مسئلہ کشمیر کے حل تک

مسئلہ کشمیر کے حل تک پاکستان اور بھارت کے درمیان بہتر تعلقات کسی صورت پیدا ہونے کا امکان نہیں یہ ایک اٹل حقیقت ہے کہ خطے کا امن اس مسئلے کی وجہ سے کسی بھی وقت برباد ہو سکتا ہے جس کا ادراک اقوام متحدہ سمیت پوری دنیا کو ہے مگر پوری دنیا اس مسئلے کو پس پشت ڈال کر بھارت کو صرف اس لئے خوش کرنے کی کوشش کرتی ہے کہ بھارت ان کے لئے ایک پر کشش بڑی تجارتی منڈی ہے جسے وہ کسی صورت کھونا نہیں چاہتی ۔پاکستان ہر دور میں مسئلہ کشمیر کو اولین ترجیح قرار دیتا آیا ہے۔ کشمیر سے نکلنے والے دریاؤں کی بدولت خطہ زرعی دولت سے مالا مال ہے ہندو کسی بھی طور پر کشمیر سے دست بردار ہونے کو تیار نہیں ہو گا شاید یہی وجہ ہے کہ وہ کسی بھی فورم پر اس مسئلے کے حل کی طرف آنے سے انکاری ہے پچھلے دنوں کشمیر کی ہائی کورٹ نے جو تاریخی فیصلہ دیا ہے اس نے ہندو وں کے منہ پر تمانچہ مارا ہے جس کے مطابق کشمیر کھبی بھی بھارت میں ضم نہیں ہوا اس کی ایک الگ حیثیت ہے جسے قائم رہنا ہے اس فیصلے سے بھارت کے ان دعوؤں کی نفی ہوتی ہے جس میں وہ کشمیر کو اپنا اٹوٹ انگ قرار دیتا ہے ۔پاکستان صرف امن کی بات ہی نہیں کرتا اس کے لئے عملی اقدامات بروئے کار لانے کو بھی تیار ہے پاکستان نے اس سلسلے میں جو چار نکاتی فارمولہ پیش کیا ہے وہ مسئلہ کشمیر کے حل کے لئے پاکستان کی طرف سے اٹھائے جانے والے اقدامات کی وضاحت کرتا ہے چار نکاتی فارمولے کا پہلا نکتہ ہے کنٹرول لائن پر مکمل جنگ بندی کے لئے 2003کے معاہدے کا احترام کیا جائے دوسرے کے مطابق دونوں ممالک کسی بھی صورت میں طاقت کے استعمال کی دھمکی نہیں دیں،تیسرا نکتہ ہے کہ کشمیر سے فوج کی واپسی کے اقدامات کئے جائیں اور چوتھے نکتہ کے مطابق دونوں ممالک سیاچن سے غیر مشروط طور پر فوجیں واپس بلائیں ۔بھارت جو ذرا ذرا سی بات پر روٹھ کر مذاکرات کے دروازے بند کر لیتا ہے یہ جانتے ہوئے بھی کہ امن و استحکام اور مسائل کے حل مذاکرات کے ذریعے حاصل ہوسکتے ہیں رابطے توڑنے سے نہیں بلکہ اتفاق رائے اور بات چیت کے ذریعے ہی مسائل کا حل نکالا جاتا ہے۔کشمیر کے مسئلے کو حل کئے بغیر خطے میں امن قائم نہیں ہوسکتا۔مسئلہ کشمیر کو بنیاد بنا کر بھارت اسلحے کی دوڑ میں آگے نکل جانے کی کوشش میں ہے یہ جانتے ہوئے بھی کی آج بھی اس کی ستر فیصد آبادی رات فٹ پاتھوں پر بسر کرتی ہے جبکہ باقی تیس فیصد میں بیس فیصد مڈل کلاس اور دس فیصد اشرفیہ کہلاتی ہے اشرفیہ میں اقلیتوں اور ہندؤں کی نچلی ذات کی نمائندگی نہ ہونے کے برابر ہے دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کے دعوے دار خود اپنی عوام کو بھوکا اور ننگا دیکھ کر خوش ہوتے ہیں ۔ پاکستان جنوبی ایشیاء میں ہتھیاروں کی دوڑ نہیں چاہتا ہے نہ ہی اس دوڑ میں شامل تاہم وہ اپنی سکیورٹی کی ضروریات اور خطے میں بڑھتے ہوئے ہتھیاروں کے عدم توازن سے آنکھیں بند بھی نہیں کرسکتا اس کے لئے پاکستان کو کم سے کم دفاعی اقدامات کرنے کی ضرورت ہر وقت رہتی ہے ۔بھارت خطے میں اور خصوصا پاکستان میں دہشت گردوں کی سرپرستی میں بھی مصروف ہے جس کے کئی واضح ثبوت عالمی میڈیا کی زینت بن چکے ہیں لیکن بھارت اپنے آپ کو مظلوم اور پاکستان کو ظالم بنا کر پیش کرنے کا جو مذموم پروپگنڈا کرتا ہے ساری دنیا اس کے اس ڈرامے سے با خبر ہے حال ہی میں پاکستان کرکٹ بورڈ کے عہدیداروں کے ساتھ ہونے والے ناروا سلوک اس بات کا کھلا اعلان ہیں کہ متعصب بھارتی حکام کسی بھی طور پر پاکستان کے وجود کو تسلیم نہیں کرتے پاکستان دہشت گردی کا بنیادی شکار ہے ان دہشت گردوں کی مالی معاونت بھارت کرتا آیا ہے اس لعنت میں پاکستان نے ہزاروں جانیں قربان کی ہیں جن میں شہری اور ہمارے فوجی جوان شامل ہیں ہمارے بیگناہ بچوں سمیت اس بہنے والے خون نے ہمارے عزم کو پختہ کیا ہے کہ ہم نے اپنے معاشرے سے اس لعنت کو ختم کر کے دم لینگے اور ہم دہشت گردوں اور ان کے مددگاروں کے ساتھ منطقی انجام تک لڑینگے آپریشن ضرب عضب دہشت گردوں کے خلاف ایک بڑی مہم ہے جو مقصد کے حصول تک جاری رہے گا۔

بھارتی حکمران اگر مسئلہ کشمیر کے حل کے لئے سنجیدہ ہیں تو انہیں پاکستان کے چار نکاتی امن فارمولے کی روشنی میں بات کو آگے بڑھانے کے لئے فوراً اقدامات کرنے ہونگے مذاکرات کے ذریعے ہی یہ واضح ہوگا کہ بھارت ان چار وں نکات پر کس حد تک عمل درآمد میں سنجیدہ ہے یا کسی نکتہ میں کسی حد تک ردو بدل کا خواہاں ہے بادی النظر میں جنگ بندی کے معاہدے کا احترام اور دونوں ممالک کی طرف سے طاقت کے استعمال کی دھمکیوں سے گریز ایسے نکات ہیں جن پر بھارت کو اعتراض نہیں ہوگا سیاچن سے فوجی انخلاء دونوں ملکوں کے مفاد میں ہے جہاں فوجوں کا سب سے بڑا دشمن موسم ہے اس لئے سیاچن سے فوجوں کا انخلاء امن کی جانب اہم قدم ہوسکتا ہے اس انخلاء پر بھارت کو بھی اعتراض نہیں ہونا چاہئے بھارت اس پرمثبت رویہ اختیار کرے تو اسی امن فارمولا سے تنازعہ کشمیر کے متعدد راستے بھی نکل سکتے ہیں مسائل حل کرنے کی نیت ہو تو راستے ضرور نکلتے ہیں لیکن بھارتی حکمران کھبی بھی اس راستے کا انتخاب نہیں کریں گے جس سے مسئلہ کشمیر کے حل کی کوئی امید پیدا ہوتی ہو۔ اور جب تک یہ مسئلہ حل نہیں ہو جاتا تب تک ان دونوں پڑوسی ممالک کے درمیان دوستانہ تعلقات قائم نہیں ہو سکتے۔
rajatahir mahmood
About the Author: rajatahir mahmood Read More Articles by rajatahir mahmood : 304 Articles with 227113 views raja tahir mahmood news reporter and artila writer in urdu news papers in pakistan .. View More