ناپسندیدہ شخص

پاکستان کا کوئی بھی حکمران اس سے خوش نہیں ۔ ، جنرل ضیاء الحق ، بے نظیر بھٹو ، نواز شریف اور جنرل پرویز مشرف ، آصف علی زرداری بھی اس کو ناپسند کرتے تھے ۔ ان حکمرانوںکے دور میں پولیس اور خفیہ ادارے اس شخص کے تعاقب میں رہتے تھے ۔ گھر پر چھاپے پڑتے تھے، مقدمے درج ہوتے تھے ، فائلیں کھلتی تھیں خفیہ ادارے تحقیقات کرتے تھے ۔ ناپسندیدہ شخص کے خلاف جھوٹے مقدمات قائم کئے جاتے تھے حتی کہ گرفتار بھی کیا گیا ۔ ملک چھوڑنے پر پابندی لگائی گئی اور جب ملک سے باہر گیا تو اس کے ملک آنے پر پابندی لگائی گئی ۔ کراچی میں پیدا ہوا، بلوچستان کے صحرائوں میں کھلے آسمان تلے زندگی کا ایک حصہ گزارا۔، بلوچستان کے صحرائوں میں سامان سے لدے ٹرک کی چھتوں پر سفر کرنے والا یہ شخص زندگی کی آٹھویں دھائی میں ہے۔ اسکی عملی زندگی صفر سے شروع ہوئی اور اتنے عروج تک گئی کہ اسکی تعلق داری اور دولت کا کوئی حساب نہیں رہا۔ خوش شکل اور خوش زبان ہوتے ہوے بھی حکمرانوں کے زیر عتاب رہا ۔ یہ وہ شخص تھا جس نے ایک معمولی سے کاروبار سے اپنی زندگی کا عملی سفر شروع کیا اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے پاکستان کا بزنس ٹائکون بن گیا ۔ پاکستان کے علاوہ کئی دوسروں ممالک تک اس کا کاروبار پھیلا ہوا ہے ۔اور اب سری لنکا اور افغانستان کی طرف بھی اس کی دولت مند شخص سے معاشرے میں توقع یہی کی جاتی ہے کہ وہ عیاش ہو گا شراب پیتا ہو گا اور اپنی دولت ناجائز کاموں پر صرف کرتا ہوگا مگر اس شخص کی زندگی میں ایسا کچھ نہیں وہ شراب پیتا ہے نہ عیاش ہے ۔ ہاں اس کی ایک خامی ضرور ہے کہ وہ اشرافیہ اور حکمرانوں کے سامنے دروگوئی کے بجائے حق اور سچائی کا برملا اظہار کرتا ہے ۔ حکمرانوں کی خوشنودی کے لئے دروغ گوئی اسکی سرشست میں نہیں، سچائی اور راست گوئی کا راستہ ہمیشہ اس کا مشکل راستہ آسان کرتا رہا ہے ۔ جنرل ضیاء الحق ہوں یا مشرف تمام حکمران اس کی راست گوئی ،اور دوٹوک انداز گفتگو کی وجہ سے اس سے ناراض رہتے ہیں ۔ پاکستان میں ہمیشہ اس کے لئے حالات ناسازگار بنا نے کی کوشش کی گئی مگر اس شخص نے ہمت ہاری اور نہ راست گوئی سے باز آیا۔ سابق صدر جنرل پرویز مشرف نے اقتدار سنبھالا تو چیئرمین نیب جنرل امجد کے ذریعے اس شخص کی دولت کے بارے میں تحقیقات شروع ہوگئیں ۔ حتی کہ غیر ملکی ایجنسی کی مدد سے بیرونی دنیا میں اس کے کاروبار اور اکائونٹس کی تحقیقات کروائی گئیں مگر ایسا کچھ نہیں نکلا جس سے ثابت ہو کہ یہ شخص پاکستان دشمن کارروائیوں میں ملوث ہے یا اس کی دولت کا غلط استعمال ہو رہا ہے ۔ اس شخص کی دوسری خامی یہ ہے کہ یہ ریاست پاکستان کا حامی ہے ۔ ریاست پاکستان کو خوشحال دیکھنا چاہتا ہے ۔ وہ چاہتا ہے کہ پاکستان کے نوجوانوں کی مایوسیاں ختم ہوں انہیں کام کرنے اور ترقی کے مواقع حاصل ہوں ۔ اس کی یہ بھی خواہش ہے کہ اس ملک سے کرپشن ، اقرباپروری کی روایت دم توڑ دے ۔ وہ یہ بھی چاہتا ہے کہ پاکستان ایک طاقتور ملک بنے اس کی بھرپور دفاعی صلاحیت ہو تاکہ کوئی دوسرا ملک اس پر بالادستی کی خواہش نہ کرے ۔ ۔ تنازعہ کشمیرکے بارے میں اس شخص کی گہری نظر ہے ۔ یہ شخص پاکستان کے مفادات کو نذر انداز نہیں کر سکتا تاہم اس کے خیال میں تنازعہ کشمیر کا حقیقی اور پائیدار حل وہی ہو سکتا ہے جس میں کشمیری کی مرضی اور منشا شامل ہو ۔ کشمیر کی تاریخ کے نشیب و فراز سے اس حد تک آگاہ ہے کہ اسے معلوم ہے کہ ریاست جموں و کشمیر ایک دور میں '' کنگ ڈم آف ریاست جموں و کشمیر '' تھی آزاد و خود مختار ریاست اب پاکستان اور بھارت کے زیر کنٹرول علاقوں پر مشتمل ہے۔ اس کی رائے ہے کہ ریاست کے ان علاقوں کی باہمی تعلق اور رشتے کو مضبوط کیا جائے ۔ ان دو خطوں کے درمیان تجارت کے ذریعے بھی رابطے استوار کئے جائیں ۔ کرپشن کو ایک ناسور سمجھنے والے اس شخص نے جنرل ضیاء الحق ، بے نظیر بھٹو ، نواز شریف اور جنرل پرویز مشرف ، آصف علی زرداری کے دور کا بغور جائزہ لیا ہے۔ نواز شریف کے گزشتہ دور حکومت میں حکومت اس سے ناراض تھی اب کی بار نواز شریف کا اقتدار شروع ہوا تو اس نا پسندیدہ شخص نے اپنے لیے پاکستان کو محفوظ تصور کرتے ہوے پاکستان کا رخ کیا۔ پاکستان میں کرپشن کیسے ہوتی ہے اور اس کی انتہا کا کیا ہے ؟۔ اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ اس ریاست کے چیف ایگزیکٹو سے لے کر پٹواری تک کرپشن سے الودہ رہتے ہیں ۔ جنرل محمد ضیاء الحق کے دور میں محمد خان جونیجو وزیر اعظم بنے تو اس شخص کو وزیر اعظم کے لئے منگوائی گئی مرسڈیز کار خریدنے کا مشورہ دیا گیا۔وزیر اعظم کے سیکرٹری بار بار ا سے کہتے رہے کہ یہ کار خرید لی جائے یہ شخص انکار کرتا رہا ۔ جب اسے مجبور کیا گیا تو اس نے کار کی دستاویز طلب کیں ۔ دستاویز دیکھنے سے معلوم ہوا کہ کار جعلساز ی ، سے سمگلنگ کے ذریعے منگوائی گئی ہے ۔ وزیر اعظم جونیجو اسے بیچ کر بھاری منافع حاصل کرنا چاہتے تھے ۔ اگر وزیر اعظم کا یہ حال ہے تو وزراء کا کیا حال ہو گا ۔ بیوروکریسی کیا کرتی ہو گی ۔ کلرکوں کے بینک اکائونٹس کہاں جا پہنچے ہوں گے اور پٹواری کی کہانیاں کس کس کو معلوم نہیں ہوں گی ۔ اس شخص کا نام صدرین ہاشوانی ہے۔ پاکستان اور پاکستان کے باہر جناب صدرالدین ہاشوانی کا کاروبار پھیلا ہوا ہے۔ کاروبار کے ساتھ ساتھ پاکستان کے مختلف علاقوں میں بالخصوص گلگت بلتستان میں صحت اور تعلیمی میدان میں بے شمار فلاحی منصوبے جاری ہیں ۔اس شخص بارے میرے ان خیالات کا ماخذTRUTH ALWAAYS PREVAILS ہے۔ سیاست سے جڑی ہوئی غیر سیاسی شخصیت جناب صدرالدین ہاشوانی نے '' سچائی ہمیشہ غالب رہتی ہے '' اپنی خود نوشت میں اپنے ماضی اور حال کو کھول کر رکھ دیا ہے ۔جناب صدرالدین ہاشوانی کی طرف سے بھیجی گئی کتاب کے مطالعے سے میں اس نتیجے پر پہنچاہوں کہ سچ اور جھوٹ کی تمیز ہی انسان کو بڑا بناتی ہے ۔۔ ہاشوانی نے ٹرک کی چھت پر سوتے ہوے کھبی مایوسی کا اظہار کیا تھا اور نہ فیلڈمارشل جنرل ایوب خان کا گھر خریدتے ہوے تکبر کا اظہار کیا۔ میں اس نتیجے پر بھی پہنچا ہوں کہ صدرو دین ہاشوانی ایک سچا ، محب وطن اور دین دار شخص ہے ۔ صرف یہی نہیں وہ جابر حکمرانوں کے سامنے سچائی کا برملا اظہار کرنے کا حوصلہ رکھتا ہے ۔ سچائی کے اظہار کے باعث اگرچہ وہ حکمرانوں کے لئے ناپسندیدہ شخص رہا ہے تاہم پاکستان کی ترقی کے لئے اسکی بیش بہا خدمات ہیں۔ جناب صدرالدین ہاشوانی نے اپنی کتاب میں حکمرانوں سے ناراضگی اور فوجی جنرلوں سے دوستی کی لازوال کہانی بیان کی ہے جنرل آصف نواز جنجوہ بھی ان کے دوست تھے ہاشوانی کے مطابق ان کو قتل کیا گیا تھا ۔ سابق صدر آصف علی زرداری کے بارے میں ان کا کہنا ہے کہ بے نظیر بھٹو کے پہلے دور سے وہ میرے خلاف تھے اور ان کے اقدامات سے میرے کاروبار کو نقصان پہنچا ۔ 20 ستمبر 2008 کو ہاشوانی کے میرٹ ہوٹل کو بم دھماکے سے تباہ کر دیا گیا ۔ ہاشوانی کہتے ہیں کہ مجھ پر دبائو ڈالا جاتا رہا کہ میں میڈیا کو بتائوں کہ اس بم دھماکے کا نشانہ صدر زرداری تھے ۔ صدر زرداری ایک عشائیے میں شرکت کرنے کے لئے میرٹ ہوٹل آنے والے تھے ۔ ہاشوانی کا کہنا تھا کہ صدر زرداری کا ہوٹل آنے کا کوئی پروگرام نہیں تھا دراصل وہ ایک روز بعد امریکہ جا رہے تھے وہاں جا کر یہ تاثر دینا چاہتے تھے کہ دہشت گردی کے خلاف وہ صف اول کا کردار ادا کر رہے ہیں ۔ تاہم میں نے ان کے منصوبے کی کامیابی کے لئے جھوٹ بولنے سے صاف انکار کر دیا تھا ۔ سچا اور کھرا شخص ہمیشہ ناپسندیدہ ہوتا ہے تاہم مجھے یہ شخص پسند ہے اس لئے کہ اس شخص نے اپنی دولت کے ذریعے پاکستان کی تقدیر بدلنے کی کوشش کی اپنا سرمایہ پاکستان میں لگایا اور پاکستان کے نوجوانوں کو روزگار فراہم کیا ۔ پاکستان میں سرمایہ کاروں کے لئے صحت مند رحجان پیدا کرنے میں اہم کردار ادا کیا ۔ جو شخص پاکستان کی خدمت کرتا ہے پاکستان کا وفادار ہے اسے دنیا کچھ کہتی رہے میرے لئے ایسا شخص محب وطن اور پسندیدہ ہے ۔
Sardar Ashiq Hussain
About the Author: Sardar Ashiq Hussain Read More Articles by Sardar Ashiq Hussain: 58 Articles with 55951 views
The writer is a Journalist based in Islamabad. Email : [email protected]
سردار عاشق حسین اسلام آباد میں مقیم صحافی ہیں..
.. View More