ووٹوں کے سوداگر

سب سے پہلے لمبی غیر حاضری کی معذرت کہ زندگی کے روز وشب نہ جانے کس ٖڈگر پہ چل نکلے ہیں کہ نہ کوئی ڈھنگ کا کام ہے نہ ہی فراغت ،ہر کوئی جلدی میں کسی کے پاس ایک لمحے کا بھی وقت نہیں،سو اسی معاشرے کا حصہ ہونے کی وجہ سے میں بھی عام بنی نو ع انسانوں سے مختلف نہیں،خیر آگے چلیں تو نظر آتا ہے کہ آج کل لوکل باڈیز الیکشن سر پر آن پہنچے ہیں،بڑے بڑے جغادری اور سور ما جو عام دنوں میں غریب غرباء کو محض کیڑے مکوڑوں سے زیادہ اہمیت دینے کو تیار نہیں ہوتے آج دونوں ہاتھ باندھے انہی فقیروں غریبوں اور ناداروں کی گندی بستیوں میں دو زانو جھکے ہوئے ہیں،الیکشن ہونے کی دیر ہے عام لوگ پھر انہیں پہلے کی طرح ڈھونڈتے پھریں گے اور یہ کوئی نئی بات نہیں نہ یہ لوگ نئے ہیں نہ ووٹر نئے ہیں نہ ان کے امیدوار ۔ نہ ان کے طور طریقے نئے ہیں،مجھے ذاتی تجربہ بھی ہو چکا ہے جو موقع کی مناسبت سے شیئر کرنا بے حد ضروری ہے،یہ کوئی زیادہ دور کی بات نہیں الیکشن 2013کا سال تھا ،قومی الیکشن کی ہاہا کا ر مچی ہوئی تھی،مجھے کبھی بھی سیاست اور خصوصاًلوکل سیاست سے دلچسپی نہیں رہی کیوں کہ یہ بے چارے بے دام غلام اور خالی مہرے ہوتے ہیں کہ ان کے آقا انہیں اٹھا کہ جدھر چاہتے ہیں رکھ دیتے ہیں،اس لیے ہم صرف صحافت اور اپنی نوکری یعنی روزی روٹی تک ہی محدود ہیں،ایک روز جب اتوار کا دن تھا اور ہفتے کے یہ دودن میں اپنے گاؤں میں گذارتا ہوں،معاً میرے فون کی گھنٹی بجی اور دوسری طرف بڑی نفیس اور نرم آواز سنائی دی سلا م دعا کے بعد مخا طب نے مجھے بتایا کہ جناب میں ذوالفقار دلہہ بول رہا ہوں میں یہاں سے صوبائی اسمبلی کا امیدوار ہوں،اور آپ سے ملنا چاہتا ہوں تاکہ الیکشن مین آپ کا تعاون حاصل کیا جا سکے،میں نے پہلے تو کوشش کی مجھے آزمائش میں نہ ڈالا جائے اور عرض کیاکہ جناب کس ذات شریف نے آپ کو میرا بتایا کہ میرے پاس ووٹوں کے خزانے ہیں آپ کوئی ڈھنگ کا بندہ دیکھیں جو آپ کے کام اور مطلب کا ہو مگر جب انہوں نے اصرار کیا تو چارو ناچار حامی بھر لی،میں یہاں یہ واضح کرتا چلوں کہ اس سے قبل لگ بھگ تین یا چار مرتبہ جناب ہماری یونین کونسل سے ہزار کوشش اور اس دولت جس کا وہ اٹھتے بیٹھے اظہار کرنا ضروری سمجھتے ہیں کے بے دریغ استعمال کے باوجود کامیاب نہ ہو سکے تھے،اور کئی دفعہ تو یوں بھی ہو ا کہ جناب صرف اپنا جلسہ منعقد کروانے کے لیے پکی پکائی دیگیں بھی ساتھ گاڑیوں میں رکھ کے لے گئے مگر اس کے باوجود الیکشن جیتنا تو دور کی بات ایک جلسہ تک منعقد نہ کر سکے،ہم نے حامی بھری اور اپنے دوستوں کو بتا دیا کہ اب کی بار ہم نے ذوالفقار دلہہ سے نے صرف وعدہ کر لیا ہے بلکہ بھر پور ساتھ دینے کا وعدہ بھی کر لیا ہے،بھلا ہو ان قابلٖٖ فخر اور قابل بھروسہ دوستوں کا کہ جنہوں نے دن رات ایک کر دیا اور الیکشن سے بہت پہل ہی ساری فضا یک طرفہ طور پہ زوالفقار دلہہ کے حق میں ہو گئی ،میں یہاں اﷲ کو گواہ بنا کہ کہتا ہوں کہ میں نے اپنے گھر کے افراد سے بھی ووٹ نہیں مانگا گلی گلی پھرنا تو دور کی بات،بس کچھ دو چار اچھے اجتماعی کام ایسے اپنے دامن میں تھے کہ صرف لوگوں کو یہ پتہ چلنے کی دیر تھی کہ اس بار اپنا ارادہ کیا اور میں ان لوگوں کا احسان مند ہوں کہ ایسے لوگوں نے بھی ہماری بات پہ لبیک کہا جو جنم جنم سے پیپلز پارٹی کے حامی اور سپورٹر تھے اور بھٹو ازم جن کے خمیر میں شامل تھا،پھر دوستوں نے مشورہ دیا کہ اپنی پاور شو کی جائے حالانکہ اس کی ضرورت نہیں تھی،ادھر امیدواروں کے پاس وقت نہیں تھا ایک صاحب ٹمن میں مصروف تھے تو دوسرے دلہہ او ر گردو نواح میں،مقابلہ سخت بلکہ سخت ترین تھا کہ ایک کے مقابلے میں پرویز الٰہی جبکہ دوسرے کے سامنے سردار غلام عباس جیسی چٹا ن تھی،ہم نے جب ان سے بات کی تو پہل تو ٹائم نہیں دیا پھر کہا کہ الیکشن کا اخری جلسہ یعنی رات کو لگ بھگ گیارہ بجے آپ کے پاس کر سکتے ہیں،بعد میں پتہ چلا کہ یہ بھی کچھ مہربانوں کی چال تھی کہ اتنی دیر تک گاؤں دیہاتوں کے لوگ جو سات ساڑے سات بجے اور زیادہ سے ذیادہ عشاء کی نماز کے بعد سو جاتے ہیں کب اتنی دیر تک بیٹھتے ہیں،اور یوں جب سردار ممتاز ٹمن اور سردار ذوالفقار دلہہ پہنچیں گے تو آگے پبلک کا نام و نشان نہ دیکھ کر آخری جلسے کو یاد کریں گے،مگر جسے اﷲ ذلیل نہ کرنا چاہے اسے دنیا کی ساری طاقتیں اور قوتیں مل کر بھی نیچا نہیں دکھا سکتیں،ہم نے جلسے کا ارینج کیا اور لوگوں کو دعوت دے دی ہمارے پاس دونوں امیدوار گیارہ بجے کے بعد پہنچے اور مجھے قوی امید ہے کہ انہیں وہ وقت اور وہ لوگ اور اتنی بڑی تعداد میں کبھی بھی نہیں بھولیں گے،الغرض جلسہ ہوا حسب معمول ہم سے وعدے وعید ہوئے لارے لگائے گئے کچھ سبز اور نیلے پیلے باغ بھی دکھائے گئے اور اس اگلے دن ایک بھرپور کامیابی اور بہت بڑی لیڈ سے الیکشن جیت لیا گیا،اس وقت کمپئرنگ میرے ذمے تھی اور میں نے دونوں سرداران کے سامنے یہ عہد کیا تھا کہ ہم لوگوں نے آپ کو اپنا امید وار منتخب کر لیا ہے اور انشااﷲ آپ اگل دودن بعد اسمبلیوں کے ممبر ہوں گے مگر خدا را منتخب ہونے کے بعد ان لوگوں کے اعتماد کو دھوکا مت دینا ان کا خیال رکھنا آپ نے ان کا خیال رکا تو یہ آپ کا رکھیں گے،ساتھ یہ بھی واضح کر دیا کہ نہ یہ الیکشن آخری ہے نہ آپ آخری امیدوار یاد رکھیئے گا اگر آپ نے ان لوگوں کے اعتماد کو مجروع کیاان کے چھوٹے بڑے اجتماعی کام نہ کیے تو اگلی دفعہ شاید حالات اور ااسٹیج کی صورتحال مختلف ہو گی،اس وقت ان لوگوں نے بھی بڑی لچھے دار تقاریر کیں سینے پہ ہاتھ رکھ کہ لوگوں سے وعدہ کیا اور الیکشن کے بعد پھر جو ہوا وہ پڑھتا جا شرماتا جا بلکہ سنتا جا شرماتا جا والی صورتحال کا سامنا کرنا پڑا ہمیں ملک کے باقی کروڑوں لوگو ں کی طرح،مجھے اپنے امیدوار کی سرمایہ دارانہ طبیعت کا اندازہ تھا سو میں نے ان کے ایک زندہ اور ایک مرحوم پی اے کوباقاعدہ فون کر کے کہا کہ جناب آپ نے ایک مہربانی اور احسان یہ کرنا ہے کہ ہمارے نام پہ کسی کو ایک روپیہ نہیں دینا اﷲ کا شکر ہے ہم میں اتنی سکت اور ہمت ہے کہ چند سو لوگوں کا جلسہ اور ان کی انٹرٹینمنٹ کا بندوبست کر سکیں،انہوں نے کہا جی ایسا ہی ہو گا اور بہت شکریہ آپ کی کاوش اور کوشش کا،الیکشنز ہو گئے جیتنے والے جیت گئے ہارنے والے ہار گئے نظام زندگی ایک بار پھر سے رواں دواں ہو گیا،جناب کی سیاست کے ساتھ ساتھ کاروبار کو بھی چار چاند لگ گئے،لوگوں کو خدام الحجاج کے کے لیے بھیجنے کا وقت آیا تو چونکہ یہ کنٹریکٹ جناب ایم پی اے موصوف کے پاس ہے تو لوگ ان کے پنڈی یا اسلام آباد آفس کے پھیرے لگانے لگے،ہمارے علاقے کے دو نوجوان بھی پھرتے پھراتے جناب کے آفس جا پہنچے وہاں رش دیکھ کہ انہوں نے مجھے فون کیا کہ جناب ہم پنڈی یا اسلام آباد (مجھے اب کنفرم نہیں ) سردار صاحب کے آفس بیٹھے ہیں آپ پلیز انہیں کال کر دیں کہ ہمارا نام بھی خدام میں شامل کروا دیں میں نے انہیں کہا کہ آپ وہاں پہ موجود ان کے پی اے کو میرا بتائیں یا پی اے سے میری بات کروائیں،انہوں نے جب بات کے لیے پی اے صاحب سے گذارش کی تو چونکہ وہ پی اے سردار صاحب کے تھے اور بڑے کہتے ہیں کہ دیوار اپنی بنیاد پہ جاتی ہے پی اے موصوف نے بات کرنے سے صاف انکار کر دیا،میں نے لڑکوں سے کہا کہ اسے بتاؤکہ ہم کس یونین کونسل سے آئے ہیں اور کس کے ریفرنس سے آئے ہیں،انہوں نے بتایا پی اے صاحب اندر بڑے صاحب (سردار زوالفقار) کے پاس گئے اور بتایا کہ دو نو جوان فلاں علاقے اور یونین کونسل سے آئے ہیں صاحب نے جوا ب دیا کہ فلاں یونین کونسل وہاں سے تو ہم نے پیسے دے کے ووٹ حاصل کیے ہیں،لہٰذا اسکا کوئی بند ہ نہیں بھیجنا۔ان لڑکوں نے وہیں سے مجھے کال کی اور ساری روداد مجھے سنا دی،اور میں حیرتوں کے جہان میں گم ہوگیا مگر ساتھ ہی یہ ارادہ بھی کر لیا کہ فکر نہ کریں نہ آپ آخری دفعہ میرے پاس آئے تھے نہ وہ آخری الیکشن تھا ،آپ بھی آئیں گے اور ہم بھی وہیں ہوں گے اور پھر دیکھیں گے کہ کس نے کتنے پیسے دیے کس نے لیے اور کتنے لے کے کتنے ووٹ دیے،اب الیکشن سر پہ ہے امیدوار چکروں پہ چکر لگا رہے ہیں گذشتہ روز میری جناب کے ٹکٹ ہولڈرز سے ملاقات ہوئی تو انہیں کہا کہ اپنے لیڈر سے کہیں کہ کیا ضرورت ہے گلی گلی پھرنے کی پیسا پھینکیں اور ووٹ لے لیں آپ کو کیا مسئلہ ہے، خیر یہ تو اپنی کہانی ہے مگر یہ صرف ایک ہماری نہیں جناب کے علاقے کا ہر دوسر اشخص یہی رونا رو رہا ہے اور جانب کے ستاھ تمام تھالی کے بینگن اکٹھے ہیں جوجناب کے کہنے پہ دن کو دن اور رات کو رات کہہ دیتے ہیں کاش کہ کوئی ایسا بھی ہوتا جو آپ کو سب اچھا ستے خیراں کی بجائے حقیقت حال سے بھی آگاہ کرتا،آپ نے ن لیگ کا ستیاناس تو کر ہی دیا رہی سہی کسر آپ کے خود سر اور تکبرانہ رویے نے نکال دی کہ مجھے کسی کی ضرورت نہیں میں جو چاہوں پیسے سے حاصل کر سکتا ہوں ،آپ اچھے سرمایہ دار اور بزنس میں ضرور ہوں گے مگر اچھے سوداگر اور وہ بھی ووٹ کے کبھی نہیں بن سکتے کہ یہاں بے شک کہ بکاؤ مال بھی بہت ہے اور ایسے سر پھروں کی بھی کمی نہیں کہ جنہیں دنیا جہان کی دولت بھی نہیں خرید سکتی،الیکشن آنے دیں یہ بھی اور اگلے بھی انشااﷲ آتے دال کا بھاؤ معلوم ہو جائے گا۔