مسئلہ کشمیر،ایک سینئر سفارت کار کے انکشافات!

حریت کانفرنس کے اسلام آباد آفس میںحریت کانفرنس کے سنیئر رہنما غلام محمد صفی زیر صدارت منعقدہ ایک تقریب کے مہمان خصوصی پاکستان کے ایک سینئر سفارت کار خالد سلیم تھے۔ خالد سلیم کئی ملکوں میں پاکستان کے سفیر کے علاوہ کئی اہم عہدوں پر فائز رہے۔خالد سلیم 1971 ء سے ماضی قریب تک پاکستان اور بھارت کے درمیان ہونے والے مزاکرات میں شامل رہے اور دونوں ملکوں کے ان مزاکرات کے حوالے سے کئی اہم دستاویزات انہی کی تحریر کردہ ہیں۔ خالد سلیم شملہ سمجھوتے میں بھی اس وقت کے وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کے ہمراہ اس معاہدے کا حصہ رہے۔ خالد سلیم نے سوال و جواب کی اس نشست میں کئی دلچسپ اور اہم واقعات بیان کرنے کے علاوہ ''آف دی ریکارڈ''کئی اہم انکشافات بھی کئے
گزشتہ دنوں حریت کانفرنس کے اسلام آباد آفس میںحریت کانفرنس کے سنیئر رہنما غلام محمد صفی زیر صدارت منعقدہ ایک تقریب کے مہمان خصوصی پاکستان کے ایک سینئر سفارت کار خالد سلیم تھے۔ خالد سلیم کئی ملکوں میں پاکستان کے سفیر کے علاوہ کئی اہم عہدوں پر فائز رہے۔خالد سلیم 1971 ء سے ماضی قریب تک پاکستان اور بھارت کے درمیان ہونے والے مزاکرات میں شامل رہے اور دونوں ملکوں کے ان مزاکرات کے حوالے سے کئی اہم دستاویزات انہی کی تحریر کردہ ہیں۔ خالد سلیم شملہ سمجھوتے میں بھی اس وقت کے وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کے ہمراہ اس معاہدے کا حصہ رہے۔ خالد سلیم نے سوال و جواب کی اس نشست میں کئی دلچسپ اور اہم واقعات بیان کرنے کے علاوہ ''آف دی ریکارڈ''کئی اہم انکشافات بھی کئے ۔خالد سلیم نے کہا کہ طالب علمی کے زمانے میں یہ فقرہ پڑھا اور سنا کرتے تھے کہ قائد اعظم محمد علی جناح نے کہا تھا کہ کشمیر پاکستان کی شہ رگ ہے۔ اس وقت ہمیں معلوم نہ تھا کہ اس کا کیا مطلب ہے لیکن بعد میں جب غور کیا اور جب اس خطے کی 'سٹڈی' کرنے کا موقع ملا ،مسئلہ کشمیر کو قریب سے دیکھا تو قائد اعظم کی اس بات کی سچائی واضح ہوئی۔انہوں نے اس بات پہ افسوس کا اظہار کیا کہ انہیں کبھی کشمیر جانے کا موقع نہیں ملا۔کشمیر کو دیکھنے کا بڑا شوق تھا۔اس' اشو 'کے ساتھ میرا براہ راست تعلق 1971ء میں شروع ہوا،1971ء کی جنگ شروع ہونے والی تھی تو میں اس وقت میں وزارت خارجہ میں شعبہ انڈیا کا انچارج ڈائریکٹر تھا ۔بھٹو صاحب کے ساتھ وفد میں شملہ گیا،شملہ کے بعد ہونے والی devolpmentsمیں ،میں نے حصہ لیا،1974ئ۔1974ء میں ہندوستان نے ایٹمی دھماکہ کیا ،اس پر وزارت خارجہ میں یہ معاملہ جنیوا میں 'ڈس آرمنٹ کمیٹی' میں اٹھانے کا فیصلہ ہوا، اور مجھے جنیوا بھیجا گیا۔کچھ عرصہ کے وقفے کے بعد جب میں 1991میں فارن آفس میں واپس آیا ،اس وقت کشمیر میں جدوجہد بہت تیز ہو گئی تھی،اس وقت سارا کام کشمیر کے بارے میں تھا۔ہم ہندوستان جایا کرتے تھے بات چیت کے لئے ،دہلی میں سید علی شاہ گیلانی ،میر واعظ عمر فاروق سے بھی ملاقات ہوتی تھی،جب بھی ہم دہلی جاتے تو وہ وہاں آتے اور ہم سے ملاقات ہوتی تھی۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان اور کشمیر کا تعلق کسی صورت ٹوٹ نہیں سکتا،یہ ایسا تعلق ہے جو ہمارے خون میں رچا ہوا ہے ۔ نئی نسل کو یہ سمجھانے کی ضرورت ہے ،اس مقام پر لے جانے کی ضرورت ہے کہ معلوم ہو کہ کشمیر کی پاکستان کے لئے کیا اہمیت ہے ۔اور یہی میری امید ہے کہ کشمیر کے لئے بھی پاکستان کی وہی اہمیت ہے ۔انہوں نے کہا کہ کشمیر کی جدوجہد لمبی ہو گئی،جدوجہد ہمیشہ لمبی ہوتی ہے لیکن میرا ایمان ہے کہ اللہ کامیابی سے ہمکنار کرائے گا،انشاء اللہ۔امید ہے کہ ہماری نئی نسل جو آئے گی ،وہ بھی اس جدو جہد کو بھولے گی نہیں ۔خالد سلیم نے کہا کہ میں نے کشمیر کو بہت 'سٹڈی' کیا ہے ،پاکستان اور بھارت کے درمیان ہونے والی بات چیت میں شامل رہا۔انہوں نے کہا کہ پاکستان اور بھارت کے درمیان ہونے والے 'کمپوزڈ ڈائیلاگ'' میرا ڈرافٹ کردہ تھا،اس وقت بھارت میں بہت ماڈریٹ حکومت تھی،اندر کمار گجرال صاحب ،میں نے محسوس کیا کہ وہ بہت سمجھدار ،تحمل رکھنے والے اور سوچنے ،سمجھنے والے آدمی تھے، افسوس ہوا کہ ان کو جلدی ہٹا دیا گیا،اگر وہ کچھ عرصہ رہتے تو شاید بات چل پڑتی۔پاکستان اور بھارت کا کمپوڑٹ ڈائیلاگ والا جائنٹ ڈیکریریشن ہوا ،وہ ڈرافٹ میرا تیار کردہ تھا،ہندوستان کے فارن سیکرٹری سلمان حیدر اور میں نے یہ ڈرافٹ تیار کیا،جون1992 میں اسلام آباد میں ہونے والے مزاکرات میں بھارت کے فارن سیکرٹری سلمان حیدر تھے،سلمان حیدر نے میڈیا کے سامنے بات کرنے کے سوال پر کہا کہ ''ہماری طرف سے بھی خالد سلیم ہی بات کریں گے''۔خالد سلیم اس وقت وزارت خارجہ کے ترجمان بھی تھے،دونوں ملکوں کے امور خارجہ کے حکام کی اس پریس کانفرنس پر برطانوی نشریاتی ادارے 'بی بی سی' نے ٹی وی پر پٹی چلائی کہ ''خالد سلیم،جائنٹ سپوکس پرسن انڈیا اینڈ پاکستان''۔ اس کے بعد میں 'او آئی سی' میں چلا گیا۔اب لگتا ہے کہ حالات آگے جانے کے بجائے پیچھے چلے گئے ہیں،جو افسوس کی بات ہے۔

سوالات کے جواب میں خالد سلیم نے کہا کہ شملہ سمجھوتے سے متعلق دو تین چیزیں بہت غلط سمجھی جاتی ہیں،ایک پروپیگنڈہ جو ہندو ستان نے چلایا ،اس پر بہت سارے لوگوں نے یقین کیا،ہماری بھی کئی لوگ کہتے ہیں کہ شملہ سمجھوتے میں یہ کہا گیا کہ اب کشمیر کا فیصلہ 'بائی لیٹرل'(باہمی) ہو گا، عالمی سطح پر نہیں ہو گا،یہ بالکل غلط بات ہے، شملہ سمجھوتے میں ہم نے پاکستان کا بریف بنایا تھا، اور اس بریف میں دو تین چیزیں لکھی تھیں کہ ان کے بغیر شملہ سمجھوتہ نہیں ہو سکتا،ایک اس میں چیز یہ تھی کہ یونائیٹڈ نیشن کے چارٹر کا ذکر آنا بہت ضروری ہے،جتنے بھی عالمی' ایگرمینٹس' ہوتے ہیں اور جتنی بھی عالمی بات چیت ہوتی ہے وہ یونائیٹڈ نیشن کے چارٹر کے تحت ہوتی ہیں۔ یونائیٹڈ نیشن کے چار ٹر میںمختلف باتوں کے علاوہ یہ بھی لکھا ہوا ہے کہ یو این چارٹرکے لئے سلامتی کونسل کی قرار دادوں کی کیا اہمیت ہے ۔دوسرا ہم نے یہ کہا تھا کہ ہماری ایک recogniseپوزیشن ہے ،جس کے تحت ہم نے کمٹ کیا ہوا ہے کشمیریوں کے ساتھ کہ ان کو حق خود ارادیت دلوائیں گے اور ہمارے ساتھ یواین سیکورٹی کونسل نے بھی یہ acceptکیا ہے اور اس وقت ہندوستان نے بھی اسےaccept کیا ہے۔وہ ''سیف گارڈز'' شملہ میں کی گئیں،شملہ سمجھوتے کے preambleکے شروع میں ہی لکھا ہوا ہے کہ relation between te two countries will be governed by the charter of the united nations ۔دوسرا جب بعد میں کشمیر کا ذکر آتا ہے ،اس میں ہم نے لکھا کہ ''with prejidec to the recognize posiition of either side''،ہماری recognizeپوزیشن یہ ہے کہ کشمیر پونائیٹڈنیشنز سیکورٹی کونسل ریزو لوشنز کے تحت کشمیریوں کی مرضی سے ہو گا، اور اگر ہم نے محفوظ کی ہے وہ recognizeپوزیشن ،تو یہ کیسے مانا جا سکتا ہے کہ ہم نے مسئلہ کشمیر کو باہمی معاملہ تسلیم کیا ہے ؟چارٹر میں مسئلے کے حل کے طریقے بھی دیئے ہوئے ہیں کہ اس میں بات چیت بھی شامل ہے ۔تو بات چیت ایک ذریعہ ہے ،اس کا یہ مطلب نہیں کہ باقی ذرائع چھوڑ دیئے ہیں۔شملہ سمجھوتہ کافی ٹینشن میں کافی پریشر میں کیا گیا،ہم شملہ میں تین چار دن رہے۔اندرا گاندھی بیٹھی ہوئی تھیں کہ recognizeپوزیشن کا ذکر میں نہیں کروں گی،ساڑھے بارہ بجے رات کو فیصلہ ہوا اور صبح ڈھائی بجے اس پر دستخط ہوئے ،تاریخ 2کی ڈالی گئی لیکن اصل فیصلہ اور دستخط3کو ہوئے۔مسئلہ کشمیر کے حل بارے مشرف حکومت کے وزیر خارجہ خورشید قصوری کے دعوے کے سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ اس وقت کوئی کچھ بتانے کو تیار نہیں تھا،کوئی بات کرنے کو تیار نہیں تھا۔

ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ گلگت بلتستان کے علاقے کشمیر کی جنگ شروع ہونے سے پہلے آزاد ہو چکے تھے،اور یہ کبھی بھی کشمیر کے مہاراجہ کے تحت نہ آتے تھے،پہلے بھی ان کا مہاراجہ کے ساتھ یہ ایگرمنٹ تھا کہ اگر ہمارے پر حملہ ہو تو ہمیں بچائیں۔یہ کبھی بھی کشمیر کی سلطنت کا حصہ نہ تھے، کشمیر کی قرار دادوں کے بعد یہاں سے کسی کی طرف سے یواین سیکورٹی کونسل کے چیئر مین کو خط لکھا گیاکہ ہم چاہتے ہیں کہ گلگت بلتستان کو بھی کشمیر کا حصہ گنا جائے۔اس کی یہاں دلیل یہ دی گئی کہ اس طرح رائے شماری میں پاکستان کے ووٹ بڑھ جائیں گے۔اس وقت کچھ لوگ ایسے تھے جو معاملے کوالجھانا چاہتے تھے۔سیاچن کے بارے میں ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ بہت ساری انٹر نیشنل اٹھارٹیز نے یہ کہا ہے کہ اگر سیاچن گلیشئر سے فوجیں نہ ہٹیں تو سیاچن گلیشئر پگھلنا شروع ہو جائے گا اور اگر یہ پگھلنا شروع ہو گیا تو اس کے نیچے کے تمام علاقے بہہ جائیں گے اور وسیع پیمانے پر شدید تباہی پھیلے گی۔اس تناظر میں سیاچن پر جو بات چیت ہوتی ہے وہ مسئلہ کشمیر سے متعلق نہیں ہے ،اس بارے میں بات ہو رہی ہے کہ سیاچن کے علاقے کو خالی کیا جائے ،سیاچن کو بچانے کے لئے ،۔انہوں نے کہا کہ investigationsپاکستان کی تاریخ میں بہت کم ہوئی ہیں۔

جب کشمیر کا معاملہ یو این میں چلا گیا اورانڈر انٹر نیشنل لاء کے تحت مسئلہ کشمیر پر ایک فیصلہ دے دیا گیا ،تو ہندوستان نے ایک مہم چلائی کہ یہ تو مسلمانوں کا معاملہ ہے ،کشمیر کے غیر مسلم کے خلاف۔ یو این میں حق خود ارادیت جو انٹرنیشنل لاء میں define ہوتا ہے ،وہ ایک سیکولر conceptہے ،اس میں مذہب کا ذکر نہیں ہے ،جب یو این نے فیصلہ کر لیا تو کشمیر کے تمام لوگ اس میں آ تے ہیں چاہے وہ کسی بھی مذہب کے ہوں۔انہوں نے کہا کہ 'سی بی ایمز ' اس وقت ہوتے ہیں جب میدان تیار کر دیا ہوتا ہے،یہ سی بی ایمز زخموں کو ٹیُپ لگا کر چھپانے جیسا ہے۔اس سے شارٹ ٹرم تو شاید تھوڑا بہت فائدہ ہوتا ہے لیکن یہ 'سی بی ایمز' مسئلے کے حل کی جانب نہیں لے جاتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ جو مثبت چیز میں دیکھ رہا ہوں کہ کشمیر کے بچوں میں بھی اب آزادی کاجذبہ نظر آر ہا ہے اور ہمارا مستقبل اسی سے وابستہ ہے ،باقی اللہ کے ہاتھ میں ہوتا ہے کہ ایسے حالات پیدا ہو جاتے ہیں کہ چیزیں بدل جاتی ہیں،کچھ بھی ہو سکتا ہے لیکن بات یہ ہے کہ کشمیریوں کا جذبہ ختم نہیں ہونا چاہئے ،کشمیریوں کی ہر شعبے میں جدوجہد جاری رہنی چاہئے ۔

ایک اور سوال کے جواب میں جاوید سلیم نے کہا کہ ابھی ہندوستان میں حالات بہت بدل گئے ہیں ،ہندوستان کی نئی حکومت نے مذہب کو درمیان میں ڈال دیا ہے،ہندو انتہا پسندی سے یہ ملک بہت غلط سمت میں بڑھ رہا ہے۔اب بھی ہندوستان میں ایسے لوگ ہیں جو کہتے ہیں کہ اگر ہم نے معاشی ترقی کرنی ہے تو ہمیں اپنے ہمسایہ ملکوں کے ساتھ جانا پڑے گا،اگر ہم ساتھ نہیں جائیں گے ،ایک دوسرے کے خلاف بر سرپیکار رہیں گے تو معاشی ترقی نہیں ہو سکے گی۔ہندوستان نے اکنامک اور کمرشل فیلڈ میں کافی ترقی کی ہے لیکن پھر بھی وہاں لوگوں میں غربت دوسروں ملکوں کی نسبت زیادہ ہے ۔ہمارے ملک میں بھی غربت ہے،ہمارے ملک میں سسٹم درست ہونے کی ضرورت ہے،پھر بھی جتنے لوگ ہندوستان میں فٹ پاتھ پر سوتے ہیں ہمارے ملک میں نہیں سوتے۔ہندوستان کو بھی یہ سوچنا چاہئے اور ہندوستان میں کوئی آئے گا ، میر ے خیال میں یہ ایک عبوری دور ہے جس سے ہندوستان گزر رہا ہے ، انڈیا کی اسٹیبلشمنٹ جس کا ہر چیز میں بہت ہاتھ رہا ہے ،1992ء میں میں دہلی میں تھا پاکستانی وفد کے ہمراہ ،سیاچن پر ہم نے فیصلہ کر لیا تھا ،آخری روز بارہ بجے دن فیصلہ ہو گیا تھا اور بڑا اچھا فیصلہ ہوا تھا کہ دونوں ملک اپنی فوجیں سیاچن سے پیچھے لے جائیں گے،بارہ بجے ہاتھ ملائے کہ فیصلہ ہو گیا ہے ،انہوں نے کہا کہ چار بجے ہم لکھ کر لے آئیں گے ،تین بجے بھارتی وفد کے سربراہ کا ٹیلی فون آیا کہ میں معذرت چاہتا ہوں کہ آج دستخط نہیں ہو سکتا،پھر کبھی ہو جائے گا،آج ہم بیان جاری کر دیتے ہیں کہ اچھی بات چیت ہوئی ہے۔عام طور پر ہم صرف فوج کو اسٹیبلشمنٹ کہتے ہیں ، فوج نہیں ہوتی اسٹیبلشمنٹ،امریکہ میں دیکھیں فوج ہے ،بڑے کمرشل انٹرسٹ ہیں ،اسلحہ ساز ہیں،اور بہت ساری اس قسم کی لابیز ہیں جو مل کر اسٹیبلشمنٹ بنتی ہے ۔اسی طرح ہندوستان کی اسٹیبلشمنٹ میں فوج کے علاوہ بڑی انڈسٹریز،اسلحہ ساز ،اسلحہ امپورٹ کرنے والے اور باہر کی ان کی لابی ،سب مل کر اسٹیبلشمنٹ بنتی ہیں ۔ہندوستان کی اسٹیبلشمنٹ نے1990میں فیصلہ کیا تھا کہ کشمیر کے مسئلے،اشوز کو جتنا لٹکاتے رہو ،وہ ہندوستان کے حق میں جاتا ہے،کوئی فیصلہ نہ کرو،آخر کار ایک ایسا وقت آئے گا کہ پاکستان اتنا تنگ ہو جائے گا اور کشمیری اتنے تنگ ہو جائیں گے کہ کہیں گے کہ جو دیتے ہو دو ہماری جان چھوڑو۔یہ انڈین اسٹیبلشمنٹ کی تھیوری ہے۔ اور جب بھی ایسی حکومت آتی ہے ہندوستان میں جیسی اب ہے تو یہ اسٹیبلشمنٹ پر بڑا انحصار کرتی ہے ،اسٹیبلشمنٹ کو 'نہ ' نہیں کر سکتی ۔میری ذاتی رائے ہے کہ اگر ہندوستان کے ساتھ کسی قسم کا فیصلہ ہوا تو وہ بی جے پی کے ساتھ ہو گا ،کانگریس کے ساتھ نہیں ہو سکتا،کانگریس والے باتیں بہت کرتے ہیں لیکن ان میں فیصلہ کرنے کی ہمت نہیں ہے ۔فیصلہ اگر ہو گا تو واجپائی جیسا آدمی،جسونت سنگھ جیسا آدمی چاہئے ،من موہن سنگھ نہیں فیصلہ کر سکتا۔جتنے بھی کانگریس کے لیڈر ہیں ،ایک تو یہ کہ وہ پہلے ہی ڈرتے تھے ہر چیز سے ،شملہ سمجھوتے کے بعد تو ان کی حالت یہ ہو گئی کہ کہتے تھے کہ بس شملہ سمجھوتے میں بات ہو گئی ہے اور ہم نہیں کر سکتے۔ہندوستان والے بھی سمجھتے ہیں کہ خاص طور پر کشمیر کا مسئلہ ختم نہیں ہو گا۔

میں نے اپنے سوال سے پہلے غلام محمد صفی صاحب کا شکریہ ادا کیا کہ انہوں نے حریت کے دفتر میں پاکستان کی مختلف شعبوں میں اہم شخصیات کو مدعو کرنے کا سلسلہ شروع کیا ہے ،جس سے حریت اور کشمیر کی سول سوسائٹی کے نمائند وں کو پاکستان کی کشمیر پالیسی کے موقف، حکمت عملی اور اس میں پائے جانے والے وسیع فرق کو سمجھنے میں مدد مل سکتی ہے۔میں نے اہم اور تاریخی معلومات اور انکشافات سے آگاہ کرنے پر خالد سلیم صاحب کا شکریہ ادا کیا، اور کہا کہ کشمیر کے ساتھ آپ کی گہری کمٹمنٹ کے حوالے سے پہلے میں ایک غیر رسمی بات کہوں گا کہ ،آپ کو دیکھ کر شائبہ ہوتا ہے کہ شاید آپ بھی کشمیری ہیں،جس طرح جس میاں بیوی کے درمیان بہت زیادہ ''انڈر سٹینڈنگ'' ہوتی ہے ،ان کے درمیان تیس ،چالیس سال کی رفاقت کے بعد ان کے چہرے بھی ایک جیسے لگنے لگتے ہیں اوروہ میاں بیوی کے بجائے بہن بھائی لگتے ہیں،اسی طرح ، آپ مسئلہ کشمیر میں گہرے طور پر شامل رہے ہیں، اس سے معلوم ہوتا ہے کہ کشمیر آپ کی شکل و شباہت میں بھی آ گیا ہے۔اس پر خالد سلیم نے وضاحت کی کہ'' میں خاص راجپوت ہوں''۔خالد سلیم صاحب کے راجپوت ہونے کی وضاحت سے معلوم ہو گیا کہ ان کے سنائے گئے ایک واقعہ کے مطابق کشمیر کی ایک اہم شخصیت سے ملاقات میں کیا بات محرک تھی۔میرا سوال یہی تھا کہ پاکستان کی کشمیر پالیسی کے روائتی موقف اور حکمت عملی کا وسیع فرق دیکھتے ہوئے آپ کی نظر میں ہم اپنی کن کن خرابیوں اور خامیوں کو کس انداز میں بہتری کے لئے مخاطب کر سکتے ہیں؟سنیئر سفارت کار خالد سلیم نے کہا کہ کشمیر اشو میں چار فریق ہیں ،عالمی طور پر تسلیم شدہ ،اس میں پاکستان ہے،بھارت ہے،کشمیری لوگ ہیں اور انٹر نیشنل کمیونٹی ہے۔ مسئلہ کشمیر کے بارے میں کسی بھی فیصلے کے لئے ان چاروں کو متفق ہونا پڑے گا،یہ غلط بات ہے کہ ایک یا دو آپس میں فیصلہ کر لیں اور باقی کو نظر انداز کر دیا جائے، ایسا نہیں ہو سکتا۔اس میں سب سے اہم فریق کشمیری لوگ ہیں ،بنیادی فریق کشمیری لوگ ہیں،کشمیری لوگوں کی مرضی کے خلاف کوئی فیصلہ نہیں ہو سکتا ۔دوسرایہ کہ جب بھی کوئی فیصلہ ہوا یعنی پاکستان اور بھارت آپس میں کرتے ہیں تو چاروں فریقوں کو بیٹھ کر accept کرنا پڑے گا۔سیکورٹی کونسل کی ایک میٹنگ آپ کو کروانا پڑے گی ،اس میں وہ کہیں گے کہ ہم نے ریزولوشن پاس کیا تھا 1948ء میں ،پر اب ہم نے یہ دیکھا ہے کہ مین پارٹیز اس بات پہ اتفاق کرتی ہیں ،تو ہم اس کو endorceکرتے ہیں۔ایک اہم بات کہ قرار داد جو سلامتی کونسل نے منظور کی تھی ،plebecite resolution،اس کے preambleمیں لکھا ہوا ہے کہ ہم نے انڈیا اور پاکستان کی حکومتوں سے پوچھا رسمی طور پر اور انہوں نے تحریری طور پر ہمیں دیا کہ انہیں قابل قبول ہے،پھر ہم فیصلہ لکھ رہے ہیں ۔ یہ قرار داد کے preambleمیں لکھا ہوا ہے ۔یہ وہ واحد قرارداد ہے جس میں لکھا ہوا ہے کہ فریقین سے پہلے پوچھ لیا گیا تھافیصلہ کرنے سے پہلے ۔اور دونوں حکومتوں نے تحریری طور پر اس کی منظوری دی ہے اس کے بعد ہم یہ لائحہ عمل لکھ رہے ہیں ۔
Athar Massood Wani
About the Author: Athar Massood Wani Read More Articles by Athar Massood Wani: 777 Articles with 698924 views ATHAR MASSOOD WANI ,
S/o KH. ABDUL SAMAD WANI

Journalist, Editor, Columnist,writer,Researcher , Programmer, human/public rights & environmental
.. View More