گورا رنگ ہی آخر کیوں؟

“ گورے رنگ کا ہے زمانہ٬ کبھی ہوگا نہ پرانا٬ گوری تجھے ڈر کس کا ہے٬ تیرا تو رنگ گورا ہے“- وائٹل سائن کا یہ گانا اپنے وقت پر نہایت مقبول ہوا تھا- بظاہر سننے میں یہ محض ایک گانا ہے مگر اس کے اندر چھپے فلسفے کو بہت کم لوگوں نے محسوس کیا- یہ گانا نہ صرف زمانے ماضی پر بلکہ حال پر بھی کھرا ہوتا ہے-

“ گورا رنگ “ ہمارے معاشرے میں حسن و جمال ناپنے کا سب سے اہم پیمانہ تصور کیا جاتا ہے- شاید یہی وجہ ہے کہ رنگ گورا کرنے والی کریم بنانے والی کمپنیوں میں بےدھڑک سرمایہ کاری کی جاتی ہے- آئے دن نت نئے قسم کی کریمیں٬ صابن اور لوشن متعارف کروائے جاتے ہیں- معاشرے کے بے پناہ دباؤ کے باعث بیشتر پاکستانی لڑکیاں رنگ گورا کرنے کے لیے جتن کرتی رہتی ہیں-
 

image


بہو گوری ہونی چاہیے:
بات کریں شادی بیاہ کی تو وہاں بھی گورے رنگ کا زیادہ عمل دخل دکھائی دیتا ہے- مرد حضرات خود چاہے جیسے بھی شکل و صورت کے مالک ہی کیوں نہ ہوں٬ مگر ان کی خواہش خوبصورت گوری لڑکی سے شادی کرنا ہی ہوتی ہے- مائیں بھی اپنے لاڈلے بیٹے کے لیے “ چاند “ جیسی بہو ڈھونڈنے کے لیے کوشاں رہتی ہیں٬ یہ سوچے بغیر کہ ان کے اپنے چاند کو گرہن لگا ہوا ہے-

ضرورتِ رشتہ:
اگر اخبارات کا مطالعہ کرنے کا موقع ملے تو آپ کو آئے دن اس قسم کے کئی اشتہارات دیکھنے کو ملیں گے جیسے کہ:

“ لڑکی کا رشتہ درکار ہے٬ عمر 20 سال٬ قد 5 فٹ 5 انچ ٬ رنگ “ گورا “٬ اسمارٹ٬ گھریلو٬ کم سے کم گریجویٹ“-

“لڑکی کا رشتہ درکار ہے٬ رنگ “ گورا “٬ خوبصورت٬ تعلیم یافتہ٬ چاہے گھریلو ہو یا ملازمت پیشہ ٬ ذات کی کوئی قید نہیں“-

اس اشتہار کو پڑھ کر پاکستانی عوام کی ذہنیت کا اندازہ باآسانی لگایا جاسکتا ہے جو شادی کرنے کے لیے کردار سے زیادہ ظاہری خوبصورتی کو ترجیح دیتے ہیں-
 

image


بیوٹی کریم کی اشتہاری مہم اور ہماری عوام:
پاکستانی گورے رنگ کو خوبصورتی کی علامت سمجھتے ہیں- “فئیر اینڈ لولی“ اور “فئیر اینڈ ہینڈسم“ جیسی اشتہاری مہم اس سوچ کو پروان چڑھانے میں پیش پیش ہیں- آئے دن ٹی وی پر آتے ان اشتہارات میں رنگ گورا کرنے والی کریمیں فروخت کرتے مقبول فنکار عوام کو اپنی جانب متوجہ کرنے کامیاب ہوجاتے ہیں- عائزہ خان٬ صبا قمر٬ مہوش حیات اور جگن کاظم جیسی مقبول اداکارائیں بیوٹی کریموں کے اشتہارات کی زینت بن چکی ہیں-

خواتین تو خواتین اب تو مرد حضرات بھی گورے رنگ کے حصول کے لیے فکرمند نظر آتے ہیں- فئیر اینڈ لولی مین ( Fair & Lovely ) کے اشتہارات میں فواد خان٬ شاہد آفریدی٬ شعیب ملک جیسے نامور چہرے متعارف کروائے گئے-
 

image


ہم سب کی ہر دل عزیز “ زبیدہ آپا “ بھی کسی سے کم نہیں- “ زبیدہ آپا وائٹننگ سوپ “ کے نام سے بیوٹی سوپ کو متعارف کروایا گیا جس کا دعویٰ ہے کہ اس کے استعمال سے پورے پاکستان کی خواتین ہوجائیں گی گوری گوری-

اگر فئیرنس کریموں کے اشتہارات کے فلسفلے کی بات کریں تو اس میں دکھایا جاتا ہے کہ کیسے ایک لڑکی اپنے سانولے رنگ کی وجہ سے پراعتماد نہیں ہے- پھر جیسے جیسے وہ فئیرنس کریم کا استعمال کرتی جاتی ہے اس کی زندگی میں نکھار آتا جاتا ہے- اس کو نوکری مل جاتی ہے اور خوبرو نوجوان سے شادی بھی ہوجاتی ہے- غرض یہ ہے کہ ہر ناممکن کام ممکن ہوسکتا ہے اگر آپ گوری ہیں-

بھارت اور پاکستان میں چلائی گئی آگہی مہم:
کالے رنگ کا رونا صرف ہم نہیں روتے٬ پڑوسی ملک سانولی رنگت کا معاملہ ہم سے کہیں زیادہ حساس نظر آتا ہے-بھارت میں اس سلسلے میں آگہی مہم کا آغاز ہوا- 2009 میں ‘Dark is Beautiful’ کے نام سے ایک مہم چلائی گئی- اس مہم کے ساتھ بھارتی فنکارہ نندتا داس بھی منسوب رہیں- اس مہم کا مقصد خواتین کی اصل خوبصورتی کو اجاگر کرنا تھا جو گورے رنگ کی بحث میں کہیں گم ہوچکی تھی- اس مہم پر کافی بحث و مباحثہ ہوا اور اس کاوش کو میڈیا میں کافی پذیرائی بھی ملی-
 

image


پاکستان میں بھی اس طرز پر “Dark is Divine” کے نام سے 2013 میں سوشل میڈیا پر مہم چلائی گئی جس کے ذریعے سانولے رنگ کی خوبیاں بیان کی گئیں- اس کے ساتھ ساتھ گورا رنگ کالے رنگ سے کیسے افضل ہے اس فلسفے پر زبردست بحث دیکھنے کو ملی-

انگریزوں جیسا دکھائی دینے کا خبط:
گورے رنگ کا حصول اتنی اہم بات نہیں جتنی ہمیں لگتی ہے- یہ زہر نہ جانے کس نے ہماری نسل کے دماغ میں اتار دیا ہے جو کہ گہرائی تک سرایت کر چکا ہے- اس کی مثال کچھ اس طرح سے لیں کہ اگر دو لوگ کافی عرصے بعد ملیں تو ان کی گفتگو کچھ اس طرح سے ہوتی ہے “ کیسے ہو “؟٬ تم تو اچھے خاصے گورے ہوئے کرتے تھے یہ تمہارے رنگ کو کیا ہوا؟ انسان کو چاہے خود اپنی مدھم پڑتی رنگ کا خیال ہو یا نہ ہو لیکن مگر یہ سننے کے بعد ضرور ہوجاتا ہے-

ان باتوں کا مطلب یہ ہوا کہ اگر کوئی آدمی یا عورت سانولی رنگ کے حاصل ہیں تو وہ پرکشش نہیں؟

بات انگریزوں کی٬ کی جائے تو ہم آپ کو بتا دیتے ہیں مغربی دنیا میں گوری رنگت خوبصورتی کی علامت ہرگز نہیں- انگریز تو اپنی گوری رنگت سے خود تنگ آئے ہوئے ہیں- اسی لیے وہ گرمیوں کے موسم میں ساحل پر لیٹ کر اپنے آپ کو سورج کی روشنی سے سانولا کرنے کی کوشش کرتے رہتے ہیں-

سنہرے الفاظ:
اﷲ تعالیٰ نے انسان کو اشرف المخلوقات کا درجہ دیا ہے- انسان ہر مخلوق سے افضل ہے- اور اس کی بنیاد ظاہری خوبصورتی یا گورا رنگ نہیں بلکہ آپ کی کھوپڑی میں موجود دماغ ہے- لہٰذا اس بات سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ آپ کا تعلق صومالیہ سے ہے یا امریکہ سے٬ اگر آپ اپنی زندگی میں عقل و دانشمندی سے کام لیتے ہیں تو آپ سب سے بہتر ہیں- گورے رنگ کے لیے دیوانے نہ بنیں کیونکہ ہم اس قوم سے تعلق رکھتے جس کے پہلے مؤذن حضرت بلال رضی اﷲ تعالیٰ عنہ حبشی تھے مگر اپنی دلوں کو چھوتی آواز کی بدولت لوگوں کے دلوں میں گھر کر گئے-

ذرا سوچیے!!

YOU MAY ALSO LIKE:

Fairness phobia is not new for Pakistanis. We appreciate the people with fair color and good looks, and discourage those with dark complexion. The role of media in promoting this fairness phobia is phenomenal. They have convinced people of Pakistan that no matter how much cultured, civilized and down to earth you are; your actual qualification is your fair complexion. This article focus on the ideology behind preferring fair color and highlights the co- factors involved in this.