گلگت بلتستان یکم نومبر ١٩٤٧ کو
آزاد ہوا ۔ اس سے پہلے گلگت بلتستان ڈوگروں کے زیر تسلط تھا ۔ بہت سے لوگ
گلگت بلتستان کی اصل تاریخی حقائق سے آگاہ نہیں ہے ۔ یہاں مختصرا گلگت
بلتستان کی تاریخ بیان کر رہا ہوں۔ ساتھویں صدی قبل مسیح میں گلگت بلتستان
کو پلور کہتے تھے جسے چینی سیاح فاہیاں نے اپنے سفرنامے میں ذکر کیا ہے
پلور کی سرحدیں موجودہ چترال اورسوات سے لیکر مشرق میں تبت تک اور چلاس
کوہستان سے لیکر خنجراب تاک پھیلی ہوئی تھی۔ اسکا صدر مقام موجودہ خپلو کا
علاقہ تھا۔ بعد میں عرب مورخین سے اسے بگاڑ کر بلور بنا دیا ۔ اور اسی وجہ
سے بلورستان بھی کہتے ہیں۔ ۹۰۰ عیسوی میں یہ علاقہ تبت کے زیر تسلط آیا۔
تبتی دور حکومت میں بلتیوں اور تبتیوں نے چینی فوج کو گلگت کے مقام پر شکست
دی ۔ تبتی تہذیب کا اثر آج بھی گلگت بلتستان پر ہے ، اور خاص طور پر بلتی
زبان تبتی زبان کی ایک شاخ ہے۔ تبتی سلطنت کے خاتمے کے بعد گلگت بلتستان
مختلف حصوں میں بٹ گیا۔ گلگت اور چلاس میں دردستان ،ہنزہ اور نگر میں
بروشال جبکہ بلتستان میں شگر، خپلو اور سکردو کی ریاستیں وجود میں آئی۔
سولھویں صدی عیسوی میں سکردو کے مقپون خاندان کے ایک چشم چراغ نے پورے گلگت
بلتستان کو ایک بار پھر متحد کیا۔ اس کا نام علی شیر خان انچن تھا ، مغل
تاریخ دان اسے علی رائے تبتی کے نام سے یاد کرتے ہیں۔ اس دورکی تاریخی
عمارات جو آج تک موجود ہے ان میں ہنزہ کی بلتت اور التت فورٹ جسے بلتیوں نے
اپنی شہزادی کے لئے بنائی جس کی شادی پنزہ میں ہوئی تھی، گلگت کے قریب ایک
پولو گراونڈ جسے مقپون پولو گراونڈ کہتے ہیں اسی دور میں بنائی گئی، سکردو
میں قلعہ کھر پھوچو، گنگوپی نہر، سدپارہ جھیل پر بند اور چین کے ساتھ
تجارتی شاہراہ براستہ مزتغ شامل ہیں۔ تاریخ ہندوستان اور تاریخ فرشتہ میں
ملا قاسم فرشتہ نے ایک تاریخی واقعے کا ذکر کیا کہ مغلیہ فوج کی لڑائی
تبتی(بلتی) فوج کے ساتھ کشمیر کے شمالی پہاڑوں پر ہوئی جس میں مغلیہ فوج کو
شکست کا سامنا کرنا پڑا، بعد میں مغل شہنشاہ اکبر نے بلتی بادشاہ علی راءے
کے پاس ایک سفیر بھیجا اور سفارتی تعلقات قائم ہے گئے اور پھر مغلیہ دربار
میں علی راءے نے اکبر سے ملاقات کی اور مغل شہزادی کی شادی بلتی شہزادے کے
ساتھ ہوئی۔ مغل شہزادی کا نام گل خاتوں تھا۔ جس کا تاریخی ثبوت سکردو میں
مغل شہزادی کے نام سے بنائی گئی مندوق کھر ہے ، مندوق بلتی زبان میں
پھول(گل) کو کہتے ہیں۔ انچن کی وفات پے اسکے بیٹے آدم خان اور عبدال خان
میں جھگڑا ہوگیا اسکے بعد مقپون خاندان کا زوال ہوگیا اور گلگت بلتستان پھر
چھوٹی ریاستوں میں بٹ گئے۔
1840 ء میں زور آور سنگھ نے پہلے بلتستان پرپھر گلگت پر حملہ کرلیا ا۔ لیکن
12 دسمبر 1841ء کو زور آور سنگھ قتل ہوگیا توسکردومیں احمد شاہ نے بلتسان
میں بغاوت کرادی۔ مگر آزادی کی یہ جدوجہد کامیاب نہ ہوسکی اور بلتستان واپس
1842ء میں ڈوگرہ حکومت کے قبضے میں چلی گئی، گلگت ۔بلتستان میں ڈوگرہ حکومت
1948ء تک رہی۔ڈوگرہ حکومت کی 108 سالہ تاریخ میں گلگت بلتستان کے عوام پر
ظلم و ستم کے پہاڑ توڑے گئے۔
یاد رہے انگریزوں نے جو کشمیر ڈوگروں کو بیچا تھا اس میں گلگت و بلتستان
شامل نہیں تھا مگر گلاب رائے کے صاحبزادے رنبیر سنگھ بادشاہ بنے تو ان کی
افواج نے گلگت اور بلتستان کو فتح کرکے زبردستی کشمیر کا حصہ بنا لیا تھا۔
14 اگست کو جب پاکستان وجود میں آیا تو گلگت میں کرنل مرزا حسن خان کی
سرکردگی میں انقلاب آیا۔ اہل گلگت اور بلتی عوام نے ڈوگرہ حکمرانوں کے خلاف
گلگت بلتستانِ کی آزادی کے لئے جنگ لڑی ۔ کرنل حسن خان کی سربراہی میں
ڈوگرہ گورنر گھنسارا سنگھ کو گرفتار کیا اور یکم نومبر 1947 کو بونجی
چھاونی پر حملہ کر کے ڈوگروں کو گلگت سے بھاگنے پر مجبور کیا۔ یہ جنگ
آزادی 14 اگست 1947 کوشروع ہوئی اور نومبر1947 تک گلگت اور استور کا علاقہ
آزاد کرا لیا گیا۔ گلگت بلتستان کو ڈوگرہ حکمرانوں سے آزاد کروانے میں گلگت
سکاّوٹس اور چترال سکاوٹس ،راجہ سکردو اور راجہ روندو اور علاقے کے عوام نے
نمایاں کردار اداکیا تھا جنہوں نے بے سروسامانی کے عالم میں کرگل تک کے
علاقے کو آزاد کیا اورسکردو کے سنگلاخ پہاڑیوں پر اپنا جھنڈا لہرانے میں
کامیاب ہوگئے۔ گلگت بلتستان کی آزادی کے فورا بعدیہ علاقہ پاکستانی
زیرانتظام کشمیرکی طرح عوام اپنی مرضی اور خواہش پرپاکستان کے عارضی انتظام
میں آیااور 1972 تک گلگت بلتستان کو پاکستان کی وفاقی حکومت کے زیر انتظام
علاقے کی حیثیت حاصل رہی۔ اور یہاں قبائلی علاقوں کی طرح ایف سی آر نافز
رہی، ریاست کشمیرکے دیگرتمام خطوں کی طرح گلگت بلتستان کی حتمی آئینی حیثیت
کا تعین مسئلہ کشمیر کے مسئلے کے حل نہ ہونے کی وجہ سے ابھی تک نہیں ہوا ،
ستمبر 2009 میں اس وقت کے صدر پاکستان نے گلگت بلتستان کے عارضی انتظامی
حقوق کے حوالے سے ایک صدارتی آرڈنینس جسے’’سیلف گورننس آرڈیننس‘‘کا نام
دیاگیاہے ،جاری کردیاجس کے بعدگلگت بلتستان میں جموں کشمیراورپاکستانی زیر
انتظا م کشمیرکی طرح ایک قانون سازاسمبلی کاقیام عمل میں آیااوراس طرح
گلگت بلتستان کے عوام کوقانون سازی کے لئے اپنے نمایندے چننے کے لئے
باضابطہ اختیارتفویض ہوا۔2009میں یہاں باضابطہ طور24نشستوں پرمشتمل قانون
سازاسمبلی کے لئے پہلے الیکشن ہوئے جوپیپلزپارٹی نے جیت لئے اورمہدی شاہ
وزیراعلیٰ منتخب ہوئے ۔اس دوران پاکستان پیپلز پارٹی کی حکومت نے گلگت
بلتستان کے لئے اصلاحاتی پیکچ کا اعلان کیاتھا جس میں علاقے کوعارضی انتظام
کے تحت چلانے کے لئے مزید آئینی وسیاسی اور عدالتی اصلاحات کاذکرتھا۔ لیکن
یہ نظام گلگت بلتستان کے عوام کو کچھ نہیں دے سکا، اس نظام کے تہت گلگت
بلتستان کے عوام پر الٹا ٹیکس بڑھا دئے گئے۔ میدی شاہ حکومت کی مدت پورا
ہونے کے بعد 2015 میںدوبارہ الیکشن کرایا گیا جس میں پاکستان مسلم لیگ ن کی
حفیظ الرحمان کو وزیر اعلی منتخب کیا ہے۔
پاکستان نے یہ سوچ کر گلگت بلتستان کو تنازعہ کشمیر کا حصہ بنایا تاکہ
کشمیر پر اگر اقوام متحدہ کی نگرانی میں رائے شماری ہو جائے تو جموں کی
ہندو ووٹ کو گلگت بلتستان کی مسلم ووٹ کاونٹر کریگا۔ لیکن کشمیری اب نہ
پاکستان میں شامل ہونا چاہتا ہے اور نہ انڈیامیں۔ جموں کشمیر لبریشن فرنٹ
اور حریت کانفرنس بھی کشمیر کو ایک آزاد ملک دیکھنا چاہتا ہے، ۹۰ کی دھائی
میں امریکہ کشمیر کو الگ ملک بنانے کے پوزیشن میں تھا تاکہ امریکہ کے لئے
وسط ایشیا میں چین کے قریب ایک اتہادی ملک مل جائے جو صرف اس کے اشاروں پہ
چلے اور اس کے لئے امریکہ انڈیا سے ٹکر لینے کےلئے تیار تھا لیکن پاکستان
نے امریکہ کی اس خواب کو تعبیر ہونے نہیں دیا۔ اب پاکستان لاکھ کوشش کرے
کشمیری پاکستان کے ساتھ رہنا نہیں چاہتا وہ الگ ملک کے خواہاں ہے اس لئے
گلگت بلتستان کے محب وطن لوگ ابھی تک پاکستان کے ساتھ ہے، برعکس کشمیریوں
کے جو الگ ملک کی خواب دیکھ رہے ہیں۔ ایسے میں گلگت بلتستان کو کشمیری
علیحدگی پسند تہریکوں کے کہنے پر کشمیر کے ساتھ جوڑ کے رکھنا پاکستان کا
خود اپنے پاوّں پہ کلہاڑی مارنے کے مترادف ہے۔ اگر کشمیر پر رائے شماری ہو
جائے تو اکثریت کشمیری الگ ملک کے لَئے ووٹ دینگے اور پاکستان کو مجبورا
گلگت بلتستان کشمیر کے حوالے کرنا پڑیگا جو پاکستان کے مستقبل اور اقتصادی
راہداری اور مستقبل کے تمام بڑے منصوبوں پر پانی پھیر دیگا اس لئے گزرتے
وقت کے ساتھ پاکستانی خارجہ امور کے ماہرین کو اپنی پالیسی پر نظر ثانی
کرنا چاہئے۔ اور گلگت بلتستان کے عوام کی امنگوں کے مطابق گلگت بلتستان کو
مکمل آئینی حقوق دینا چاہیے۔ |