہا ہے کہ ڈاکٹر رانا صاحب' کچھ ہی دنوں بعد' ریٹائر ہو رہے ہیں۔ حیرت ہوئی' کہ ابھی تو کل پرسوں کی بات ہے' جب یہاں سے گیے تھے' چالیس سے کچھ ہی زیادہ کے ہوئے تھے۔ لاہور جا کر' یا لاہور نے' انہیں ساٹھ سال کا کر دیا۔ وقت اتنی تیزی سے گزر گیا' کہ پتا بھی نہ چل پایا۔ یہ تو ویسی ہی بات ہوئی' کہ ناشتے کا آخری لقمہ ابھی انگلیوں کی گرفت میں ہی تھا' کہ ملازم سروس بس نے ہارن دے دیا' کہ دفتر روانگی کا ٹائم ہو گیا ہے۔ وقت کی لگام' شخص کے ہاتھ میں نہیں ہے' ورنہ ڈاکٹر رانا سے نفیس' شفیق' ادب دوست اور ادب نواز شخص کو' ساٹھ کے قریب تک نہ جانے دیا گیا ہوتا۔
maqsood hasni
About the Author: maqsood hasni Read More Articles by maqsood hasni: 184 Articles with 191159 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.