بی جے پی اور مودی کی حرکات بھارت کو ایکسپوز کرنے کیلئے کافی ہیں
(Prof Liaquat Ali Mughal, Kehroor Pakka)
یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ دہشت
و وحشت کے اندھیرے میں انسانیت اور بھی روشن اور واضح نظر آتی ہے ضرورت اس
امر کی ہے کہ انسانیت کی یہ شمع کون جلاتا ہے اور کس انداز میں جلاتا ہے ،کس
حوصلے سے اس مشعل کو گھٹاٹوپ اندھیروں میں لے کر نکل کھڑا ہوتا ہے اور
بلاتفریق انسانیت کو فیض پہنچاتا ہے بھارت میں انسانیت سوزی کی بڑھتی ہوئی
وارداتوں اور واقعات میں یہ واقعہ مسلمانوں کی سماجی خدمات کی تا زہ ترین
مثال ہے جو ایک مسلمان صحافی نے رقم کی ہے اقبال انصاری ایک ٹرین میں سفر
کررہے تھے کہ انہیں معلوم ہوا کہ کمپارٹمنٹ میں ایک ہندو خاتون نے ایک
بچیکو جنم دیا ہے اور اس کا شوہر اپنے دونوں ہاتھوں میں نوزائیدہ بچے کو
تھامے بے بس و بے یارو مددگار بیٹھا ہے اور ماں بھی اذیت میں مبتلا ہے
کیونکہ بچے کی نال ابھی تک ماں سے جڑی تھی جو ایک نہایت ہی خطرناک بات
تھی۔اس صورت حال میں کچھ مسافر خاموش تماشائی تھے تو کچھ وہاں سے کھسک جانے
میں عافیت محسوس کررہے تھے۔ عجیب و غریب صورت حال سے دوچار یہ ہندو جوڑا
کسی غیبی مدد کا منتظر تھا۔ اقبال انصاری نے ریلوے ہیلپ لائن سے رابطہ کیا
صورت حال سے مطلع کیااور مدد کی درخواست کی ڈاکٹر آیا اور اس نے زچہ و بچہ
کی جان بچائی۔ لیکن اقبال نے یہ بات کسی کو نہ بتائی کہ وہ ایک جرنلسٹ ہے
دوسرے روز اخبار میں خبر شائع ہوئی تو بی ایم سی کی سٹینڈنگ کمیٹی کی میٹنگ
میں اقبال انصاری کو خراج تحسین پیش کیا گیا اور ان کے اقدامات کو سراہا
گیا بلکہ ایک خاتون صحافی نے تو یہاں تک کہہ دیا کہ ’’ذرا بی جے پی کو
بتادو کہ مسلم نوجوان سماجی خدمات انجام دے رہے ہیں‘‘
بھارت کے گھٹن زدہ اور کشیدگی کے ماحول میں جہاں اس وقت ہندو مسلم ہندو سکھ
اور دوسرے نسلی و فرقہ وارانہ فسادات میں بھارتی سرکار کی مسلم دشمنی پیش
پیش نظر آرہی ہے اقبال انصاری کا یہ اقدام ایک خوشگوار جھونکا ہے اور
اندھیرے میں روشنی کی واضح کرن ہے اخبارات ٹی وی چینلز سوشل میڈیا پر جبکہ
چہارجانب انسانیت سوز اور حیوانیت پر مبنی واقعات خوف وہراس کی فضا پیدا
کررہے ہیں متعصب ہندو مسلمانوں پر شب خون مارنے کا کوئی موقع جانے نہیں دے
رہے گائے کا ذبیحہ ہو کہ مسجد میں اذان و نماز کے معاملات یا گوشت کا
استعمال ، اپنے مذہب سماجی اقدار اور قانون کی آڑ میں مسلمانوں پر مظالم کے
کوہ گراں توڑے جارہے ہیں تو اس صورت حال کا نوٹس ہر جگہ لیا جارہا ہے سوائے
بھارتی سرکار کے۔ اس مسئلے پر بیرون و اندرون انڈیا کے مسلمان تو مسلمان
انڈیا کے ہندوبنئے اور دوسرے فرقوں سے تعلق رکھنے والے لوگ بھی مودی سرکار
کی موذی خاموشی اور انسانیت سوزی پر بلبلا اٹھے ہیں۔ ادیب فنکار قلم کار
اور شعرا حضرات جو کہ کسی بھی معاشرے کے سب سے حساس امن پسند صلح جو بے ضرر
اور ٹھنڈے جذبات کے حامل لوگ ہوتے ہیں انہوں نے بھی اس پر شدید غم و غصے کا
اظہار کیا اور اپنے غصے کواحتجاج کا رنگ اس طرح دیا کہ جن شعرا ، ادبا،
دانشوروں، فنکاروں اور قلم کاروں نے اکیڈمی ایوارڈز وصول کئے تھے اور انہوں
نے واپس کرنا شروع کردیئے ان میں اکثریت غیرمسلم اور انٹر نیشنل شہرت کے
حامل افراد کی ہے جن میں ادئے سنگھ نین تارا سہگل کیکی دارو والا کاشی ناتھ
خلیل مامون و دیگر شامل ہیں حتی کہ ایک تامل قلم کار نے تو دھمکیوں سے
خوفزدہ ہوکر قلم سے ہی ہاتھ کھینچ لیا اب یہ احتجاج پوری دنیا میں زیر بحث
ہے جس کی وجہ سے مودی سرکار المعروف موذی سرکار کی پاپولیریٹی کا گراف مزید
گرتا جارہا ہے ۔ بھارت کے سیکولر چہرے کے نقوش مزید سیاہ ہوتے جارہے ہیں
لیکن متعصب مودی سرکار اور ا س کے متشدد حواری اس پر کان دھرنے کو تیار
نہیں
دوسری جانب یہ خبر بھی گردش میں ہے کہ امیت شاہ نے ہریانہ کے وزیر اعلی
منوہر لال، مرکزی وزیر مہیش شما ساکسی مہاراج اور سنگیت سوم کو بی جے پی کے
دفتر طلب کیا اور انہیں مشورہ دیا کہ وہ لوگ اپنی ہٹ دھرمی چھوڑیں اشتعال
انگیز بیان بازی سے احتراز برتیں مذہبی امور اور دوسرے فرقہ وارانہ منافرت
پھیلانے والے عوامل کو ہوا نہ دیں لیکن معلوم یہ ہوتا ہے کہ امیت شاہ کی
بات بھی ان کے نزدیک گدھے کی لات کے مترادف ہوگی کیونکہ اس سے قبل بھی
پارٹی کے لیڈر اور وزیراعظم نریندر مودی نے گونگلوؤں سے مٹی اتارنے کیلئے
اپنے پارٹی رہنماؤں اور ورکروں اور اسی قسم کی ذلیل اور رسوا کن حرکات و
افعال سے منع کیا تھا لیکن اس کا کوئی بھی مثبت نتیجہ نہ نکل سکا تازہ ترین
واقعہ میں جموں کشمیر کے آزاد رکن اسمبلی انجینئر رشید کے منہ پر سیاسی
ملنے کا ہے جس پر ادیبوں فنکاروں قلمکاروں شاعروں نے گالی دینے کی حد تک
برابھلا کہا لیکن عدم برداشت کے رویے اور واقعات کسی طور تھمنے کا نام نہیں
لے رہے ہیں۔ دادری مین پوری شملہ جنوبی کشمیر مہاراشٹر لدھیانہ جالندھر
امرتسر بھٹنڈہ و دیگر شہروں کے واقعات چیخ چیخ کر بھارتی سرکار کی ہندو
پروری کا بھر کھول رہے ہیں ہر شخص چاہے اس کاتعلق بھارت سے ہو کہ کسی بھی
دوسرے ملک سے نریندر مودی سوالات کے جوابات کے متقاضی ہیں اول یہ کہ ان کی
ان فسادات پر خاموشی چہ معنی دارد ہے سوائے نام نہاد کامیابیوں کو اپنے نام
منسوب کرنے کے ان کا کسی واقعہ سے کوئی رحجان یا دلچسپی نظر نہیں آتی سانحہ
دادری ان کی خاموشی اور پھر ریاستی حکومت کو ذمہ دار ٹھہرانا غلام علی کی
تقریب کا منسوخ ہونا بی سی سی آئی کے دفتر میں شیو کے کارکنوں کا گھس توڑ
پھوڑ کرنا ہریانہ میں بچوں کا زندہ جلادینے پر کوئی رد عمل کا نہ آنا دال
کو کالا کرنے کیلئے کافی ہے اور انسانی حقوق کی پامالی کے ان واقعات نے
سیکولر بھارت کے منہ پر ایسی کالک مل دی ہے کہ اس کا چہرہ ظلمت کی سیاہی سے
سیاہ ہوگیا ہے یہی وجہ ہے کہ اقوام عالم کو بھی اس میں کچھ نہیں سوجھ رہا۔
لیکن انشاء اﷲ اس کا مکروہ اور سیاہ چہرہ نورانی روشنی سے ہی عیاں ہوگا اور
کوئی بھی کامل مسلمان ہی اسے روشن کرکے دنیا کے سامنے لائے گا جس طرح اقبال
انصاری نے کیا۔
|
|