سیاسی موسم

کسی اجنبی کی تحریر آنکھوں سے گزری اور دل کو چھُو گئی بلکل ایسے جیسے کسی شوخ و چنچل حسینہ کی ادا دل کو چھُو لیتی ہے تحریر بڑی سادہ مگر معنی خیز تھی کہ ایک شخص سکول میں چپڑاسی کی سیٹ کے لئے اپلائی کرتا ہے اور اَن پڑھ ہونے کی وجہ سے سلیکٹ نہیں ہو پاتا لہذا سکول کے پرنسپل کی منت سماجت شروع کر دیتا ہے مگر ناکام رہتا ہے چنانچہ وہ شخص مایوس ہو کر واپس چلا جاتا ہے کافی عرصہ بعد پرنسل صاحب نے ایک نئے سکول کا افتتاح کرنا ہوتا ہے اور اُس کے لئے علاقے کے معزز سیاستدان کو مہمان خصوصی کے طور پر مدعو کیا جاتا ہے عین افتتاح کے وقت پرنسپل کو یاد آتا ہے کہ وہ اِس شخص سے پہلے بھی مِل چُکا ہے اور تفصیل جاننا چاہتا ہے تو وہی سیاسی شخصیت اُن کو بتاتی ہے کہ وہ آپ کے سکول میں چپڑاسی کی نوکری مانگنے گئے تھے آپ نے نا اہل قرار دے دیا تو میں نے الیکشن لڑنے کا فیصلہ کیا اور بلآخر کامیاب ہو گیا اور آج آپ مجھ سے سکول کا افتتاح کروا رہے ہیں پرنسپل صاحب کچھ سوچنے کے بعد بولے کہ اگر وہ آپ کو نو کری دے دیتا تو کیا ہوتا ؟ وہ شخص بولا کہ میں آج بھی آپ کا چپڑاسی ہوتا!

آپ بھی سوچ رہے ہوں گے کہ میں کیا تمہید لے کر بیٹھ گیا ہوں تو ذرا عرض کرتا چلوں کہ آج کل الیکشن بہار ہے لوگ جوق در جوق الیکشن لڑنے چلے آ رہے ہیں اِن میں سے کچھ نت نئے (جیسے نت نیا فیشن آتا ہے ) اور کچھ پرانے پاپی لوگ (وہ لوگ جو اپنے کام میں پاپی ہوتے ہیں نہ کہ پاپ کرنے والے پاپی )میدان میں آ رہے ہیں محلے میں ایسے جلسے ہو رہے ہیں جیسے میلہ لگا ہو ہر طرف گہما گہمی کا عالم ہے کہیں بیٹھکیں سجی ہوئی ہیں تو کہیں مفت کی چائے پینے اور مانگ کر سگریٹ کے کش لگانے والے بھی اُمیدواروں کے سچے حامی بنے نظر آتے ہیں، کسی نے اپنے کباڑ خانے کی دکان کے باہر امیدوار کی فوٹو لگا رکھی ہے تو کسی نے پان والے کھوکھے پہ انتخابی دفتر کھولا ہوا ہے مگر اِن سب سے اہم جُز جس کے لئے شروع میں تمہید باندھنی پڑی تھی وہ یہ کہ میرٹ کہیں نظر نہیں آرہا جس کو ا۔ ب۔ پ کا نہیں پتہ وہ الیکشن لڑ رہا ہے جس کی اپنے گھر میں کوئی نہیں سُنتا وہ باہر عوام کو تقریریں سُنا رہا ہے گھر گھر ووٹ مانگنے کے لئے ایسے آ رہے ہیں جیسے آم پہ مکھیاں آتی ہیں،ابھی کل کی بات ہے گھر سے سودا سلف لینے نکلا کہ رستے میں سپیکر کی آواز آئی سوچا چلتے چلتے دیکھ ہی لوُں کہ کیا ہو رہا ہے چنانچہ گھُس گیا بن بلائے باراتی کی طرح بڑی زور و شور سے تقریر جاری تھی کہ من چاہا تقریر والی ہستی کا دیدار بھی کر لینا چاہیےٗ سو َ دھکم پیل کے بعد جو درشن ہوئے تو ہمارے تو جیسے چودہ طبق ہی روشن ہوگئے ( حالیہ لوڈشیڈنگ کی بدولت تو زیرو کا بلب بھی روشن نہیں ہوتا مگر یہ اُن کا ہی مظہرِ کمال تھا کہ جس نے میرے چودہ طبق روشن کر دیے) سامنے جو صاحب جلوہ افروز تھے ابھی کچھ دن پہلے ہی ہم اُن سے اپنا کچھ اضافی بوجھ اُٹھانے کے لئے اُن کے گدھے سمیت آشنا ہوئے تھے اور کافی بحث کے بعد ہم پورے ڈیڑھ سو روپے میں بات طے کرنے میں کامیاب ہو چکے تھے ہمارا سامان متعلقہ جگہ تک پہنچانے کے لئے۔ لہذٰا ہم نے کچھ ہمت دکھائی اور ساتھ والے شخص سے اُن کی بابت دریافت کیا تو گویا رونگٹے سے کھڑے ہوتے ہوئے محسوس ہوئے موصوف آزاد امیدوار کے طور پر الیکشن لڑ رہے تھے اور پُر امید تھے کے الیکشن جیت جائیں گے اور جیت کر سب سے پہلے اُن لوگوں کی واٹ لگائیں گے جنہوں نے اُسکی گدھا گاڑی پر سامان لے جانے کے پیسے کم کروائے تھیـــ"توبہ" ہمیں تو پسینے آنے شروع ہو گئے اور ہم وہاں سے دُم دبا کر بھاگ نکلے کیوں کے ہم بھی پیسے کم کروانے والوں میں شامل تھے آپ سوچ رہے ہوں گے کہ میں گدھے والے کے پیچھے کیوں پڑ گیا ہوں کیا گدھے والے کو الیکشن نہیں لڑنا چاہئے کیا گدھے والا انسان نہیں ہوتا ؟ تو جناب میرا یہ جواب ہے کہ گدھے والا انسان بھی ہے اور اُسے الیکشن لڑنے کا قانونی حق بھی ملنا چاہئے مگر اُس کے گدھے کے ساتھ ساتھ اُس گدھے والے کا تعلیمی معیار بھی دیکھنا چاہئے کہیں ایسا نہ ہو کہ گدھے کے ساتھ ساتھ گدھے والا بھی گدھا ہی ہو با لکل اُس شخص کی طرح جو کہ چپڑاسی کی نوکری کے لئے نا اہل تھا مگر الیکشن جیتنے کے لئے ایک دم میرٹ پر تھا (آپ کبھی ایسے سیاستدانوں سے میرٹ کا معنی پوچھ کر دیکھئے یقین مانیں اُس کو نہیں معلوم ہوگا کہ میرٹ کس بلا کا نام ہے ) اِس لئے ضروری ہے کہ الیکشن میں حصہ لینے کے لئے اُس کا کوئی میرٹ مقرر کیا جائے بندہ پڑھنا لکھنا جانتا ہو، اچھے بُرے میں تمیز کر سکتا ہو، عوامی نمائندہ بن کر عوام کے مسائل حل کرنے میں چُوں چراں سے کام لینے والا نہ ہو، ہیلپ لائن والوں کی طرح چوبیس گھنٹے دستیاب ہو ، گلی محلوں کے گٹر صاف کروانے کا وسیع تجربہ رکھتا ہو، اپنی ذمہ داریوں کا احساس رکھتا ہووغیرہ وغیرہ ! بھلا یہ کہاں کا انصاف ہوا کہ ایک بندہ جو کہ چپڑاسی کی نوکری کے لئے نا اہل ہو مگر الیکشن کے لئے اہل ہوجائے؟ اِنہی اَن پڑھ اورنسلی سیاست دانوں کی وجہ سے ہم آج تک ترقی نہیں کر پائے آج تک ہمارے گلی محلوں میں گٹر اُبل رہے ہیں، آج تک ہمیں پینے کا صاف پانی میسر نہیں ہو سکا ،آج تک سردیوں میں جلانے کے لئے پوری گیس نہیں ملی ،آج تک بارش کا پانی گلیوں سے نہیں نکلتا اور تو اور آج تک مرنے والوں کو مفت میں قبر بھی نہیں ملی کیوں؟ کیونکہ ہم خود آج تک کوئی فیصلہ نہیں کر پائے کیونکہ ہم خود آج تک موروثی سیاست میں گھِرے ہوئے ہیں کیونکہ یہاں نسل در نسل اقتدار منتقل ہو رہا ہے ، کیونکہ یہاں وڈیرہ شاہی سسٹم چلا آ رہا ہے کیونکہ یہاں پڑھے لکھے لوگوں کی لگام اِن نام نہاد سیاستدانوں اور وڈیڑوں کے ہاتھ میں ہے جو جب چاہیں جس کی چاہیں لگام کھینچ دیتے ہیں اور بیچاری عوام اُس کمہار کے گدھے کی طرح صرف ڈھیچکوں ڈھیچکوں ہی کرتی رہ جاتی ہے اِس لئے اب کی بار خُدارا گدھا نہ بننا اور اپنی لگام گدھے والے کے ہاتھ میں نہ دینا نہیں تو پھر اگلے الیکشن تک عوام ایک دوسرے کو دولتیاں مارنے کے ساتھ ساتھ ڈھیچکوں ڈھیچکوں ہی کرتی رہے گی۔
M.Irfan Chaudhary
About the Author: M.Irfan Chaudhary Read More Articles by M.Irfan Chaudhary: 63 Articles with 59476 views I Started write about some serious issues and with the help of your feed back I hope I will raise your voice at the world's platform.. View More