عوام پر نئے ٹیکسوں کا بوجھ

آئی ایم ایف نے پاکستان سے ٹیکس وصولی کا 13کھرب 80 ارب روپے کا ہدف حاصل کرنے کیلئے سپیشل ڈیوٹی لگانے کا مطالبہ کیا ہے۔ جبکہ حکومت ان دنوں ویلیو ایڈڈ ٹیکس لگانے میں سنجیدہ ہورہی ہے۔ جس سے حکومت کو آٹھ سو ارب روپے کی ٹیکس آمدنی کی توقع ہے۔ ویلیو ایڈڈ ٹیکس کھپت کے بجائے پیداوار پر لگایا جاتا ہے۔ یہ ٹیکس مصنوعات کی حتمی قیمتوں پر لگانے کے بجائے پیداواری سلسلے میں ہر مرحلے، خام مال کی ڈسٹری بیوشن سے لے کر حتمی سیل کی قیمت پر لگایا جاتا ہے۔ باالفاظ دیگر پروڈیوسرز اور ڈسٹری بیوٹرز پر یہ ٹیکس نہیں لاگو کیا جاتا بلکہ اس کا اصل بوجھ اشیاء صارفین پر پڑے گا۔ یہ ٹیکس اشیائے خوردنی، گھریلو کھپت کی اشیاء اور ایسی ادویات پر بھی لاگو ہوگا جو اس وقت پاکستان میں جنرل سیلز ٹیکس سے مستثنیٰ ہیں جبکہ صرف آٹا، گندم اور زندگی بچانے والی دوائیاں اس ٹیکس سے مستثنیٰ ہوں گی۔

پاکستان دنیا کے ان مملک میں سے ہے جس کے غریب عوام براہ راست ٹیکسوں کی زد میں ہیں۔ گذشتہ حکومتوں نے ٹیکسوں کی وصولیابی کے لئے ایک نیا حربہ یہ استعمال کیا ہے کہ بہت سے ٹیکس یوٹیلیٹی کے بلوں میں شامل کردئیے ہیں۔ جو عوام پر ایک بوجھ بن گئے ہیں۔ ٹیکسوں میں خصوصاً پیڑول کی فروخت میں ایک بدعنوانی یہ ہے کہ قیمتوں کا تعین کرتے وقت فی لیٹر قیمت راﺅنڈ فیگر کے بجائے ہمیشہ پیسوں میں رکھی جاتی ہے۔ جس کی بنا پر ہر لیٹر پر پورا روپیہ عوام سے وصول کیا جاتا ہے۔ یہی صورت حال بجلی کے بلوں کی ہے ۔ یوں ہر روز لاکھوں روپے عوام سے زائد وصول کئے جاتے ہیں۔ پاکستان کے 2008-09ء میں اخراجات جی ڈی پی کے 18 سے 20% سالانہ تھے جبکہ ایف بی آر کی محصولات جی ڈی پی کا 9.5% ہیں۔ پاکستان میں اس وقت ٹیکس کی وصولی کی جی ڈی پی میں شرح 9.5% ہے جبکہ انڈیا میں یہ شرح 11 سے 12% ہے۔ پاکستان میں وصول ہونے والا ٹیکس کے ہر روپے میں سے ۰۲ پیسے کرپشن ، اور سرکاری اللے تھللوں میں خرچ کردئے جاتے ہیں۔ ملک کا مقتدر طبقہ ٹیکس کی چوری میں سب سے آگے ہے۔ یہ صرف عوام ہیں یا تنخواہ دار طبقہ جس کی تنخواہوں سے ایٹ سورس ٹیکس وصول کرلیا جاتا ہے۔ بڑھتے ہوئے ٹیکس کا بوجھ بھی اسی طبقے پر ہے۔ ملک کے مخصوص حالات میں اس قدر زیادہ شرح کے ٹیکس سے جو عوام پر لگائے جارہے ہیں۔ اس سے پہلے سے ہی کمزور ملکی معیشت مزید تباہ ہوکر رہ جائے گی اور اس سے افراط زر، مہنگائی اور غربت میں مزید اضافہ ہوگا۔ ملک میں 60% سے 70% تک غیر دستاویزی (انفارمل سیکٹر) ہے۔ جو ٹیکس کی چوری کرتا ہے۔ صرف 30% سے 40% دستاویزی معیشت سے حکومت کو ریونیو مل رہا ہے۔ یہ بات نہیں کہ اس ملک میں لوگ ٹیکس ادا نہیں کرنا چاہتے ہیں۔ اس ملک کے عوام اربوں روپے ایدھی، شوکت خانم، الخدمت، خدمت خلق، انصار برنی ٹرسٹ، سیلانی ویلفیر، چھیپا، اور دیگر فلاحی تنظیموں کو دیتے ہیں۔ لیکن حکومت کو ٹیکس نہ دینے کی وجہ عدم اعتماد ہے۔ عوام یہ سمجھتے ہیں کہ جس حکومت میں کابینہ میں ۳۹ وزیر، مشیر ہوں ،جن پر ہر ایک پر ایک لاکھ روپے روزانہ خرچ ہوتے ہوں۔ تو وہ عوام کی خدمت کیا کرے گی۔ بجلی، پانی، پیٹرول،اشیاء صرف کی قیمتوں میں جو ہوشربا اضافہ ہورہا ہے۔ وہ ملک میں عوام کے صبر کو دعوت دے رہا ہے۔ اب بھی ہم نے عقل کے ناخن نہ لئے تو پھر ملک میں بپھرے ہوئے عوام کو کوئی بند نہ روک سکے گا۔
Ata Muhammed Tabussum
About the Author: Ata Muhammed Tabussum Read More Articles by Ata Muhammed Tabussum: 376 Articles with 418816 views Ata Muhammed Tabussum ,is currently Head of Censor Aaj TV, and Coloumn Writer of Daily Jang. having a rich experience of print and electronic media,he.. View More