عمران خان اپنی نجی زندگی کی دوسری اننگ میں کلین بولڈ

تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان اور ان کی دوسری شریک حیات ریحام خان کے درمیان طلاق ہوگئی، یہ خبر ہر حلقے میں دکھ اور تکلیف کے ساتھ محسوس کی گئی۔ لیکن یہ حقیقت ہے جس کی اطلاع دونوں فریقوں نے از خود دی۔ ذیل کے مضمون میں عمران خان کی نجی زندگی کے اس فیصلے کا تجزیہ کرنے کی کوشش کی گئی ہے
تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان اپنی نجی زندگی کی دوسری اننگ میں بھی کلین بولڈ ہوگئے۔ یہ اننگ جنوری 2015 ء کو شروع ہوئی تھی صرف نو ماہ جاری رہی اس اعتبار سے یہ بہت ہی مختصر اننگ رہی۔ کپتان کی پہلی اننگ 9سال جاری رہی تھی، گویا 9 کا ہندسہ کپتان کی زندگی میں اہمیت رکھتا ہے۔ کپتان کی پہلی شریک سفر ایک مالدار باپ کی بیٹی تھی ، جمائیماخان، لیکن متعدد وجوہات کے باعث وہ خان صاحب کے ساتھ چل نہیں سکی، اور نو سال بعد اس اننگ کا اختتام ہوا۔اپنی پہلی اننگ میں کپتان نے جمائیما کے ساتھ مل کر دو چھکے لگائے پہلا چھکا 18نومبر1996ء کو لگایا ، یہ ان کا بڑا بیٹا ہے سلیمان عیسیٰ ، دوسرا چھکا 10 اپریل 1999کو لگایا یہ ان کا چھوٹا بیٹا ہے قاسم۔ 2014ء میں ان کی برطانوی شریک حیات نے کپتان کو کلین بولڈ کردیا ۔ کپتان کی زندگی کی دوسری اننگ 9جنوری 2015ء کو شروع ہوئی۔ اس بار بھی ان کے مرد مقابل ایک برطانوی پاکستانی خاتون تھی جوپیشے کے اعتبار سے صحافی اور ٹی وی اینکر تھی۔ریحام خان برطانوی پاکستانی ضرور تھیں لیکن ان کا خاندان پشتون تھا۔ وہ ہندکو اورپشتو بہت روانی سے بولا کرتی ہیں۔ کپتان کی دونوں سابق ہمسفروں میں ایک بات قدر مشترک رہی کہ دونوں کا تعلق برطانیہ سے تھا۔ کہا جاتا ہے کہ جمائیما سے علیحدگی کے بعد کپتان اور جمائیما میں دوستانہ مراسم قائم ہیں۔ ہونے بھی چاہیے کیونکہ وہ کپتان کے دو بیٹوں کی ماں ہے۔ اس کا اتنا حق تو ہے کہ وہ اپنے بیٹوں کے باپ سے اچھے مراسم رکھے۔

نو ماہ قبل کپتان نے جن حالات میں شادی کی تھی اس وقت اکثر لوگوں نے انگلی اٹھائی تھی کہ وہ حالات ایسے نہیں تھے کہ کپتان شادی کرتے ، کچھ وقت گزارلیتے پھر یہ فریضہ انجام دے لیتے لیکن انہوں نے تمام تر ابتر حالات کو پشِ پشت ڈال کر سہاگ راک منا ڈالی۔ یہ بندھن بھی عجیب تھا کہ قائم ہوتے ہی چیمہ گوئیاں شروع ہوگئیں کہ یہ بندھن قائم رہتا نظر نہیں آرہا۔ آخر کیوں ؟ ریحام خان ایک پڑھی لکھی خاتون تھیں، وہ اپنی نجی زندگی کی ایک اننگ پہلے ہی کھل چکی تھی، ان کے بچے بھی تھے، عمران خاں توان کا دوسرا سپنا تھے، کپتان بھی چھوٹے نہ تھے،یہ 25نومبر1952ء کو دنیا میں آئے تھے جب انہوں نے دوسری اننگ کا آغاز کیا تو یہ62 کے تھے۔ عاقل اور بالغ بھی ، پاکستان کی سیاست میں لوگوں کو ان سے امیدیں وابستہ تھیں، ان کے چاہنے والے تو پوری دنیا میں ہیں لیکن پاکستان میں ان کے چاہینے والوں کی تعداد لاکھوں نہیں بلکہ کروڑوں میں ہوگی، پھر آخر اس مختصر وقت کے بعد کہ اس عرصہ میں تو نئی نویلی دلھن کی مہندی بھی ٹھیک طرح صاف نہیں ہوئی ہوتی یہ نوبت طلاق تک کیسے پہنچ گئی۔ اس کے پیچھے یقینا بے شمار سوالات چھپے ہیں جو وقت کے ساتھ ساتھ سامنے آئیں گے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ کپتان کی زندگی کا معاملا ہے اس میں کسی کو بلا وجہ دخل دینے کی ضرورت نہیں ہونی چاہیے لیکن جب کوئی شخصیت عوامی بن جاتی ہے تو اس کا ہر ہر فعل، ہر ہر عمل عوام سے پوشیدہ نہیں ہوا کرتا، وہ ملک و قوم کا سرمایا اور ملکیت بن جاتا ہے، اس کی تکلیف عوام کی تکلیف ہوتی ہے اس کی خوشی عوام کی خوشی ہوتی ہے۔ اس لیے عوام کو کپتان کے اس عمل پر جو یقینا اس کا نجی عمل ہے کس قدر افسوس اور دکھ ہوا ہے اس کا اندازہ وہی لوگ کرسکتے ہیں ۔

بعض کاکہنا ہے کہ کپتان نے جب دوسری اننگ کا آغاز کیا تو اس کی اس شادی میں چند لوگ ہی شریک تھے حتیٰ کہ کپتان کی حقیقی بہنیں بھی اس میں شریک نہ تھیں۔ دوسرے الفاظ میں یہ کہا گیا کہ’ اس شادی پر کپتان کی بہنیں خوش نہیں تھیں ان کا کہنا ہے کہ ان کی بھابی تو جمائیما ہی ہے کیوں کہ وہ ان کے بھتیجوں کی ماں ہے‘۔ ریحام خان سے شادی کا فیصلہ کب، کیوں اور کس طرح ہوا اس بارے میں تاحال واضح بات سامنے نہیں آسکی۔ ساتھ ہی طلاق کا فیصلہ کیوں، کب اور کیسے ہوا ، قیاس آرائیاں ہیں، باتیں ہیں، التبہ یہ ضرور ہے کہ ریحام خان سے کپتان کی علیحدگی کی خبریں بہت عرصہ سے گردش کررہی تھیں۔ سوشل میڈیا پر ہی نہیں بلکہ ٹی وی پر کچھ سینئر اینکر ا س جانب اشارہ کرتے نظر آئے، اس سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ سہاگ رات کے فوری بعد ہی معاملات خرابی کی جانب چلا گیا تھا۔ کسی نے کہا کہ ریحام خان سیاست میں اہم کردار کی خواہش مند تھی، جیسا کہ اس نے ایک ضمنی انتخاب میں بھر پور مہم چلائی یہ دوسری بات کہ وہ ضمنی انتخاب تحریک انصاف جیت نہ سکی، تحریک انصاف کی اس شکست کا بھی ریحام خان کو ذمہ دار ٹہرایا گیا۔ وہ عمران کی اجازت سے عملی سیاست میں اتری، انتخابی مہم میں حصہ لیا اور جب کپتان نے اسے سیاست میں حصہ لینے سے روک دیا تو وہ رک تو گئی لیکن یہ بھی ایک وجہ رہی اختلافات کی، یہ وجہ اتنی بڑی اور شدید نہیں کہ اس کو بنیاد بنا کر زندگی کو دو لخت کرنے کا فیصلہ کر لیا جائے۔بعض نے اختلاف کی وجہ پیسہ ا ور جائیداد بتایا وہ بھی اس قدر اہم نہیں۔ ریحام بھی اور کپتان بھی مالی طور پر مستحکم اور خوش حال ہیں۔

وجوہات جو بھی رہیں ہوں ۔ یہ کوئی اچھا عمل نہیں، قرآن نے طلاق کو جائز کہا لیکن اﷲ نے اسے ناپسندیدہ فعل بھی قرار دیا۔ ہمارے معاشرے میں طلاق کو اچھا نہیں سمجھا جاتا۔یہ ایک ایسا فعل ہوتا ہے کہ جس کے اثرات نہ صرف فیصلہ کرنے والوں کی زندگی پر پڑتے ہیں بلکہ اس کی اولاد، بہن بھائی اور پورا خاندان اس کی لپیٹ میں آجاتا ہے۔ اکثر نادان معمولی معمولی اختلافات کی بنیاد پر دوسروں کویہ مشورہ دیتے نظر آتے ہیں کہ اگر اختلافات ہیں تو فلاں اپنی بیوی کو طلاق دے دے۔ وہ یہ بھول جاتے ہیں کہ یہ زندگی کا کس قدر اہم اور نازک فیصلہ ہوتا ہے۔ اس کے اثرات دور تک بلکہ نسلوں تک جاتے ہیں۔ طلاق لینے والی خواتین کو دنیا اپنی گفتگو میں یہ کہہ کر مخاطب کرتی ہے کہ اچھا وہ جس نے اپنے شوہر سے طلاق لے لے تھی، جو مرد طلاق دے دیتا ہے اسے دنیا اس طرح مخاطب کرتی ہے کہ اچھا وہ جس نے اپنی بیوی کو طلاق دے دی تھی۔ اس طرح کے جملے تعریفی نہیں بلکہ طنزیہ ہوا کرتے ہیں۔ کپتان کے اس فعل پر پیپلز پارٹی کی ایک خاتون لیڈر نے عمران کو ہیٹرک کرنے کا مشورہ دیا، اسی طرح کسی نے ریحام خان کو بھی ہیٹرک کا مشورہ دیا۔ اس قسم کے جملے دونوں کی تعریف بیان نہیں کررہے بلکہ یہ ان پر تیر و نشتر چلائے جارہے ہیں جس کا موقع دونوں نے از خود فراہم کیا ہے۔

کپتان اور ریحام کے اس بندھن سے کپتان کا کیاملا اور ریحام کو کیا حاصل ہوا؟ اس کا تجزیہ کیا جائے تو کپتان خسارے میں نظر آتا ہے اور ریحام خان ہیٹرک پر پہنچ جانے کے بعد بھی فائدہ کی جانب گامزن نظر آتی ہے۔ کپتان نے جب شادی کا فیصلہ کیا اور پھر شادی بھی کر لی تو کپتان کے چاہنے والوں کی اکثریت نے کپتان کے اس فعل کو اندر سے اچھا محسوس نہیں کیا، گو یہ کپتان کی نجی زندگی کا فیصلہ تھا پھر بھی انہوں نے اسے قبول کر لیا اور کپتان کا نعرہ اسی طرح لگاتے رہے۔ اب جب کے کپتان کا یہ فیصلہ سامنے آیا تب بھی کپتان کے چاہنے والے افسردہ ہیں، غمگین ہیں، بوجھل دل سے یہ کہتے نظر آرہے ہیں کہ یہ عمران کا ذاتی معاملا ہے۔ اس عمل سے کپتان کی سیاسی ساکھ بھی متاثر ہوئی، سیاست میں کپتان کے مخالفین یہ کہہ کر خاموش ہیں کہ ہمیں تو پہلے ہی معلوم تھا کہ یہ بیل منڈھیر نہیں چڑھے گی، وزیر اعظم میاں نواز شریف نے اپنی جماعت کے لیڈروں کو منع کر دیا ہے کہ وہ عمران کے اس عمل پر کسی بھی قسم کا تبصرہ نہ کریں۔ یہ بھی ایک اچھا اقدام ہے اس کے پیچھے عمران سے ہمدردی کا جذبہ نہیں بلکہ سیاسی برتری کاروب ظاہر کیا گیا ہے۔ اب اگر یہ جائزہ لیں کہ اس عمل سے ریحام خان خسارہ میں رہی یا اسے کپتان کے مقابلے میں فائدہ ہوا تو لگتا ہے کہ ریحام خان نے اگر از خود یہ سودا کیا تو وہ خسارہ کا سودہ نہیں بلکہ اسے فائدہ ہی ہوا۔ وہ اس طرح کہ عمران سے بندھن میں بندھنے سے قبل کتنے لوگ ریحام کو جانتے تھے، ایک چھوٹے سے چینل پر ریحام لوگوں کے انٹر ویو ہی تو کیا کرتی تھی اور بس، بی بی سی سے وابستہ رہی اسے کس کو معلوم ، اس کی تو ڈگری کوبھی جعلی قرار دیا گیا، عمران نے اس کا دفع کیا ۔ اب جب کہ ریحام عمران خان سے آزاد ہوگئی ، وہ شہرت کی بلندیوں پر پہنچ چکی ہے۔ پاکستان ہی نہیں بلکہ دنیا میں جانی جانے لگی ہے۔ اس نے سیاست کا مزاہ بھی خوب اچھی طرح چھک لیا ہے، کسی نے تو یہاں تک کہا کہ’ وہ پارٹی کو اپنی گرفت میں لینا چاہتی تھی۔ عمران کو replaceکرنا چاہتی تھی‘۔ وہ پڑھی لکھی ہے، اس نے سیاسی لوگوں کے انٹر ویوز بھی کیے ان سے بھی اس نے بہت کچھ سیکھا ہے، اب وہ لکھے گی تو اس کے قلم میں طاقت ہوگی، دنیا کا بڑے سے بڑا اخبار اسے اپنے ہاں لینے پر تیار ہوگا، اگر ٹی وی جوائن کرنا چاہیے گی تو پاکستان کا بڑے سے بڑا چینل اسے خوش آمدید کہے گا، پاکستان سے باہر بھی بی بی سی اور وائس آف امریکہ بھی اسے اپنا ساتھی بنا نا خوشی سے پسند کریں گے۔ اگر اس نے پاکستان میں سیاست کرنے کا ارادہ کیا تو بھی اسے ہاتھو ہاتھ لیا جائے گا، اگر اس نے اپنی سیاسی جماعت بناکر پاکستانی سیاست میں اتر نے کی منصوبہ بندی کی تو بھی وہ کامیاب ہوگی ۔ لیکن خیال یہی ہے کہ وہ پاکستان کی سیاست میں کوئی نہ کوئی کردار ادا کرے گی۔ امکانات اس بات کے زیادہ ہیں کہ وہ کالم نگار ی کرنے کو ترجیح دے گی تاکہ چھپی ہوئی کہانیاں باہر آئی۔حتمی طور پر کچھ بھی کہنا قبل از وقت ہے۔ آج تو اس فیصلے کی پہلی رات ہے ، صبح کیا کچھ پریس میں ہوگا یہ وقت بتائے گا۔(30اکتوبر2015)
Prof. Dr Rais Ahmed Samdani
About the Author: Prof. Dr Rais Ahmed Samdani Read More Articles by Prof. Dr Rais Ahmed Samdani: 866 Articles with 1439670 views Ph D from Hamdard University on Hakim Muhammad Said . First PhD on Hakim Muhammad Said. topic of thesis was “Role of Hakim Mohammad Said Shaheed in t.. View More